• Sun, 22 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ٹرمپ کی آمدآمد اور بائیڈن رفو چکر

Updated: November 13, 2024, 1:24 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

بائیڈن اور ہیرس کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ غزہ کی نسل کشی پر بہت سے امریکی اس قدر جذباتی ہیں کہ وہ ان کی پارٹی کا ساتھ بھی چھوڑ سکتے ہیں۔ ان لاکھوں ڈیموکریٹ ووٹروں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔ ۲۰۲۰ء میں ووٹر ٹرن آؤٹ ۱۵۵؍ملین تھا جو ۲۰۲۴ء میں گھٹ کر ۱۴۰؍ملین ہوگیا۔کم ووٹنگ کا خمیازہ کملا ہیرس ہی کو بھگتنا پڑا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 ۲۰۱۶ء میں  ڈونالڈ ٹرمپ نے پہلی بار صرف امریکہ کا صدارتی انتخاب جیتا تھا لیکن ۲۰۲۴ء میں  انہیں  امریکیوں  کا بھاری مینڈیٹ بھی حاصل ہوگیا ہے۔ جس شخص کا دو دوبار مواخذہ ہوچکا ہو، جس پر مالی بے ایمانی اور فراڈ کے متعدد معاملوں  میں  فرد جرم عائد کی جاچکی ہو، جس پر جنسی ہراسانی جیسے جرائم کے مقدمے چل رہے ہوں ، جسے الیکشن میں  دھاندلی کے جرم میں  گرفتار کیا جا چکا ہو،جس پر انتخابی مہم کے دوران دو بار قاتلانہ حملے ہوئے ہوں  اور جس کے پیچھے امریکہ کی لبرل سول سوسائٹی اور بڑے میڈیا ہاؤسیز ہاتھ دھو کر پڑے ہوں ، اگر وہ شخص ان سب کے باوجود اس شاہانہ انداز میں  وہائٹ ہاؤس میں  دوبارہ داخل ہونے کی تیاری کررہا ہے تو بلاشبہ یہ اس کا عدیم المثال کارنامہ کہا جائے گا۔ امریکہ کی ڈھائی سو سالہ تاریخ میں  ٹرمپ دوسرے ایسے شخص ہیں  جنہیں  پہلی مدت مکمل کرنے کے بعد دوسری بار شکست ہوئی لیکن اپنی تیسری کوشش میں  وہ ایک بار پھر منتخب ہوکر صدر بن گئے۔ آٹھ سال میں  ٹرمپ نے دوسری بار ڈیموکریٹک پارٹی کی ایک خاتون امیدوار کو شکست دے دی۔ سری لنکا اور بنگلہ دیش جیسے غریب اور پچھڑے ایشیائی ملک میں  عورتیں  صدر اور وزیر اعظم بن سکتی ہیں  لیکن امریکہ جیسے ترقی یافتہ اور امیر ملک میں  آج تک کوئی خاتون صدر کیوں  نہیں  منتخب کی گئی؟ مجھے لگتا ہے کہ اس بات کو سمجھنے کے لئے پوری امریکی قوم کی تحلیل نفسی کی ضرورت ہے۔ آج لبرل جمہوری اقدار میں  یقین رکھنے والے امریکی شہری اور مین اسٹریم میڈیا صدمے میں  ہیں ۔
 اخبارات اور ٹی وی چینلز لگاتار یہ دُہائی دے رہے ہیں  کہ ٹرمپ کی واپسی جمہوریت کیلئے خطرہ ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ جو شخص جمہوریت کے وجود کیلئے اتنا بڑا خطرہ ہے، اُسے کروڑوں  امریکیوں  نے جمہوری طریقے سے ایک بار پھر کیوں  اپنے ملک کی باگ ڈور سونپ دی؟ سوال تو اور بھی ہیں  مثلاً ٹرمپ تو سفید فام نسل پرستی کے پرچارک تھے تو انہیں  سیاہ فام ووٹروں  نے اتنی بھاری تعداد میں  ووٹ کیوں  دیئے؟ ٹرمپ تو تارکین وطن کے مخالف ہیں  تو انہیں  ہسپانوی اور دیگر نسلی اور لسانی گروہوں  کی حمایت کیوں  ملی؟ ٹرمپ تو مسلم دشمن ہیں  تو انہیں  عرب امریکیوں  نے کیوں  ووٹ دیئے؟ ٹرمپ خود ارب پتی ہیں  اور ارب پتیوں  کے مفاد کے محافظ سمجھے جاتے ہیں  تو امریکہ کے محنت کش طبقہ نے ان کی قیادت میں  اعتماد کیوں  جتایا؟ ڈونالڈ ٹرمپ عورتوں  سے نفرت کرنے والے (Misogynist) سمجھے جاتے ہیں  تو عورتوں  کی اکثریت نے ایک خاتون امیدوار پر ٹرمپ کو کیوں  ترجیح دی؟ اس طرح کے بے شمار سوالات نہ صرف ڈیموکریٹک پارٹی کے کرتا دھرتاؤں  بلکہ دانشوروں  کو بھی پریشان کررہے ہیں ۔ دراصل ٹرمپ کی بے مثال اور تاریخی کامیابی نے امریکی سیاست اور صدارتی انتخابات کے مروجہ اصولوں  کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔
پچھلے بیس برس میں  ٹرمپ پہلے ریپبلیکن امیدوار بن گئے ہیں  جنہیں  الیکٹورل کالج اور عوامی ووٹوں  دونوں  میں  بھاری اکثریت ملی ہے۔ ٹرمپ کی قیادت میں  ان کی پارٹی امریکی پارلیمنٹ کے دونوں  ایوانوں  میں  اپنی بالادستی قائم کرنے جارہی ہے۔  ڈیموکریٹس، ٹرمپ پر جمہوریت مخالف، فسطائی، نسل پرست، جنونی، شدت پسند، تاناشاہ، عورت بیزار، بداطوار، بداخلاق، تقسیم کرنے والا جیسے القابات چپکا کر سمجھتے رہے کہ عوام کے ووٹ ان کی جھولی میں  خود بخود آ گریں  گے۔ الیکشن کا نتیجہ بتارہا ہے کہ عوام نے یا توکملا کی پارٹی کے ان الزامات کو مسترد کردیا یا پھر ان خامیوں  کے باوجود انہیں  ٹرمپ کی قائدانہ صلاحیتوں  پر کملا سے زیادہ بھروسہ ہے۔ آپ ٹرمپ کے نظریات سے متفق ہوں  یا نہ ہوں  کم از کم انہوں  نے امریکی قوم کے سامنے اپنا ایک واضح، غیر مبہم روڈ میپ رکھا مثلاً ٹرمپ نے یہ اعلان کیا کہ اقتدار میں  آتے ہی وہ لاکھوں  غیر قانونی تارکین وطن کو امریکہ سے نکال دینگے۔ ان کے وعدوں  پر لوگوں  نے بھروسہ کیا اور ان کے اس نعرے Make America Great  Again (MAGA) میں  انہیں  کشش محسوس ہوئی۔ ڈیموکریٹ لیڈروں  کے ذریعہ جمہوری اقدار، انسانی حقوق اور مساوات وغیرہ پر دیئے جانے والے لیکچر سے عوام اب بور ہوچکے ہیں ۔ عام امریکیوں  میں  حکومت کے منافقانہ رویوں  پر بے پناہ ناراضگی بھی ہے۔انہوں  نے دیکھا کہ ڈیموکریٹ لیڈروں  کے دل پالتو کتوں  اور بلیوں  کیلئے تو تڑپتے ہیں  لیکن فلسطینی بچوں کی ہلاکتوں  پر نہیں ۔

یہ بھی پڑھئے :ٹرمپ کی آمدآمد اور بائیڈن رفو چکر

 ٹرمپ کی شاندار کامیابی کا ایک اور اہم پہلو ہے۔ وہ ہے ووٹروں  کاکم تعداد میں  انتخابات میں  حصہ لینا۔ وال اسٹریٹ جرنل نے ایک تجزیاتی مضمون Collapse in Democratic Turnout Fueled Trump`s Victory میں  اعدادو شمار کی مدد سے حالیہ الیکشن کے اس پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔
 مسلمان امریکی ڈیموکریٹ کے حامی رہے ہیں  لیکن اس بار انہوں  نے غزہ کی نسل کشی میں  بائیڈن انتظامیہ کی بالواسطہ حصہ داری کے سبب کملا کو ووٹ نہ دے کر ٹرمپ کو ووٹ دے دیا۔ لاکھوں  باضمیر اور انصاف پسند امریکی شہری بھی اپنی حکومت کی اندھی اسرائیل نوازی اور نیتن یاہو کو ہتھیاروں  کی سپلائی کی وجہ سے بائیڈن اور کملا ہیرس سے سخت نالاں  تھے۔ انہوں  نے ٹرمپ کو ووٹ دینے سے گھر بیٹھنا بہتر سمجھا۔ یہ وفادار ڈیمو کریٹ ووٹرز پچھلے ایک سال سے اپنی پارٹی کے مقامی اجلاس اور قومی کنونشن میں  یہ وارننگ دے رہے تھے کہ No Ceasefire No Vote لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی ۔ بائیڈن اور ہیرس کو یہ اندازہ نہیں  تھا کہ غزہ کی نسل کشی پر بہت سے امریکی اس قدر جذباتی ہیں  کہ وہ ان کی پارٹی کا ساتھ بھی چھوڑ سکتے ہیں ۔ ان لاکھوں  ڈیموکریٹ ووٹروں  نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔ ۲۰۲۰ء میں  ووٹر ٹرن آؤٹ ۱۵۵؍ملین تھا جو ۲۰۲۴ء میں  گھٹ کر ۱۴۰؍ملین ہوگیا۔ ۲۰۲۰ء میں  ٹرمپ کو ۷۴؍ ملین اور بائیڈن کو ۸۱؍ ملین ووٹ ملے تھے۔ اس باربھی ٹرمپ کو لگ بھگ اتنے ہی ووٹ ملے لیکن کملا ہیرس کو صرف ۶۸؍ملین ووٹ ملے یعنی بائیڈن سے تقریباً تیرہ ملین کم۔ کم ووٹنگ بدگمان ڈیموکریٹ ووٹروں  کے ذریعہ الیکشن کے بائیکاٹ کا نتیجہ ہے۔ انہوں  نے غزہ پر ڈیموکریٹ لیڈرشپ کی بے حس پالیسی پر خاموشی سے اپنا احتجاج درج کرایا ہے۔
 عوامی جائزے جس الیکشن کو کانٹے کی ٹکر قرارد ے رہے تھے وہ دراصل یکطرفہ مقابلہ ثابت ہوا۔ دنیا نے دیکھا کہ ٹرمپ نے اپنے ڈیموکریٹ حریف پر غیرمعمولی برتری حاصل کرلی۔ ٹرمپ کی فتح ایسا طاقتور سیاسی زلزلہ ہے جس کا Epicentre  تو واشنگٹن میں ہے مگر اسکے جھٹکے ایک عرصے تک ساری دنیا میں  محسوس کئے جائینگے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK