ایک ایسا عالمی نظام بھی ہے جو غیر تحریر شدہ ہے۔ اس کے تحت دُنیا کی بڑی طاقتیں وہی کرتی ہیں جو اُنہیں کرنا ہوتا ہے اور کمزور طاقتیں وہ سب کچھ سہتی ہیں جن کے خلاف وہ کچھ کر نہیں پاتیں۔
EPAPER
Updated: October 20, 2024, 4:41 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
ایک ایسا عالمی نظام بھی ہے جو غیر تحریر شدہ ہے۔ اس کے تحت دُنیا کی بڑی طاقتیں وہی کرتی ہیں جو اُنہیں کرنا ہوتا ہے اور کمزور طاقتیں وہ سب کچھ سہتی ہیں جن کے خلاف وہ کچھ کر نہیں پاتیں۔
بین الاقوامی قوانین پر مبنی نظام جنگل کی حکمرانی کیلئے ایک خوش فہمی ہے جو عالمی طاقتوں کی سیاست کو واضح کرتا ہے۔
’’مضبوط طاقتیں وہی کرتی ہیں جو وہ کرسکتی ہیں اور کمزور طاقتیں وہی کرتی ہیں جو انہیں کرنا چاہیے‘‘۔ یہ جملہ کم و بیش ڈھائی ہزار سال قبل لکھی گئی ایک مشہور تاریخی کتاب سے ماخوذ ہے جو بین الاقوامی تعلقات کے نظریے کی بنیاد ہے مگر آپ دیکھیں گے کہ یہ بات ہمارے بہت سے اداروں بشمول اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کونسل پر صادق آتی ہے۔ وہ اس طرح کہ یہ طاقتیں فلسطینیوں یا لبنانیوں سے کہتی رہتی ہیں کہ ایک بین الاقوامی نظم ہے جو اپناکام کررہا ہے مگر (وہ اس بات کو کیسے سنیں یا مانیں ؟) جب ان کے بچے یکطرفہ جنگ میں فوت ہو رہے ہیں ۔ یہی معاملہ یوکرینی، ایرانی، کیوبن، ویتنامی اور افغان عوام کے ساتھ ہے۔
جب یہ حقیقت ہو تو بین الاقوامی معاملات میں الگ الگ ممالک اولین ترجیح اپنے مفاد کو دیں گے یہ تو فطری عمل ہے۔یہی ہوتا ہے اور یہی ہوگا بھی کیونکہ اس کے علاوہ تو کوئی چارا نہیں ہے۔اس پس منظر میں ہندوستانی اُمور کو دیکھئے۔ ہندوستان پر الزام ہے کہ اس نے غیر ملکی سرزمینوں پر افراد پر حملوں کا حکم دے کر مذکورہ بالا نظام (آرڈر) کی خلاف ورزی کی ہے جبکہ متعلقہ ممالک وہ ہیں جو اس کے دوست ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہندوستان اپنی سرحدوں کے پار سے کوئی خطرہ محسوس کرتا ہے، اور اسے یہ لگتا ہے کہ وہ کسی کارروائی سے بچنے کیلئے کافی مضبوط ہے، تو وہ کارروائی کرے گا۔ یہ بات بھی قابل فہم ہے۔اس ضمن میں کئی سوالات اُبھرتے ہیں مگر آئیے ان میں سے صرف ایک سوال کا جائزہ لیں : آخر اُس خطرہ کی نوعیت کیا ہے جس کے بارے میں ہم پر الزام ہے کہ ہم نے اُس کے خلاف کارروائی کی۔ اگر وہ واقعی خطرہ ہے تو کتنا سنگین ہے؟
اس سلسلے میں اموات کے اعداد و شمار سے بہت کچھ معلوم ہوسکتا ہے۔ ساؤتھ ایشیا ٹیررازم پورٹل کا کہنا ہے کہ پنجاب میں تشدد کا آغاز ۱۹۸۴ء میں ہوا جب وہاں ۴۵۶؍ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ یہ آپریشن بلیو سٹار اور وزیر اعظم اندرا کے قتل کا سال تھا۔ ہلاکتیں تین دہائیوں پہلے ۱۹۹۱ء میں سب سے زیادہ تھیں ۔ اس سال ۵؍ ہزار سے زائد افراد مارے گئے تھے۔ اگلے سال اس میں کمی آئی اس کے باوجود لیکن پھر بھی تقریباً ۴؍ ہزار ہلاکتیں درج کی گئیں ۔ اس کے بعد یہ تعداد کم ہو گئی۔ ۱۹۹۸ء سے ۲۰۱۴ء تک سالانہ اموات کی تعداد صفر رہی، کم و بیش ۱۲؍ سال ۔مگر، گزشتہ چھ سال میں اموات کی تعداد یک عددی سے بڑھ گئی ہے۔ اس میں حفاظتی جوان کوئی نہیں ہے۔ بہرکیف، اگر حکومت اور حفاظتی انتظامیہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اب بھی قومی سلامتی کیلئے ایک سنگین خطرہ ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر ہم کارروائی کا جواز پیش کرتے ہیں جس کا الزام ہم پر ہے تو اس سوچ کا کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی سطح پر اظہار ہونا چاہئے۔ کسی کو ناپسند کرنا الگ بات ہے اور جنہیں ناپسند کرتے ہیں اُنہیں سلامتی کا خطرہ بتانا بالکل دوسری بات۔ اس پس منظر میں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہماری حکومت جس چیز کو قومی سلامتی کیلئے خطرہ سمجھتی ہے اُس کے معاملے میں ہم کہاں ہیں ۔ اس کا جواب ہے: ہم خود کو کہیں نہیں پاتے۔ ایسا کہنے کی وجہ ہے: جنوری ۲۱ء میں ایک تھنک ٹینک نے ایک سبکدوش جنرل کا مقالہ پیش کیا تھا جس میں اُنہوں نے لکھا تھا کہ ملٹری میں ہونے والی تبدیلیوں کے سبب ایک افسر (اس وقت جنرل بپن راوت) کو یہ موقع ملا کہ وہ اپنی مہارت اور صلاحیت کا مظاہرہ کریں ۔ افسوس کہ مذکورہ مقالے میں جو بحث ہوئی اُس کا مقالے کے اخیر میں یہ نتیجہ نکالا گیا کہ فوجی سربراہ (چیف آف ڈیفنس اسٹاف) اُس وقت تک کوئی دفاعی حکمت عملی تیار نہیں کرسکے تھے۔
اس کی ایک ویہ یہ ہوسکتی ہے کہ حکومت اب تک شاید یہی طے نہیں کرپائی ہے کہ جو مسئلہ درپیش ہے وہ کس نوعیت کا ہے۔چھ سال پہلے دفاعی منصوہ بندی کمیٹی قائم کی گئی تھی جس کی سربراہی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال کو دی گئی۔ اس کمیٹی میں خارجہ سکریٹری، دفاعی سکریٹری، فوجی سربراہ (چیف آف ڈیفنس اسٹاف)، تینوں افواج کے سربراہان اور وزارت مالیات کے سکریٹریوں کو شامل کیا گیا۔ منوہر پاریکر انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹیڈیز اینڈ اینالیسس میں شائع ہونے والے ایک مقالے کے مطابق اس کمیٹی کو ایک بہت اہم ذمہ داری دی گئی تھی۔ وہ تھی: قومی دفاع اور سلامتی ترجیحات، خارجہ پالیسی کے تقاضے، مختلف اُمور کی انجام دہی سے متعلق ہدایات اور دیگر کا تعین کرنا۔ اس کی ایک میٹنگ ۳؍ مئی ۲۰۱۸ء کو ہوئی اور ایسی کوئی اطلاع نہیں ہے جس سے معلوم ہو کہ اس کی دوسری بھی کوئی میٹنگ ہوئی ہے۔ یہ اُس حکومت کے تعلق سے بڑی حیرت انگیز بات ہے جو یہ کہتے نہیں تھکتی کہ اُسے قومی سلامتی کی بہت فکر ہے یا قومی سلامتی اُس کی اولین ترجیح ہے۔اس سال مئی میں ایک اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ’’اگر ہندوستان کی کوئی قومی سلامتی حکمت عملی تحریری شکل میں نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایسی کوئی حکمت عملی ہے ہی نہیں ۔ کیا اس سلسلے میں ہماری اسٹراٹیجی مطلقاً صاف نہیں ہونا چاہئے؟ کیا مذکورہ بالا کمیٹی جو اجیت ڈوبھال کی سربراہی میں بنائی گئی اور جس کی اب تک صرف ایک میٹنگ ہوئی ہے، کو مزید ملاقاتوں اور غوروخوض نیز تبادلۂ خیال کے بعد کوئی ایسی جامع حکمت عملی تیار نہیں کرنا چاہئے تھا جو واضح ہوتی اور جس کی اطلاع متعلقہ تمام لوگوں کو ہوتی!
یہ بھی پڑھئے: عجب کردار ہوں مظلوم بھی ہوں ظالم بھی
امریکہ اور کینیڈا کے بارے میں ہمارا ردعمل متضاد کیوں ہے یہ سوچنے والی بات ہے مگر اس کی وجہ کو اب تک کی بحث میں تلاش کیا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ بین الاقوامی نظام میں ہوتا آیا ہے اور کہا جاسکتا ہے یہ اس کی سرشت اور فطرت ہے جس میں طاقتور وہی کرتے ہیں جو وہ کر سکتے ہیں اور کمزوروں کو وہی نقصان اٹھانا پڑتا ہے جو شاید اُن کا مقدر ہے۔ تاہم جس چیز پر خاص روشنی ڈالی جانی چاہیے وہ ہے استدلال کا مسئلہ۔ کیا ہم نے حل پر کام شروع کرنے سے پہلے اپنے قومی سلامتی کے مسائل کی نوعیت کے بارے میں سوچا ہے؟ یا جیسا کہ کہا گیا کیا ہمارے پاس تحریری اور واضح شکل میں کوئی قومی سلامتی پالیسی ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے ۔