• Wed, 23 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

سیاسی حالات کا تغیر اور بھاگوت کی تقریریں

Updated: October 21, 2024, 1:56 PM IST | P Chidambaram | Mumbai

آر ایس ایس کی حیثیت بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرپرست تنظیم کی ہے، اسی لئے بھاگوت کی تقاریر کا تجزیہ ضروری ہے، یہ الگ بات کہ جے پی نڈا نے پارلیمانی انتخابات کے دوران کہا کہ ہمیں آر ایس ایس کی ضرورت نہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک موہن بھا گوت موقع محل کا غیر معمولی احساس رکھتے ہیں ۔ وہ کبھی کبھی ہی لب کشائی کرتے ہیں ، لیکن یہ بات ماننی پڑتی ہے کہ دن اور موقع کا انتخاب شاندار ہوتا ہے۔ ان کے الفاظ کا انتخاب بھی شاندار ہی کہا جاسکتا ہے جبکہ اب تک میں  نے ان کے خیالات اور نظریات کو انگریزی ترجمے کے ذریعہ ہی پڑھا ہے۔ بہت سے لوگ ان کے خیالات سے سخت اختلاف رکھتے ہیں ۔ ایسے لوگوں  میں  مَیں  بھی شامل ہوں  لیکن کوئی بھی شخص اس بات سے اتفاق نہیں  کر سکتا کہ اُن کی تقریریں  توجہ مرکوز کرتی ہیں ، خاص طور پر ۲۰۱۴ء کے بعد۔ چونکہ وہ آر ا یس ایس کے سربراہ ہیں  اس لئے اُن کے خیالات کو بحیثیت تنظیم آر ایس ایس کی ترجمانی سمجھا جاتا ہے اور یہ غلط نہیں  ہے۔ اس میں  تنظیم کی نوعیت اور ساخت کابھی دخل ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جو بھی شخص آر ایس ایس کی سربراہی کرتا ہے وہ اس تنظیم پر مکمل اختیار رکھتا ہے اس لئے بھاگوت کی تقریروں  کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔
 لوک سبھا انتخابات کے نتائج کا اعلان ہونے کے فوراً بعد، جون ۲۰۲۴ء کی بھاگوت کی تقریر مختلف تھی۔ اس میں  خاص بات ان کی نصیحت تھی کہ ’’تکبر چھوڑو اور شائستگی کا مظاہرہ کرو‘‘۔ لوک سبھا انتخابات کے بعد یہ ان کا پہلا عوامی خطاب تھا جس میں  انہوں  نے یہ بھی کہا: ’’انتخابی تقاریر میں  جھوٹ اور ناشائستہ باتیں  اُس طرز عمل کی نفی کرتی ہیں  جن کی اُمید سیاسی جماعتوں  سے کی جاتی ہے۔ دوسری بات انہوں  نے یہ کہی کہ ’’آپ کا جو مخالف ہے وہ مخالف ہی ہے، دشمن نہیں  ہے۔ اس کے بارے میں  یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ صرف ایک مخالف نقطہ نظر کی نمائندگی کرتا ہے، اسے حریف کے بجائے اپوزیشن کہنا چاہئے۔ اپوزیشن کی رائے پر غور بھی کرنا چاہئے۔ تیسری بات انہوں  نے یہ کہی کہ ایک سچا خادم یا خدمت گار (سیوک) اپنے وقار کو برقرار رکھتا ہے۔ اسے اپنے کئے ہوئے کاموں  کو گنوانے (احسان جتانے) سے گریز کرنا چاہئے کہ یہ تکبر ہے۔ بھاگوت کی اس تقریر کو بڑے پیمانے پر وزیر اعظم مودی اور ان کی انتخابی مہم سے جوڑ کر دیکھا گیا اور یہ تاثر لیا گیا کہ یہ اُن کے طرز عمل اور طرز گفتار کی براہ راست تنقید اور گرفت ہے۔ 
 بھاگوت کی دوسری تقریر جولائی کی ہے جس میں  اُنہوں  نے کہا (جو کافی موضوع بحث بنا) کہ ’’آدمی سپر مین بننے کا خواہشمند ہے پھر وہ خود کو دیو کہتا ہے اور پھر بھگوان کہنے لگتا ہے۔‘‘ اس جملے میں  بھی براہ راست وزیراعظم مودی پر گرفت کی گئی تھی کیونکہ انہوں  نے پارلیمانی انتخابات کے موقع پر دیئے گئے ایک انٹرویو میں  اپنا یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ وہ خود کو طبعی طریقے سے پیدا ہونے والا انسان (بایولوجیکل،حیاتیاتی) نہیں  مانتے۔ 
 اُن کی حالیہ تقریر ۱۲؍ اکتوبر ۲۴ء کی ہے جو وجے دشمی کے دن آر ایس ایس کے ۱۰۰؍ ویں  سال میں  داخل ہونے کی مناسبت سے کی گئی۔ میں  نے اسکے بعض حصے انگریزی میں  پڑھے۔ اس تقریر سے مجھے مایوسی تو ہوئی لیکن حیرت نہیں  ہوئی۔ فوراً ہی بھاگوت اپنی وچار دھارا پر لوَٹ آئے۔ ان کی تقریر میں  دھرم، سنسکرتی، ذاتی اور قومی کردار، نیکی اور نیکی کی فتح اور خود پر فخر کرنے جیسے الفاظ اور جملے دکھائی دیئے۔ انہوں نے حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازع کا حوالہ دیا مگر اُن ۴۳؍ ہزار اموات کا کوئی ذکر نہیں  کیا جو جنگ کے باعث ہوئیں ، اُنہوں  نے جموں  کشمیر کے انتخابات کا بھی حوالہ دیا مگر نئی حکومت کو نیک خواہشات پیش نہیں  کیں ۔ اسی طرح انہوں  نے منی پور کا بھی تذکرہ کیا مگر اتنا ہی کہہ کر رہ گئے کہ یہ ’’شورش زدہ‘‘ علاقہ ہے۔ اُن کی تقریر کے باقیماندہ حصوں  میں  وہی ہے جو وزیر اعظم عموماً مودی کہتے رہتے ہیں  کہ ہندوستان پہلے سے زیادہ طاقتور ہوگیا ہے،ترقی کررہا ہے جس کی وجہ سے عالمی سطح پر ہمارا اثرو رسوخ بڑھ رہا ہے اور ہمیں  کسی قابل سمجھا جانے لگا ہے۔ 
 اگر آپ بھاگوت کی تقریر میں  لفظ ’ہندو‘کی جگہ ’مسلم‘ رکھیں  تو محسوس ہوگا کہ بولنے والا ہر فرقہ وارانہ تصادم کا جواز پیش کر رہا ہے۔ بھاگوت کا ہر خیال اور لفظ ہندوستان میں  مسلمانوں  اور دلتوں ، امریکہ میں  سیاہ فاموں ، جنگ عظیم سے پہلے کے جرمنی میں  یہودیوں ، اپنے ہی وطن میں  فلسطینیوں ، اکثریت سے خوفزدہ ہر اقلیت اور خواتین کی حالت زار کو بیان کرنے کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہر جگہ جارح کون ہے اور شکار کون ہے۔ ایسا بھی لگتا ہے کہ آر ایس ایس نے جدید سیاسی گفتگو کی زبان پر عبور حاصل کر لیا ہے۔ اس تقریر میں  انہوں  نے بہت سے الفاظ کا آزادانہ اور فراخدلانہ استعمال کیا مثلاً ڈیپ اسٹیٹ، بیداری، ثقافتی مارکسسٹ، فالٹ لائنز تلاش کرنا، اور متبادل سیاست، مگر `اربن نکسل اور `ٹکڑے ٹکڑے گینگ کا حوالہ دینے سے گریز کیا البتہ `’’بہارِ عرب‘‘ اور `حال ہی میں  پڑوسی ملک بنگلہ دیش کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ ہندوستان میں  بھی ایسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں  ۔ (خدانخواستہ)۔ میں  حیران ہوں  کہ بہارِ عرب یا بنگلہ دیشی طالب علموں  کی مزاحمت  میں  ’برائی‘ کیا تھی؟ آخر بنگلہ دیش میں  طلبہ ہی کی تحریک اور جدوجہد  تھی جس کے سبب حالات بدلے، حکومت تبدیل ہوئی اور عوام کو جبر کی سیاست سے نجات ملی۔ 

