Inquilab Logo Happiest Places to Work

پارہ پارہ کرگئی دل، ایسی آفت پھر نہ ہو!

Updated: April 26, 2025, 1:24 PM IST | Shahid Latif | Mumbai

پہلگام نے پورے ملک کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس خونیں واردات نے ملک کے عوام کی اجتماعی نفسیات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ امتحان کی اس گھڑی میں ضروری ہے کہ کچھ سوچا جائے، کچھ سمجھا جائے اور دردمندی کو اپنا اسلوب بنالیا جائے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

پہلگام کی خو نیں  واردات میں  اپنی جانیں  گنوانے والوں  کے اہل خانہ کے ساتھ غائبانہ ہی سہی، تعزیت ضروری ہے۔ یہ وہ سیاح تھے جو زندگی کا لطف لینے کیلئے اپنے گھروں  سے نکلے تھے، منزل پر پہنچے مگر منزل، اُف یہ منزل، آخری ثابت ہوئی۔ زندگی اور موت کے درمیان بڑ ی مسافت بھی ہوتی ہے اور دو قدم کا فاصلہ بھی۔ کوئی نہیں  جانتا کہ وہ جس لمحے میں  جی رہا ہے اُس کے آگے طویل مسافت ہے یا دو قدم کا فاصلہ۔ قسام ازل پہلے ہی لکھ چکا ہے کہ کس کو کب تک جینا ہے اور کس کا کب بلاوا آجائیگا۔ قسام ازل کی یہ تحریر کسی کو دکھائی نہیں  دیتی۔ قدرت نے ’’واپسی کی تاریخ‘‘ کو پردۂ خفا میں  رکھ کر انسانیت پر بڑا احسان کیا ہے۔ یہ تاریخ ظاہر اور عیاں  ہوتی تو خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ زندگی کتنی مضحکہ خیز ہوتی۔ 
 پہلگام کے مہلوکین کے ورثاء کےرنج و غم کو جب محسوس کرنا ہی مشکل ہو تو اسے بیان کرنے کی قدرت کہاں  سے آئے! بیان کرنے کی کوشش کی گئی تو الفاظ ساتھ نہیں  دینگے اور الفاظ نے بیڑا اُٹھا بھی  لیا تو ان میں  درد کا سمونا ممکن نہیں  ہوگا۔ کیفیت یہ ہے کہ ورثاء کو روتا بلکتا دیکھ کر ہر حساس انسان اندر سے رو رہا ہے، بلک رہا ہے۔ درد کا یہ رشتہ بھی عجیب ہے۔ ایسا شخص جسے کبھی دیکھا نہیں ، جانا نہیں ، جس سے کوئی رابطہ نہیں  اور سوائے ہندوستانی ہونے کے جس سے سے کوئی تعلق بھی نہیں ، وہ بالکل اپنا محسوس ہورہا ہے، عزیزوں  جیسا، دوستوں  جیسا، پڑوسیوں  جیسا، ملاقاتیوں  جیسا، جس سے گہرا تعلق رہا ہو۔ یہ نہ ہوتا تو آنکھیں  نہ بھیگتیں ، درد اندر تک اُترتا ہوا محسوس نہ ہوتا۔ جب کئی سو کلومیٹر کے فاصلے پر بیٹھے ہوئے ہم ایسے لوگ غمگیں  ہیں  تو مہلوکین کے ماں ، باپ، بھائی، بہن، بیٹی، بیوی اور دیگر رشتہ دار، جس پر جو کچھ بیت رہا ہے، وہی جانتا ہے۔
  ایک موت وہ ہوتی ہے جسے انسان اپنے گھر میں  اپنے اعزہ  کے درمیان نہایت سکون سے گلے لگاتا ہے۔ دوسری قسم حادثاتی یا اچانک اموات کی ہے جن میں  ورثاء کیلئے پلک جھپکتے ہی سب کچھ بدل جاتا ہے، زندگی تہ و بالا ہوجاتی ہے اور آنکھوں  کے سامنے گہرا اندھیرا چھا جاتا ہے۔ تیسری ایسی بھیانک موتیں  ہوتی ہیں ، پہلگام جیسی، جن کا تصور بھی دہلا دیتا ہے۔ کبھی کبھی انسان کوئی بھیانک خواب دیکھتا ہے تو ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھتا ہے۔ پہلگام جیسی موتیں  ہڑبڑا کر اُٹھنے کا موقع بھی نہیں  دیتیں ، یہ اتنی دردناک ہوتی ہیں  کہ جیسے دل میں  شگاف پڑ گیا ہو۔
  غور کیجئے بہت سے الفاظ تب سمجھ میں  آتے ہیں  جب اُن کے معانی میں  بتائی گئی کیفیت طاری ہوتی ہے، مثلاً دل دوز، دل سوز، دل خراش، صدمہ ٔ جانکاہ۔ اسی طرح، کسی کا غم تب سمجھ میں  آتا ہے جب ویسا ہی غم خود پر ٹوٹتا ہے۔ اس کے باوجود انسان کی بے حسی نہیں  جاتی۔ کم بھی نہیں  ہوتی۔ انسان، دوسروں  کو روتا بلکتا دیکھتا ہے مگر آگے بڑھ جاتا ہے۔ دوسروں  کی بپتا سنتا ہے مگر ٹس سے مس نہیں  ہوتا۔کسی کا قول ہے کہ ’’محبت کی ضد نفرت نہیں  بے حسی ہے، حسن کی ضد قبح نہیں  بے حسی ہے اور زندگی کی ضد موت نہیں  بے حسی ہے۔‘‘ جس چیز کو بے حسی کہا جاتا ہے وہ انسان کو منصب ِ انسانی سے کتنا نیچے گرا دیتی ہے اُسے پتہ بھی نہیں  چلتا۔ بے حسی کے ساتھ جینا اپنے کندھے پر اپنے جسد خاکی کو ڈھونے جیسا ہے مگر دُنیا میں ، ہمارے آس پاس کی زندگی میں ، ایسا بہت کچھ ہے جس نے جگہ جگہ بے حسی کے کہیں  چھوٹے چھوٹے سے اور کہیں  قدآدم بُت بنائے ہیں ۔ 
 ضعیف ماں  باپ کو چھوڑ کر ’’اپنی دُنیا‘‘ الگ بسانے والے بیٹوں  کو دیکھئے وہ بے حسی کا نمونہ پیش کرتے ہیں  یا نہیں ، خود کشی کرنے والے کسانوں  کی موت پر خاموش رہنے والے اہل سیاست کا خیال کیجئے وہ بے حسی کی تصویر پیش کرتے ہیں  یا نہیں ، فٹ پاتھ پر زندگی بسر کرتے لوگوں  کودیکھ کر نگاہیں  پھیر لینے یا حقارت سے منہ موڑ لینے والوں  کا تصور کیجئے وہ بے حسی کی نظیر قائم کرتے ہیں  یا نہیں ؟معاشرہ کے بگاڑ پر یہ کہہ کر خاموشی اختیار کرلینے والوں  سے ملئے کہ اس میں  اپنا کیا ہے، وہ بے حسی کی مورت بنے رہتے ہیں  یا نہیں ؟ قدروں  کے زوال کا رنج نہ کرنے والوں  کا خیال کیجئے، وہ بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہیں  یا نہیں ؟ 
 اور ہم جو آج ماتم کناں  ہیں ، کل ہم بھی بے حسی کی مثال پیش کریں  گے یا نہیں ؟ آج پہلگام کے مہلوکین کے ورثاء کا غم ہمارے لئے بھی عم ہے مگر کل رہے گا یا نہیں ، اس کی ضمانت نہیں  دی جاسکتی۔  جن لوگوں  کو اس غم کے ساتھ زندگی گزارنی ہے، جن کے اپنے اب کبھی لوٹ کر نہیں  آئیں  گے، اُن کی زندگی کے خلاء کو محسوس کیجئے، شوہر کو گنوانے والی بیوی کبھی مسکرانے جیسا مسکرا بھی نہیں  سکے گی، بیٹے کو کھو دینے والی ماں  کو ہر وقت بیٹے کی آہٹ محسوس ہوگی کہ شاید وہ آگیا ہے، بھائی کو گنوانے والی بہن اس حقیقت سے آشنائی کے باوجود کہ، جانے والا کبھی نہیں  آتا، اِس بے بنیاد اُمید میں  شب و روز  گزارے گی کہ شاید کوئی انہونی ہوجائے اور جانے والا لوَٹ آئے۔ فیض کی نظم ’’تنہائی‘‘ کچھ ایسی ہی کیفیت بیان کرتی ہے:
پھر کوئی آیا دل زار نہیں  کوئی نہیں / راہ رَو ہوگا کہیں  اور چلا جائے گا/ ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں  کا غبار/ لڑکھڑانے لگے ایوانوں  میں  خوابیدہ چراغٰ/ سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار/ 
اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں  کے سراغ/ گل کرو شمعیں  بڑھا دو مے و مینا و ایاغ / اپنے بے خواب کواڑوں  کو مقفل کر لو/ 
اب یہاں  کوئی نہیں  کوئی نہیں  آئے گا۔‘‘ 

یہ بھی پڑھئے : اُردو، ہارورڈ یونیورسٹی اور وقف قانون

 ہر غم خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، دلوں  میں  گداز پیدا کرنے کیلئے ہوتا ہے۔گداز پیدا ہوتا ہے تو خوش ہولیجئے، یہ زندہ ہونے کی علامت، حواس کے باقی رہنے کا ثبوت اور منصب ِ انسانی پر برقرار ہونے کا اشاریہ ہے۔   اگر گداز محض تھوڑی دیر کیلئے پیدا ہوتا ہے تو سمجھ لیجئے کہ خطرہ ہے۔ اور اگر بالکل بھی پیدا نہیں  ہوتا بلکہ کوئی بھی  واقعہ اور واردات ذہن و دل کو جھنجھوڑے بغیر گزر جاتی ہے تو سمجھ لیجئے کہ خطرہ کا نشان بھی پار ہوچکا۔ جسم بھلے ہی زندہ ہے، دل بدستور دھڑک رہا ہے مگر روح مر چکی ہے۔ روح، بے حسی طاری ہونے کے سبب ہی داغ مفارقت دیتی ہے، اس سے پہلے نہیں ۔ اس سے پہلے مہلت ہوتی ہے کہ انسان اپنا احساس بیدار رکھے، اسے غذا فراہم کرے، اس کی نگہداشت کرےاور زندوں  جیسی زندگی گزارے! 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK