• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

بی جےپی کے موقف میں تبدیلیوں کاسفر

Updated: September 16, 2024, 1:54 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

۲۰۰۴ء میں بی جےپی نے انتخابی منشور جاری کیا لیکن اس کی حیثیت این ڈی اے کی دستاویز کی تھی ۔اس میں  ہندوتوا ، یکساں سول کوڈ اوردفعہ ۳۷۰؍ کا کوئی حوالہ شامل نہیں تھا اور الائنس نےباہمی افہام وتفہیم کے ذریعے ایودھیا کا تنازع حل کرنے کی اپیل کی تھی۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

آج  ہندوستان کی غالب سیاسی طاقت  بی جےپی  ہے ۔ سیاسی مفاد کیلئے  اس پارٹی کی اپنے موقف کو تبدیل کرنے کی ایک تاریخ رہی ہے۔ پارٹی  اپنے ایسے موقف کو بھی مسترد کرتی رہی ہےجو وقت کے ساتھ ساتھ فرسودہ ہوتے چلے گئے ۔ یہ اہم پہلو ہے اور ان کالموں   میں  اس کی حقیقت واضح ہوتی جائیگی ۔ مثال کے طور پر ۱۹۵۰ء کی دہائی میں  جن سنگھ کی حیثیت سے اس پارٹی نے ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کے ہندوکوڈ بل کی مخالفت کی تھی کیونکہ اس بل میں طلاق کے تصور کو قبول نہیں کیاگیا تھا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں  ہندوؤں  کی شادیوں کومستقل سمجھا جاتاتھا اورایسا نہ ہونے کی صورت میں مشترکہ خاندان کی اکائی ٹوٹ سکتی تھی اور بنیادی طورپر دیکھا جائے تواس کی بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ مشترکہ خاندان میں  ہندو عورتوں  کو وراثت میں  حصہ لینے کا حق نہیں  تھا ۔ وقت کے سا تھ جب ہندو سماج میں طلاق عام ہوگئی اور شہروں  میں منفرد خاندان کا رجحان بھی عام ہوتا گیا تو پارٹی بھی  اپنے اس موقف  سے دست بردار ہوگئی   ۔
 زیادہ دلچسپ بی جے پی کا ہندوتوا سے رسمی تعلق ہے۔۱۹۹۶ء کے اپنے انتخابی منشور میں پارٹی نے پہلی مرتبہ ’ہندوتوا ‘کا لفظ کا استعمال کیا تھا ۔بی جےپی نے غالباً ایسا اس لئے کیا تھا کہ اس سے پہلے سپریم کورٹ  نے ۱۱؍ دسمبر۱۹۹۵ء کو اپنے ایک فیصلے میں کہا تھاکہ ہندوتواجس پر شیوسینا عمل پیرا ہے ،ایک  ضابطہ ٔ حیات ہے اور اس کا سیاست میں استعمال اپنے اندر کوئی مذہبی پہلو نہیں  رکھتا۔’ ہندوتوا‘ لفظ کا یہ استعمال اس وقت تو کیاجاتا رہا لیکن قومی میڈیا میں  اسےمنفی حوالے سے ہی دیکھا جاتا تھا۔
 ۱۹۹۸ءمیں  پارٹی کے انتخابی منشور میں ’ ہندوتوا‘ کے ۸؍ حوالے تھے جن میں دفعہ ۳۷۰؍ کے حوالے بھی شامل تھے ، اس  میں  گائے کے ذبیحہ پر مکمل پابندی لگائی گئی تھی اوراس میں یکساں  سول کوڈکا تذکرہ تھا ۔لیکن ، اگلے ہی سال یہ سب (حوالے)حذف کردئیے گئے۔ اب منشور میں کسی ہندوتوا کا ذکر نہیں  تھا ، دفعہ ۳۷۰؍ کا کوئی حوالہ نہیں تھا  ، گائے کے ذبیحہ کوئی بات نہیں کی گئی تھی اوریکساں  سول کوڈ کا کوئی بیان نہیں  تھا۔۱۹۹۹ء کے انتخابی منشور میں  اقلیتوں کے تعلق سے پانچ نکات شامل کئے گئے تھے جن میں  انہیں  مکمل تحفظ اور سیکولرازم کے تئیں  پارٹی کے پابند عہد ہونے کایقین دلایا گیاتھا ۔ سوال یہ ہےکہ ایک سال میں پارٹی کے موقف میں  ایسی کیا تبدیلی آگئی تھی ؟
 ۱۹۹۹ء میں بی جےپی اقتدار میں  تھی ۔ممتا بنرجی ، جے للتا اور جارج فرنانڈیز کی شکل میں اٹل بہاری واجپئی کے مضبوط  اتحادی  موجود تھے ۔ کہا جاسکتا ہےکہ اس وقت بی جےپی یا اٹل بہاری واجپئی  نےحکمرانی کے نظریے کو قربان کرکےیہ اتحاد کیاتھا ۔ بی جے پی  نے مذکورہ سال  الیکشن جیتا تھا ا ورمزید میعاد مل گئی تھی ۔
 ۲۰۰۴ء میں  بی جےپی نے انتخابی منشور جاری کیالیکن  اس کی حیثیت این ڈی اے کی دستاویز کی تھی ۔اس مرتبہ بھی ہندوتوا ، یکساں  سول کوڈ  اوردفعہ ۳۷۰؍ کے کوئی حوالے شامل نہیں  کئے گئے تھے۔ اس مرتبہ الائنس نےباہمی افہام وتفہیم کے ذریعے ایودھیا کا تنازع حل کرنے کی اپیل کی تھی۔ 
  بی جےپی یا قبل ازیں  جن سنگھ کے موقف میں  اسطرح کی تبدیلیوں  کے مظاہر اس سے قبل بھی دیکھے گئے تھے ۔ ۱۹۵۷ء میں  پارٹی نے اعلان کیا تھا کہ وہ معاشی نظام میں  ایسی انقلابی تبدیلیاں  متعارف کرائیں  گی جن کی بنیادہندوستانی زندگی کی  قدروں  پرہوگی ۔ بہر حال اس  نکتے کی نہ کبھی کوئی وضاحت کی گئی  اوران ’انقلابی تبدیلیوں ‘ کو نہ ہی مستقبل میں کسی منشورمیں  شامل کیاگیا ۔ 
 ۱۹۵۴ء میں  اور اس کے بعد۱۹۷۱ ء میں بھی جن سنگھ نےیہ عہد کیا کہ ہرہندوستانی کی زیادہ سے زیادہ ماہانہ آمدنی ۲؍ ہزاراورکم سے کم آمدنی ۱۰۰؍ روپےتک محدود کی جائے گی۔اس کا مقصد ۱:۲۰؍ کا تناسب برقرار رکھنا تھا  اوربتدریج  اسے۱:۱۰؍ کے تناسب پر لانا تھا۔ آمدنی کے تناسب میں  یہ ایک مثالی فرق تھا اورہر ہندوستانی کو اسی تناسب میں  آمدنی رکھنے کاپابند تھا۔فرد کی اس حدکے علاوہ اضافی آمدنی  ترقیاتی کاموں میں حکومت کے ذریعےبطور تعاون لی جانی تھی یا اسے ٹیکس کے ذریعے وصول کیاجانا تھایا اسے لازمی قرض  یا سرمایہ کاری میں  لگانے کا التزام تھا۔پارٹی اس وقت شہروں  میں رہائشی مکانات کی  جسامت اور حد کا بھی تعین کرنا چاہتی تھی اوراس کا ہدف تھا کہ مکانات ایک ہزارمربع یارڈ سے زیادہ نہ ہو۔واجپئی کے دور اقتدار میں   یہ جاری رہا لیکن اسکے بعد بغیر کسی سبب بی جےپی اس سے دست بردار ہوگئی ۔
    اس سے بھی زیا دہ دلچسپ بات یہ ہےکہ جن سنگھ نے حراستی قوانین کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا تھا اوراسے شخصی آزادی کے خلاف  اورمتضاد قراردیاتھا ۔۵۰ء کی دہائیوں  میں  جن سنگھ کے ذریعے کئی بار ایسا وعدہ کیاگیا تھا ۔بہر کیف ۱۹۶۷ء تک پارٹی کے موقف میں  تبدیلی آئی اوروہ کہنے لگی کہ ملک دشمن عناصر کو (جنہیں حکومت ملک دشمن سمجھتی ہے)بنیادی حقوق میں رخنہ اندازی کرنے کی اجازت نہیں  دی جا سکتی۔(یعنی اب ایسے افراد کو حراست میں  بھی لیاجاسکتا ہے) ۔ گزرتے وقت کے ساتھ بی جےپی اورآر ا یس ایس حراستی قوانین  کے سخت حامی  ہوتے گئےجن میں آج یواے پی اے بھی شامل ہے۔ ۱۹۵۴ء میں  پارٹی نے اعلان کیا کہ وہ یہ قانون بنائے گی کہ اس مٹی  پرجس پر کبھی کاشتکاری نہیں کی گئی ہے، صرف ٹریکٹر کے ذریعے  ہل چلائی جاسکتی ہے ۔اس کا مقصدحکومت کی جانب سے گائے اور بیل کے ذبیحہ کو روکنا بتایا گیا تھا ۔بعدا زاں  یہ بھی  پارٹی  کے دستوری نکات سے نکال دیاگیا  اوراس کی کوئی وضاحت نہیں  کی گئی ۔ ۱۹۵۱ء میں  گائے کے ذبیحہ کا قانون اس بنیاد پر لایا گیا کہ حکومت زرعی  زندگی میں  گائےکو ایک معاشی اکائی کی حیثیت دینا چاہتی تھی ۔۱۹۵۴ء میں  اس تعلق سے اقتباس کومزید مذہبی رنگ دیا گیا اورکہا گیاکہ گائے کاتحفظ ایک مذہبی فریضہ ہے۔

یہ بھی پڑھئے:مودی سرکار: تیسری میعاد کے ۱۰۰؍ دن میں کیا ہوا؟

 سوال یہ ہےکہ اس طرح کے قوانین کے اب کیا معنی ہیں ؟یہ بھی حقیقت ہےکہ۲۴۰؍ اراکین پارلیمنٹ  کے ساتھ وزیر اعظم مودی اگر وہ کرنا بھی چاہیں جو وہ ۲۰۱۴ء سے کرتے آرہے ہیں تو اب یہ ممکن نہیں  ہے۔ مودی پارلیمنٹ میں  اب بیک فٹ پر ہیں ۔پھر مودی کو اب کرنا کیاہوگا ؟ یہاں مودی حکومت کیلئے مثالی اٹل بہاری واجپئی کا ہی طریق کار ہے جنہوں  نے حکومت کےموقف میں  تبدیلی کی تھی  اور اسے نظریے سے بدل کر حکمرانی پر مرکوز کیاتھا ۔ ایساکر کے مودی سیکولرعناصر کیلئے بھی راحت کا سامان کرینگے اورخود ان کی پارٹی کیلئے حکمرانی کی مزید گنجائشیں  پیداہوں  گی ۔ کیا یہ قابل غور نہیں ؟

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK