• Thu, 19 September, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مودی سرکار: تیسری میعاد کے ۱۰۰؍ دن میں کیا ہوا؟

Updated: September 15, 2024, 1:26 PM IST | P Chidambaram | Mumbai

ویسے تو کئی معیارات پر حکومت کی کارکردگی کو آنکا جاسکتا ہے مگر صرف بے روزگاری کی بات کی جائے تو ۱۷؍ ستمبر کو پورے ہونے والے ۱۰۰؍ دن میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

اگست کے اواخر میں  وزیر اعظم مودی نے اپنی حکومت کومبارکباد دی اورورلڈ لیڈرس فورم  میں  کہا کہ گزشتہ ۱۰؍ سال میں  ہماری معاشی ترقی کا دائرہ تقریباً ۹۰؍ فیصد تک وسیع ہوا ہے۔ جواعداد و شمار میرے پاس ہیں ، وہ اس طرح ہیں : سال: ۳۱؍ مارچ۲۰۱۴ء: مستحکم قیمتوں پر جی ڈی پی کا اشاریہ : ۹۸؍ لاکھ ایک ہزار ۳۷۰؍ کروڑروپے۔ سال: ۳۱؍ مار چ ۲۰۲۴ء: مستحکم قیمتوں پر جی ڈی پی کا اشاریہ : ایک کروڑ ۷۳؍ لاکھ ۸۱؍ ہزار ۷۲۲؍ روپے۔ 
  مستحکم قیمتوں میں  جی ڈی پی میں  مذکورہ برسوں  میں  یہ اضافہ ۷۴؍ لاکھ ۸۸؍ ہزار ۹۱۱؍ کروڑ روپے تک ہوا ہے۔ اسے اس طرح بھی کہا جاسکتا ہےکہ ترقی کی شرح ۷۷ء۳۴؍ فیصد تک بڑھی ہے۔ ایک ترقی پزیر ملک کیلئے یہ شرح بھی بہتر ہی ہے لیکن لبرلائزیشن کے بعد ۲؍ دہائیوں  کی شرحوں سے موازنہ کرنے پرکچھ مختلف تصویر سامنے آتی ہے۔ مثال کے طور پر: ۹۲- ۱۹۹۱ء سے ۰۴-۲۰۰۳ء (۱۳؍ سال) کے درمیان کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح دوگنا ہوگئی۔ اس کے بعد پھر ۰۵-۲۰۰۴ء سے۱۴-۲۰۱۳ء (یوپی اے کا دور اقتدار) کا جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان برسوں  میں بھی جی ڈی پی کی شرح دوگنا رہی۔ میں  نے اندازہ لگایا تھا کہ مودی کے ۱۰؍ سالہ دورِ اقتدار میں جی ڈی پی کی شرح دوگنا نہیں  ہوسکے گی۔ یہی مَیں  نے پارلیمنٹ میں  بھی کہا تھا اوراب وزیر اعظم مودی نے خود اس کی توثیق کی ہے۔ مختصراً یہ کہ معیشت نے ترقی کی ہے لیکن ہم اور بھی بہتر کرسکتے تھے۔
 اپنی تقریر میں  وزیر اعظم مودی نے کہا کہ ’’ آج ، بھارت کے عوام میں   ایک نیا ا عتماد دکھائی دیتا ہے۔‘‘ چند روز قبل ہی یہ خبر ہم میں  سے بہتوں کی نظر  سے گزری ہوگی کہ۳؍ لاکھ ۹۵؍ ہزار امیدواروں  نے جن میں ۶؍ ہزار ۱۱۲؍ پوسٹ گریجویٹ ہیں ، ۳۹؍ ہزار ۹۹۰؍ گریجویٹ ہیں  اور ایک لاکھ ۱۷؍ہزار ۱۴۴؍ نے بارہویں  تک تعلیم حاصل کی ہے، ہریانہ حکومت میں  ۱۵؍ ہزار روپے ماہانہ کی تنخواہ پر اور کنٹریکٹ بنیاد پر خاکروب کی ملازمت کیلئے درخواستیں  دی ہیں ۔ میں  جانتا ہوں کہ بحث برائے بحث کی ذہنیت رکھنے والے اس خبر کا تجزیہ اسطرح کرینگے کہ اس میں یہ بتایا گیا ہےکہ یہ افرادپہلے سے ہی بر سر روزگار ہیں اور محض سرکاری نوکری کے فوائد کو مد نظر رکھتے ہوئے درخواستیں  دی ہیں ۔ میں  انہیں اس خوش گمانی سے نکالنا نہیں چاہتا ۔
 وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ’’امنگوں سے بھرے ملک کے نوجوانو ں  اور خواتین نے تسلسل،  سیاسی استحکام اورمعاشی ترقی کیلئے ووٹ دیا ہے۔‘‘ کئی مبصرین اورمشاہدین کاکہنا ہےکہ یہ ووٹ اصل میں  مخالفت کیلئے تھا،  یہ ووٹ تبدیلی کیلئے تھا،  آئین کی حکمرانی کیلئے تھا اور مساوی ترقی کیلئے تھا۔ یہ جو دومقاصد کی ایک اکائی ہے وہ قطبین کی طرح ایک دوسرے سے دور ہیں ۔ تسلسل بمقابلہ تبدیلی، سیاسی استحکام بمقابلہ آئین کی حکمرانی اورمعاشی ترقی بمقابلہ مساوی ترقی۔ وزیر اعظم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ عوام نے ووٹوں  کی شکل میں  ان کی حکومت کے مقرر کردہ اہداف کو منظوری دی ہے جبکہ اس کے جواب میں  یہ مضبوط استدلال پیش کیاجاسکتا ہےکہ ان ووٹوں کی شکل میں عوام نے بی جےپی کی حکمرانی کو نامنظور کیا ہے۔
 میں ان کالموں  میں  اپنی بات کو ’ بے روزگار ی ‘ پر ہی مرکوز رکھنا چاہو ں  گا۔ سی ایم آئی ای کے مطابق بے روزگاری کی ملک گیر  شرح ۹ء۲؍ فیصد ہے۔۲۰۲۴ء کے کانگریس کے انتخابی منشور میں کہا گیا تھا کہ لبرلائزیشن کے۳۳؍ سال بعد معاشی پالیسی کو از سر نو ترتیب دینے کا یہ سب سے مناسب وقت ہے۔‘‘ اس منشور میں  ملازمتوں  کے تعلق سے ۲؍ خصوصی تجاویز پیش کی گئی ہیں :
  ایک ایپرنٹس شپ اسکیم ہوگی جس کے تحت ہر گریجویٹ اور ڈپلوما یافتہ کو (مخصوص شعبوں  میں ) ایک سال کی تربیت دی جائے گی جس سےاس کی صلاحیتوں  میں نکھار آئےگا، مخصوص روزگار کے تعلق سے اس کی قابلیت میں  اضافہ ہوگا۔ اس طرح اس اسکیم سے لاکھوں نوجوان باقاعدہ روزگار حاصل کرنے کے قابل ہونگے۔
 کارپوریٹ اداروں  کیلئے روزگار مع بھتہ اسکیم (ای ایل آئی) ہوگی  جس میں  کارپوریٹ اداروں  کو پابند کیاجائیگا کہ وہ باضابطہ معیاری ملازمتوں کے بجائےاضافی ملازمتوں کیلئے نئے افراد کو موقع دیں ۔ اس میں انہیں ٹیکس کریڈٹ کا فائدہ دینے کی پیشکش کی گئی ہے۔
 مجھےخوشی ہوئی کہ ان تجویزوں  کو وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے اخذ کیا اور بجٹ تقریر میں  شامل کیا۔ وزیر اعظم اور  ان کے وزیروں   نے ۹؍ جون ۲۰۲۴ء کو حلف لیا تھا۔ بی جےپی نے دعویٰ کیا تھا کہ تیسری میعاد کیلئے مودی حکومت کے پاس تیار پلان ہے جسے آئندہ ۱۰۰؍ دنوں  میں نافذ کیاجائیگا۔ یہ ۱۰۰؍  دن  ۱۷؍  ستمبر کو  پورے ہورہے ہیں ۔ حکومت نے۲؍ بجٹوں  میں اعلان کردہ تجویزوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئےاب تک کسی منصوبہ کا اعلان نہیں  کیا ہے۔ اس دوران وقف ترمیمی بل کے تعلق سے خاصا جوش دکھایا گیا، اس کے علاوہ، وہ  سرکاری عہدوں  پرتقرری کیلئے لیٹرل انٹری کا بل بھی کافی عجلت میں منظورکرانا چاہتی تھی مگر کامیاب نہیں  ہوسکی۔