یہ بھی پڑھئے: دُنیا کی مضبوط اور کمزور طاقتیں: کون کیا کرتا ہے؟

 بہرکیف، بھاگوت کی پہلی اور دوسری تقریر میں  اور حالیہ تقریر میں  واضح فرق ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے درمیان جو اختلافات پیدا ہوئے تھے وہ اچانک ’’دور‘‘ ہوگئے ہیں  اور اتفاق رائے پیدا ہوگیا ہے۔ اب وزیر اعظم مودی کے بیانات اور اقدامات پر جو گرفت آر ایس ایس کی جانب سے ہورہی تھی یا جس کی توقع کی جاسکتی ہے کہ سرپرست تنظیم ہونے کے ناطے اس کے ارباب اقتدار کچھ کہیں  گے، اب نہیں  ہوگی۔
  اس کا مطلب یہ ہے کہ وزیر اعظم مودی اپنے اختیار کو استعمال کرنے، اپوزیشن جماعتوں  کو بُرا بھلا کہنے اور اپنی حکومت کی پالیسیوں  کو سوفیصد درست ماننے کے طرزعمل کو جاری رکھیں  گے اور مہنگائی، بے روزگاری، عدم مساوات، سرمایہ داروں  کی منہ بھرائی، سماجی جبر، فرقہ وارانہ تنازعات اور ناانصافی پر خاموش رہنے ہی کو ترجیح دیں  گے جیسا کہ وہ اب تک کرتے آئے ہیں ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK