اس حکومت کیلئے سابقہ دو میعادوں کا تجربہ الگ تھا، موجودہ میعاد اتنی آسان نہیں ہوگی۔ اب یہ ممکن نہیں کہ مودی حکومت جو چاہے پاس کروا لے لہٰذا مفاہمت اور مصالحت کاراستہ تو اپنانا ہی پڑے گا۔
EPAPER
Updated: September 09, 2024, 1:33 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
اس حکومت کیلئے سابقہ دو میعادوں کا تجربہ الگ تھا، موجودہ میعاد اتنی آسان نہیں ہوگی۔ اب یہ ممکن نہیں کہ مودی حکومت جو چاہے پاس کروا لے لہٰذا مفاہمت اور مصالحت کاراستہ تو اپنانا ہی پڑے گا۔
جو حکومتیں اقلیت میں ہوتی ہیں اُن کے سامنے دو چیلنج بہت بڑے ہوتے ہیں ۔ ایک ہے عدم اعتماد کی تحریک پیش ہو تو اسے کس طرح ناکام کیا جائے اور جو قوانین منظور کروانے ہیں اُنہیں کیسے منظور کروائے۔ آئیے ان دو چیلنجوں کا تجزیہ کریں :
پورے پانچ سال تک اقتدار میں برقرار رہنا تب ہی ممکن ہوتا ہے جب برسراقتدار جماعت کے پاس اراکین پارلیمان کی خاطرخواہ تعداد ہو۔ بہ الفاظ دیگر اتنے اراکین کی حمایت حاصل رہے کہ حکومت کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ ہماری پارلیمانی تاریخ بتاتی ہے کہ حکمراں جماعت کو کم سے کم ۱۵۰؍ اراکین کی حمایت حاصل ہو۔ اس سے کم تعداد نہیں ہونی چاہئے۔ ۱۹۹۶ء میں جنتا دل نے کمیونسٹ پارٹیوں کی حمایت سے مخلوط حکومت قائم کی تھی۔ اس حکومت میں دو وزرائے اعظم ہوئے تھے۔ دیوے گوڑا اور اندر کمار گجرال۔ اس پارٹی کی صرف ۷۸؍ سیٹیں تھیں ۔ ایسی صورت ہو تو حکومت مستحکم نہیں رہ پاتی اور اسے بیرونی حمایت پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرنا پڑتا ہے۔ جنتا دل کی یہ حکومت کانگریس کے رحم و کرم پر قائم تھی جس کے سربراہ سیتا رام کیسری تھے۔ یہ حکومت دو سال میں گر گئی تھی۔
ایسی حکومت چلانا جس میں اتحادیوں کی سیٹیں کم و بیش یکساں ہوں خاصا مشکل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود یہ امکان رہتا ہے کہ حکومت اپنی میعاد پوری کرلے۔ ۲۰۱۴ء سے پہلے قائم ہونے والی تین مخلوط اور اقلیتی حکومتیں اپنی میعاد مکمل کرنے میں کامیاب ہوئی تھیں ۔ ان میں جو پہلی حکومت تھی اس نے بڑے اطمینان سے چھ ماہ قبل الیکشن میں جانے کا فیصلہ اور اعلان کردیا تھا۔ ایسا تب ہوا تھا جب حکمراں اتحاد کے پاس ۱۸۲؍ سیٹیں تھیں (واجپئی کی حکومت ۱۹۹۹ء)، جب حکمراں اتحاد کے پاس ۱۴۵؍سیٹیں تھیں (ڈاکٹر منموہن سنگھ ۲۰۰۴ء) اور جب حکمراں جماعت کے پاس ۲۰۶؍ سیٹیں تھی (ڈاکٹر منموہن سنگھ ۲۰۰۹ء)۔
لطف کی بات یہ ہے کہ اِن ادوار میں جو خبریں اخبارات میں شائع ہوتی تھیں اُن میں عموماً یہی کہا جاتا تھا کہ اتحادی ناراض ہیں ، ان میں سرپھٹول ہے اور کسی بھی وقت وہ حمایت واپس لے سکتے ہیں مگر تینوں ہی حکومتیں جاری رہیں اور انہوں نے میعاد پوری کی۔
موجودہ، ۱۸؍ ویں لوک سبھا میں ۲۴۰؍ سیٹوں کے ساتھ بی جے پی واحد پارٹی ہے جو حکومت بنانے کے قابل تھی۔ بلاشبہ اس نے اکثریت گنوا دی مگر اس کی طاقت کم از کم اتنی ہے کہ اپنے انداز سے حکومت جاری رکھے جب تک اسے جاری رکھنی ہو۔حلیف جماعتیں اس بات سے آگاہ ہیں کہ اگر وہ اپنے وزیروں کو ۲۰۲۹ء تک بھی وزارتوں سے بہرہ مند ہونے دینا چاہیں تو یہ ممکن ہوگا اس کیلئے اُنہیں حکومت کے دفاع کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔
اگست کے وسط میں ایک خبر شائع ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پارلیمنٹ میں جب بی جے پی کے اراکین اور اپوزیشن کے اراکین میں تیز جھڑپیں جاری تھیں تب بی جے پی کی حلیف جماعتوں کے اراکین خاموش بیٹھے تھے۔صاف ظاہرتھا کہ اپوزیشن یعنی انڈیا اتحاد کے اراکین متحد تھے جبکہ بی جے پی یکہ و تنہا۔
اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ (بی جے پی کی) اتحادی پارٹیوں کا بی جے پی کے نظریات سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ آخر وہ وقف جیسے بلوں پر بی جے پی کا سپورٹ کیوں کرنا چاہیں گی؟ یہی وہ نکتہ ہے جو ہمیں مخلوط حکومتوں کے دوسرے چیلنج کی طرف لے جاتا ہے۔ دوسرا چیلنج ہے قانون پاس کروالینا جس کا ذکر اس مضمون کی ابتدائی سطور میں کیا گیا۔ اگر بی جے پی کو یقین ہے کہ مرکز میں اس کی حکومت پانچ سال پورے کرلے گی تو میعاد پوری کرنے سے اس کی دلچسپی کیوں ہونے لگی؟ حالیہ مہینوں میں اسے جو ’’یوٹرن‘‘ لینے پڑے، اس سے صاف ظاہر کہ اُس کیلئے قانون پاس کروالینا مشکل ہوگا مگر ایک بار پھر عرض کردوں کہ مخلوط حکومتوں کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔ اوپر بیان کی گئی تین مخلوط حکومتوں میں ڈاکٹر منموہن سنگھ کی پہلی حکومت (۲۰۰۴ء) کئی بہت اہم بل منظور کروانے میں کامیاب ہوئی تھی۔ ان میں قانون برائے اطلاعات (آر ٹی آئی)، منریگا اور امریکہ کے ساتھ نیوکلیائی معاہدہ شامل ہیں ۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ کمیونسٹ پارٹیاں امریکہ کے ساتھ نیوکلیائی معاہدہ کے خلاف تھیں لیکن ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ان کی فکر نہیں کی۔
نرسمہا راؤ کی حکومت کے دور میں کانگریس کے پاس اُتنی ہی سیٹیں تھیں جتنی آج بی جے پی کے قبضے میں ہیں ۔ اس کے باوجو د حکومت معاشی اصلاحات کا قانون منظور کروانے میں کامیاب ہوئی تھی۔ یہیں سے آزاد کاری ( لبرلائزیشن ) کا دور شروع ہوا تھا۔ اس سے ظاہر ہے کہ کمزور حکومتیں بھی طاقتور بل منظور کروا سکتی ہیں اگر اُن میں یہ اعتماد ہو کہ جو کچھ کررہی ہیں وہ صحیح ہے اور ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھئے: بہت اچھے مدرس بھی ہیں اِس دورِ خرابی میں
کہنے کی ضرورت نہیں کہ بعض طاقتور حکومتیں جن کے پاس خاطر خواہ سیٹیں ہوتی ہیں وہ جو بل منظور کروانا چاہتی ہیں کر لیتی ہیں خواہ اُن کا طریقہ کار کتنا ہی غلط ہو۔ اس کیلئے وہ ضروری مباحثہ کو بھی بالائے طاق رکھ دیتی ہیں ۔ نریندر مودی حکومت نے سابقہ میعادوں میں کئی ایسے بل منظور کروائے جن کا بحث و مباحثہ کے بعد منظور ہونامشکل تھا مثلاً ’’منی بل‘‘، آدھار سے متعلق قانون اور الیکٹورل بونڈ کا قانون۔ لیکن،موجودہ حکومت ایسا نہیں کرسکتی جبکہ یہ بھی مودی ہی کی حکومت ہے مگر کمزور ہے۔ ایسے میں کوئی بھی جاننا چاہے گا کہ قانون پاس نہ کروانے کی مشکل سے مودی کیسے نمٹیں گے؟
میرا خیال ہے کہ مودی یکساں سول کوڈ اور این آر سی، کو پس پشت ڈال دیں گے کیونکہ ان کی وجہ سے اتحادیوں سے ان کا ٹکراؤ ہوگا۔ واجپئی کو بھی یہی کرنا پڑا تھا۔ انہوں نے ہندوتوا کو پس پشت ڈال دیا تھا اور کئی پالیسی معاملات میں قدم پیچھے لے لئے تھے۔ جو لوگ مودی کی حمایت کرتے رہے ہیں وہ بھی اب محسوس کرنے لگے ہیں کہ مودی حکومت کے پاس کاموں کی فہرست نہیں ہے کہ اسے کیا کرنا ہے یعنی اس کے مقاصد واضح نہیں ہیں ۔ یہ طے نہیں ہے کہ وہ حاصل کیا کرنا چاہتی ہے۔ اب چونکہ اس کی پہلے جیسی اکثریت نہیں ہے اس لئے ایسا لگتا ہے کہ اس کی بے سمتی جاری رہے گی،حکمراں مودی ہی رہیں گے مگر حکمرانی نہیں کرپائینگے۔