یہ بھی پرھئے:’ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے

 محاذِ روزگار پر ہمارے پاس اور بھی خبریں  ہیں ۔ ۲۰۲۳ء اور۲۰۲۴ء میں  کئی ہندوستانی کمپنیوں نے ملازمین کی چھٹی کی ہے جن میں  سویگی، ا ولا اور پے ٹی ایم شامل ہیں  جبکہ ٹیک کمپنیوں   نے افرادی قوت کو مناسب حد میں  رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
 ۵؍ ستمبر۲۰۲۴ء کو ٹائمس آف انڈیا میں ۲؍ ماہرین تعلیم نے خبر دی کہ آئی آئی ٹی ممبئی امسال اپنے گریجویٹ طلبہ میں سے صرف ۷۵؍ فیصد طلبہ کو ملازمت دینے کے قابل رہا۔ جن طلبہ کوکسی نہ کسی طرح  ایڈجسٹ کیا گیا ، ان کی بھی تنخواہ میں  کچھ تبدیلی نہیں  کی گئی ہے۔ آئی آئی ٹیز کے علاوہ دیگراداروں کے گریجویٹ کو ملازمت دلانے کی شرح  (۳۰؍ فیصد) اور بھی مایوس کن ہے۔
 ورلڈ بینک کی  تازہ رپورٹ کے مطابق شہری نوجوانوں  میں  بے روزگاری کی شرح ۱۷؍ فیصد کی بلند شرح پر برقرار تھی۔ ٹریڈ پالیسی اس کا اہم سبب ہے۔ ہندوستان کو چمڑے اور ملبوسات جیسے مزدوروں  سے چلنے والے شعبوں میں برآمدات سے آمدنی بڑھانے میں  کامیابی نہیں ملی ہے۔ رپورٹ ہی کے مطابق چین مزدوروں   اور دستکاروں کی تیارکردہ مصنوعات کی برآمدات سے ہاتھ کھینچ چکا ہے اورہندوستان اس کا فائدہ نہیں اٹھا سکا جس پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ 
 حقیقت یہ ہےکہ ملک میں  بے روزگاری کے مسئلے کوکسی بیانیہ یا فرضی اعدادوشمار پیش کر کے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ٹائم بم ہے اور حکومت نے اس کو ناکارہ بنانے کیلئے کوئی قدم نہیں  اٹھایا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK