مصنوعی ذہانت، مصنوعی ذہانت، اےآئی، اے آئی، یہ سن سن کر کان پکنے لگے ہیں مگر کان پکیں یا ذہن ماؤف ہو، اس کے بارے میں پڑھنا، مزید جاننے کی کوشش کرنا، سوچنا،غور کرنا اور اس کے عواقب پر نگاہ رکھنا بہت ضروری ہے۔
EPAPER
Updated: March 01, 2025, 1:28 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
مصنوعی ذہانت، مصنوعی ذہانت، اےآئی، اے آئی، یہ سن سن کر کان پکنے لگے ہیں مگر کان پکیں یا ذہن ماؤف ہو، اس کے بارے میں پڑھنا، مزید جاننے کی کوشش کرنا، سوچنا،غور کرنا اور اس کے عواقب پر نگاہ رکھنا بہت ضروری ہے۔
اِنسان مشین کیلئے ہے یا مشین انسان کیلئے، یہ سوال آج سے نہیں صنعتی انقلاب کے دور سے پوچھا جارہا ہے۔ اس کا جواب مشینی دور کے ارتقاء سے ملتا رہا ہے۔ انسان نے مشین ایجاد کی اور اُس سے فائدہ اُٹھایا۔ آمد ورفت کے ذرائع ہوں یا طبی آلات، اطلاعاتی تکنالوجی کے کمالات ہوں یا زرعی شعبے کی بدلی ہوئی شکل، کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں ہے جو مشین کی جادوگری سے تبدیل نہیں ہوا اور اس کا فیض انسانیت کو نہیں ملا۔اٹھارہویں صدی میں دُنیا کی جتنی آبادی تھی اُس سے کہیں زیادہ اُنیسویں صدی میں تھی، اُنیسویں صدی میں اتنی نہیں تھی جتنی بیسویں صدی میں تھی یا اب اکیسویں صدی میں ہے۔ اس آبادی کی ضرورتوں کی تکمیل میں مشینوں نے غیر معمولی کردار اد ا کیا ہے جس سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا۔ مشینوں نے حالات کو یکسر بدل نہ دیا ہوتا تو غذائی پیداواریت میں اضافہ ہوتا نہ ہی ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک ملک سے دوسرے ملک جانا اِتنا آسان ہوتا جتنا کہ ہے۔ انسان اور مشین برسہا برس سے ایک دوسرے کے ساتھی ہیں اور شیرو شکر ہیں ۔ مشین نے انسان کو تب ہی نقصان پہنچایا جب انسان نے اس کی جانب سے غفلت برتی، اس کا ناجائز استعمال کیا اور اسے خود پر اتنا حاوی کرلیاکہ آقا آقانہیں رہ گیا، غلام بن گیا۔ مشین نے تب بھی نقصان پہنچایا جب جذبۂ فیض رسانی بالائے طاق رکھ دیا گیا اور منافع خوری کا جنون سر چڑھ کر بولنے لگا۔
اِن دنوں مصنوعی ذہانت کا شوروغلغلہ ہر جگہ سنائی دے رہا ہے۔ پوری دُنیا میں سب سے زیادہ زیر بحث یہی موضو ع ہے۔ اس پر پانی کی طرح پیسہ بہایا جارہا ہے اور کمپنیوں میں مسابقت کی ایسی دوڑ چل رہی ہے کہ کوئی دن نہیں جاتا جب مختلف کمپنیاں مصنوعی ذہانت کے باب میں کسی نہ کسی اقدام یا پیش رفت کے سبب سرخیوں میں نہ ہوں اور اے آئی کہلانے والی اس ذہانت کے تعلق سے امکانات اور خدشات کی باتیں نہ ہورہی ہوں ۔ یاد رہنا چاہئے کہ اب تک کی تاریخ یہ ہے کہ مشین انسان سے دوستی کرتی تھی، انسان کا ساتھ دیتی تھی، فائدہ پہنچاتی تھی، غفلت شعاری دیکھ کر ناراض ہوتی تھی اور غلط سلوک ہو تو ناراض ہونے تک محدود نہ رہ کر مشتعل ہوجاتی اور نقصان سے دوچار کردیتی تھی۔ کبھی کبھی یہ نقصان اتناہیبت ناک بھی ہوا کہ سوائے تباہی و تاراجی کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ اگر ہمارے سامنے صنعتی و مشینی فوائد کی قابل تعریف تاریخ ہے تو نقصانات کی عبرتناک داستان بھی ہے۔ معلوم ہوا کہ انسان مشین کو فیض انسانیت کیلئے بروئے کار لائے تو وہ سدھائے ہوئے جانور کی طرح یا وفادار خادم کی طرح پیش آتی ہے، اُس کے ساتھ بے دماغی یا بددماغی کا مظاہرہ کرے تو وہ آپے سے باہر ہوجاتی ہے اور پھر یہ تک نہیں دیکھتی کہ اُسے کن مقاصد کے تحت ایجاد کیا گیا تھا۔
مصنوعی ذہانت کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اسیفن ہاکنگ نے اب سے کئی برس پہلے کہا تھا کہ ’’مصنوعی ذہانت کی ایجاد میں کامیابی انسانی تاریخ کا غیر معمولی واقعہ ہوگا (مگر) بدقسمتی سے یہی آخری بھی ہوگا اگر اس سے وابستہ خطرات سے نمٹنے کی فکر نہیں کی گئی۔‘‘ کچھ ایسی ہی بات سیم آلٹ مین بھی کہہ چکے ہیں جو بذات خود مصنوعی ذہانت کو معرض وجود میں لانے والی بڑی انسانی ذہانتوں میں سے ایک ہیں ۔ آلٹ مین نے کہا تھا: ’’بہت ممکن ہے کہ مصنوعی ذہانت دُنیا کے خاتمے کا سبب بنے مگر اس سے پہلے کہ ایسا ہو، بہت سی کمپنیاں اپنی عظمت کے نشان قائم کریں گی۔‘‘ ان صاحب کو جب ’’اوپن اے آئی‘‘ سے معطل کیا گیا تھا تب کمپنی نے معطلی کی کئی وجوہات بیان کی تھیں سوائے اس کے کہ آلٹ مین مصنوعی ذہانت کے تئیں زیادہ فکرمندی کا مظاہرہ کررہے تھے۔یہ جولائی ۲۳ء کی بات ہے۔ آلٹ مین نے یاد دلایا تھا کہ مصنوعی ذہانت ایک آلہ ہے نہ کہ مخلوق اور یہ کسی دن بے قابو بھی ہوسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: انٹرنیٹ کے عہد میں رائج چند الفاظ اور مفاہیم
آلٹ مین کے انتباہ کی وجہ سے مصنوعی ذہانت کے خطرات کی بحث ایک بار پھر مرکزی دھارے میں آگئی تھی کہ مگر بڑے بڑے کارپوریشن اور اُن کے حامی میڈیا نے اس بحث کو زیادہ عرصے تک منصہ شہود پر نہیں رہنے دیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب امکانات پر بحث ہوتی ہے، خطرات پر بحث نہیں ہوتی یا بہت کم ہوتی ہے، بقدر اشک بلبل جبکہ اس نئی ایجاد کا تقاضا یہ ہے کہ سابقہ تجربات کی روشنی میں اس کا جائزہ لیا جائے اور جاری تحقیق کو، کہ مصنوعی ذہانت سے کیا کچھ ممکن ہے، اعتدال کی حدوں سے آگے نہ بڑھنے دیا جائے۔ اور بھی کئی ماہرین ہیں جنہوں نے مصنوعی ذہانت کے خطرات کی نشاندہی کی ہے۔ کسی نے کہا کہ اس کے ذریعہ پیدا ہونے والی طاقت چند ہاتھوں میں مرکوز ہوسکتی ہے جو بہت بڑے خطرہ کا اعلامیہ ہے تو کسی نے مصنوعی ذہانت پر ضرورت سے زیادہ انحصار کے بارے میں کہا کہ یہ انسان کو کمزور کرسکتا ہے۔ دانشمندی اور انسان دوستی کا تقاضا تھا کہ ماہرین کی نشاندہی کو زیادہ سنجیدگی سے لیا جاتا مگر جب منافع مرکزی حاصل کرلیتا ہے تو پوری کہانی اسی کے اطراف گھومنے لگتی ہے اور ہدف طے کیا جاتا ہے کہ کون کتنا کمائے گا۔ آج اگر یہ کہا جارہا ہے کہ اے آئی کی صنعت (مارکیٹ سائز) ۶۰۰؍ ارب ڈالر کی ہے اور ۲۰۳۲ء تک پونے تین کھرب ڈالر کی ہوجائیگی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو کمپنیاں اور کارپوریشن مصنوعی ذہانت کے پیچھے فطری ذہانت کھپا رہے ہیں ، ۲۰۳۲ تک کم و بیش تین کھرب ڈالر کی صنعت سے کروڑوں کا فائدہ اُٹھانے کے درپے ہیں ۔منافع کی خاص بات، جسے سب سے بڑی برائی کہنا زیادہ موزوں ہوگا، یہ ہے کہ جب اس کا نشہ سر چڑھ کر بولتا ہے تو خطرات سے کھیلنے میں لطف آنے لگتا ہے،پھر مصیبت مصیبت نہیں رہ جاتی یا نقصان نقصان نہیں رہ جاتا، پارٹ اینڈ پارسل آف دی گیم ہوجاتا ہے یعنی کاروبار میں یہ سب تو ہوتا ہی رہتا ہے۔
ذہانت اور عقل میں فرق ہے۔ ذہانت سوچ کو پر ِ پرواز عطا کرتی ہے اور نت نئے افق تلاش کرکے تحقیقی کمالات کو راہ دیتی ہے۔عقل بھلے بُرے کی تمیز پیدا کرتی ہے اور انسانیت کی رہبری کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ مصنوعی ذہانت، جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہے، ذہانت ہے اس لئے سوچ کو پر ِ پرواز عطا کررہی ہے۔ یہ عقل کو طے کرنا ہے کہ اس کی پرواز کتنی بلند ہو۔