Inquilab Logo Happiest Places to Work

شعبۂ مینوفیکچرنگ میں چینی بالادستی اور اس کی خود اعتمادی

Updated: April 13, 2025, 1:32 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

چین کئی معاملات میں مغربی ملکوں سے بھی آگے ہے۔ سولار پینل تیار کرنے میں اس نے جو کمال دکھایا وہی دیگر مصنوعات کی تیاری میں بھی دیکھا جاسکتا ہے

Photo: INN
تصویر:آئی این این

ڈونالڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ دُنیا اُن کے آگے ہاتھ جوڑ رہی ہے (کہ ٹیریف کا کھیل بند کیجئے، ٹیریف کی نئی شرائط مت لگائیے)۔ کیا ہم بھی اُن ملکو ں  میں  سے ایک ہیں  جو ایسا کررہے ہیں ؟ بظاہر ہم (ایسا) نہیں  کررہے ہیں ۔ ہفتہ رفتہ کے دوران شائع ہونے والی ایک سرخی میں  پیوش گوئل کا بیان نقل ہوا جس میں  کہا گیا تھا کہ ’’ہم بندوق کی نوک پر شرطیں  طےنہیں  کرتے۔‘‘ اُنہوں  نے بات درست کہی اور یہ مضمون نگار اُن کی بات سے اتفاق کرتا ہے۔یہ نقطۂ نظر ٹھیک ہے۔ خود مختار ملکوں  کو ایسا ہی کرنا چاہئے۔ چین نے سخت ردعمل کا اظہار کیا، اب تک اس طرح کا ردعمل صرف کنیڈا کی طرف سے آیا ہے مگر ایسے وقت میں  جب کہ امریکہ کی جانب سے واضح نہ ہو کہ وہ کیاچاہتا ہے اور اس کا حتمی ہدف کیا ہے، انتظار کرنادرست ہے اور یہی مرکزی حکومت کررہی ہے۔ مگر گوئل نے جو کچھ کہا اُس کا کچھ اور بھی زاویہ تھا جس سے اُنہیں  مشکل پیش آئی۔ انہوں  نے کہا کہ ہندوستان کے نئے تجارتی گھرانے تجارت (انہو ں نے دکانداری لفظ استعمال کیا) کررہے ہیں  اور اختراع کاری (اِنوویشن) نہیں ۔ انہوں  نے ملک کی صورت حال کا چین سے موازنہ کیا اور کہا کہ چین کے اسٹارٹ اَپ روبوٹس بنارہے ہیں  اور مصنوعی ذہانت پر کام کررہے ہیں ۔ اگر ہم اُن کے بیان پر غور کریں  تو محسوس ہوگا کہ ہندوستان کی تاریخ میں  جو مرکنٹائل کمیونٹی ہے یعنی تجارتی اور کاروباری ادارے وہ یا تو ساز و سامان کا لین دین کرنے والے رہے یا بینک کاری میں  مصروف رہے۔ یہ کیفیت ۲۰؍ ویں  صدی تک جاری رہی۔ ۱۹۱۹ء میں  برلاز نے مینوفیکچرنگ کا آغاز کیا، اُن سے پہلے چند گجراتی اور پارسی تھے جو مینوفیکچرنگ کو ہدف بنائے ہوئے تھے۔ یاد کیجئے ٹاٹا اسٹیل کا قیام ۱۹۱۰ء میں  عمل میں  آیا تھا۔
 پیوش گوئل کا یہ کہنا ہے کہ ہم دکانداری کرتے رہے ہیں  اس اعتبار سے درست ہے کہ جب موقع ملا تب بھی ہم مینوفیکچرنگ کے بجائے ٹریڈنگ میں  رہے حتیٰ کہ جب ڈلیوری ایپس کا دور آیا تب بھی ہم نے ان ایپس کو گلے لگا لیا اور مینوفیکچرنگ پر جتنا دھیان دینا چاہئے تھا، نہیں  دیا۔ سوال یہ ہے کہ ہندوستانی اسٹارٹ اَپ کمپنیوں  کو ایسا کرنا ہوگا جس کے سبب وہ چین کی اسٹارٹ اَپ کمپنیوں  کی طرح  ہوجائیں ؟ یہ سوال تجارتی و کاروباری حلقوں  سے کیا جانا چاہئے۔ یہ سوال حکومت سے بھی کیا جانا چاہئے۔ 
 ہمارے ذہنوں  میں  یہ سوال ضرور آنا چاہئے کہ چین معاشی سطح پر اُس مقام پر کیسے پہنچا جہاں  آج وہ ہے؟ گزشتہ سال میں  کئے گئے ایک تجزیہ سے کچھ بھید کھلتا ہے۔ اس میں  کہا گیا تھا کہ آج کی تاریخ میں  چین دُنیا کا مینوفیکچرنگ کا سب سے بڑا مرکز (مینوفیکچرنگ سپرپاور) ہے۔ اگر دُنیا کے نو (۹) بڑے مینوفیکچرنگ ملکوں  کی پیداوار کو جوڑا جائے تب وہ تنہا چین کے برابر ہوگی۔ اگر آپ اس صورت حال کوسمجھنے کی کوشش کریں  گے تو لامحالہ آپ حکومت کی پالیسیوں  تک پہنچیں  گے کیونکہ چین میں  مینوفیکچرنگ کو جو عروج حاصل ہوا وہ وہاں  کی حکومت کی پالیسیوں  ہی کا نتیجہ ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ چین کے تعلقات معدنیات کی دولت سے مالامال ملکوں  مثلاً افریقی اور لاطینی امریکی ملکوں  سے ہیں ۔ چین نے ان ملکوں  میں  بندرگاہیں  بنائیں  اور ریلوے کی لائن بچھائی۔ اس کی عوامی زمرہ کی کمپنیوں  نے، جو حکومت کی ملکیت ہیں ، کمرشیل بحری جہاز اور کمرشیل ایئرپلین تیار کئے تاکہ اُنہیں  کسی دوسرے ملک پر منحصر نہ ہونا پڑے۔ چین نے اپنے تمام پڑوسی ملکوں  کو قائل کیا کہ جو کچھ بھی نزاعی باتیں  ہیں ، آپس کا جو جھگڑا ہے اُس کو تجارتی معاملات میں  نہ آنے دیں ۔ ان میں  ایسے ممالک بھی ہیں  جن سے ماضی میں  اس کی جنگ ہوچکی ہے، ایسے بھی ہیں  جن کے ساتھ برسوں  سے تنازعات جاری ہیں ۔ آپ کو یہ جان کر حیرت نہیں  ہونی چاہئے کہ چین کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار امریکہ نہیں  ہے۔ یورپی یونین بھی نہیں  ہے بلکہ جنوبی ایشیائی ملکوں  کی تنظیم ہے جو اسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنز کہلاتی ہے۔ اس اسوسی ایشن سے وابستہ ملکوں  میں  ایسے بھی ہیں  جن سے چین کا کافی جھگڑا ہے۔ اس کے باوجود چین اُس جھگڑے کو تجارتی تعلقات کی راہ کی رکاوٹ نہیں  بننے دیتا۔ 
    امریکہ اور چین میں  بھی خاصا فرق ہے۔ اگر امریکہ نے فوجی اتحاد قائم کیا جو ناٹو کہلاتا ہے یا آکس یا کوئیڈ کہلاتا ہے تو چین نے سڑک (بیلٹ اینڈ روڈ ) بنانے کا منصوبہ تیار کیا۔ امریکہ اس کی مخالفت کرتا ہے مگر چین اس مخالفت سے جزبز نہیں  ہوتا، ایسے میں  یہ دیکھنا دلچسپ ہے کہ امریکی مخالفت کے باوجود وہ ممالک جو سڑک کی تعمیر سے خوش ہیں  وہ چین کے بارے میں  کیا سوچتے ہیں ۔ 

یہ بھی پڑھئے: سب غارت و غلطاں ہیں عجب دَور یہ آیا

 یہی دیکھئے کہ پوری دُنیا موسمی تغیرات کے بارے میں  پریشان ہے مگر چین واحد ملک ہے جس نے ایک صنعتی حکمت بنائی جس کا مقصد یہ ہے کہ اس مسئلہ کو سمجھا جائے اور اس کا فائدہ اُٹھایا جائے۔ چین یہیں  نہیں  رکا۔ ہر شعبے میں  اس نے کچھ الگ کرنے کی ٹھانی۔مثال کے طور پر جب اس نے دیکھا کہ آٹوموبائل انڈسٹری میں  وہ جاپان اور جرمن کمپنیوں  سے نہیں  جیت پائے گا تو اس نے الیکٹرک کاریں  بنانے کا فیصلہ کیا اور کامیابی کا نقش قائم کیا۔ ۲۰۱۶ء میں  اس نے ۵؍ لاکھ نئی الیکٹرک کاریں  بنائیں ، ۲۰۱۸ء میں  ۱۰؍ لاکھ اور گزشتہ سال ایک کروڑ کاریں ۔ گزشتہ سال اس نے ۵۸؍ لاکھ کاریں  دیگر ملکوں  کو برآمد کیں ۔ 
 سولار پینل (دیکھئے تصویر) کے شعبے میں  چین کی حکومت نے مستقبل پر نگاہ مرکوز کی اور سولار پینل بنانے کا سلسلہ شروع کیا۔ آج عالم یہ ہے کہ دُنیا میں  سوالار پینلوں  کا ۸۰؍ فیصد چین کا تیار کردہ ہوتا ہے۔الیکٹرک وہیکل کی بیٹری بنانے میں  بھی چین کا ہاتھ پکڑنا مشکل ہے۔ یہ دُنیا کی تیار کردہ بیٹریوں  کا دو تہائی خود تیار کرتا ہے۔چین نے امریکی ٹیریف کا جواب سختی سے دیا اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسی پلاننگ اور نفاذ وہ (چین) کرتا ہے، کوئی اور نہیں  کرسکتا۔ اسے یہ بھی یقین ہے کہ بہت سے معاملات میں  دُنیا کو اُس کی ضرورت ہے۔ یہ خود اعتمادی سے اُسے جرأت عطا کرتی ہے ۔

china Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK