ٹرمپ کی آمد کے بعد امریکہ کی پالیسی بدل سکتی ہے۔ اندرونی طور پر تو شاید نہیں بدلے لیکن ان کی خارجہ پالیسی ضرور بدل سکتی ہے۔یہ بھی ہے کہ اسرائیل میں ایک خوف پیدا ہوا ہے کیونکہ ٹرمپ غزہ پر کسی اسرائیلی حملے کے سخت خلاف ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ اسرائیل نواز ہوگئے ہیں لیکن وہ نہیں چاہتے کہ امریکہ کسی جنگ میں کودے۔
امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ کا میاب ہو گئے اورکملا دیوی ہیرس ہار گئیں ، ہمیں یہ علم تھا اور یہ اس لئے بھی تھا کہ وہ نہ صرف ایک قابل امیدوار ہیں اور ہم ان کی تقریر سن بھی چکے ہیں ۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے نام سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں ہندوستانیت کی ایک جھلک بھی موجود ہے، حالانکہ وہ بالکل اور خالص امریکی ہیں ، ان کی والدہ ضرور ہندوستانی تھیں ۔ کملا ہیرس نےشادی بھی کسی ہندوستانی سے نہیں کی تھی، ان کے شوہر ایک اسرائیلی ہیں ۔ امریکہ کے انتخابات ہندوستان کی طرح نہیں ہوتے جہاں کسی ایک پارٹی کو مکمل اکثریت مل سکتی ہو، وہاں کے انتخاب میں امیدواروں میں تھوڑا فرق رہتا ہے، ٹرمپ نے ۳۱۲؍ سیٹیں حاصل کرکے کملا کو مات دی جنہوں نے ۲۲۶؍ سیٹیں حاصل کی ہیں ۔
اگر کملا ہیرس کے بجائے کوئی مرد امیدوار ہوتا تو اس کو زیادہ ووٹ ملتا اور یہ بھی ممکن تھا کہ ٹرمپ ہار جاتے۔ اس کی کئی وجہ ہیں ، امریکہ نسوانی آزادی میں دنیا میں علمبردار سمجھا جاتا ہے لیکن عورتوں کی یہ آزادی (میرا تن میری مرضی) سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔یعنی یہ آزادی عورتو ں کے من اور رروح کو نہیں پہچان پاتی۔ آپ کو یہ یاد دلادیں کہ امریکہ میں عورتوں کو ووٹ دینے کا حق ۱۹۶۰ء میں ملا تھا یعنی اپنی آزادی کے ڈھائی سو سال بعد، اس کے باوجود آج تک امریکہ میں کوئی عورت کامیاب نہیں ہو پائی ، اگر عورت کو ہی کامیاب ہونا ہوتا تو ہلیری کلنٹن جیت جاتیں جو کملاہیرس سے زیادہ مقبول تھیں ۔ اور یہ کہ امریکی ووٹر بہت زیادہ باشعور بھی نہیں ہوتے ان کا ایک سربراہ اب بھی اپنے گورے ہونے کے خبط میں مبتلا ہے۔یہی وہ وقت ہے جو ڈونالڈ ٹرمپ کا سب سے بڑا ووٹر ہے،اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس بار انہیں عورتوں کے ووٹ نہیں ملے ، اس کے علاوہ انہیں نوجوانوں کے بھی ووٹ نہیں ملے، ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس بار الیکشن میں ایک تیسرا امیدوار بھی تھا، ڈاکٹر جِل تھیں ، انہوں نے غزہ پر اسرائیلی حملے کی بہت ڈٹ کر مخالفت کی تھی اس لئے انہیں بھی ووٹ ملے اور ظاہر ہے کہ یہ ووٹ کملا ہیرس کے پلڑے سے گئے تھے تو کملا ہیرس کے ہارنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ عورتوں کے ووٹ دینے کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر جنگ سے سب سےزیادہ عورتیں خائف ہوتی ہیں ، یوکرین میں جنگ کی وجہ سے عورتیں بہت خائف تھی کیونکہ میدان کارزار میں جو لوگ ہوتے ہیں وہ یا تو ان عورتوں کے شوہر ہوتے ہیں یا بیٹے ہوتے ہیں اسی لئے انہیں جنگ سے نفرت ہوتی ہے اور انہیں یوکرین کی جنگ سے بھی نفرت تھی۔
حالانکہ ٹرمپ نے یہ کہا تھا کہ وہائٹ ہاؤس پہنچتے ہی یوکرین کی جنگ بند کرادیں گے لیکن وہائٹ ہاؤس وہ بیس جنوری کو پہنچیں گے۔ دیکھنا ہے کہ وہ یہ وعدہ کب پورا کرتے ہیں ۔ اس کالم کے لکھتے وقت تک وہ وہ وہائٹ ہاؤس نہیں پہنچے ہیں ۔ اس میں ابھی چند روز باقی ہیں ۔ وہ یوکرین میں امریکہ کی مداخلت کو پسند نہیں کرتے تھے۔
ٹرمپ کی آمد کے بعد امریکہ کی پالیسی بدل سکتی ہے۔ اندرونی طور پر تو شاید نہیں بدلے لیکن ان کی خارجہ پالیسی ضرور بدل سکتی ہے۔یہ بھی ہے کہ اسرائیل میں ایک خوف پیدا ہوا ہے کیونکہ ٹرمپ غزہ پر کسی اسرائیلی حملے کے سخت خلاف ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ اسرائیل نواز ہوگئے ہیں لیکن وجہ یہی ہی ہے کہ نہ وہ جنگ میں کودنا چاہتے ہیں نہ یہ چاہتے ہیں کہ امریکہ کسی جنگ میں کودے۔
ٹرمپ کے جیتنے سے پاکستان میں بہت خوشی کی لہر ہے کیونکہ ٹرمپ نے یہ مان لیا ہے کہ پاکستان میں جو الیکشن ہوئے تھے وہ صاف ستھرے نہیں تھے اور یہ بھی کہا کہ عمران خان کو سیاسی وجہ سے قید کیا گیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ پاکستان میں وہ جمہوریت ، شہری آزادی اور صاف ستھرے الیکشن کے طرفدار ہیں ۔ ظاہر ہے کہ ان تمام معاملات سے پاکستان کی فوج اور پاکستان کی حکومت لرزہ براندام ہیں کیونکہ وہاں یہ کہا جارہا ہے کہ اگر ٹرمپ نے ایک فون بھی کردیا تو پاکستانی حکومت کا تختہ اسی لمحہ الٹ جائے گا، لیلن یہ سب باتیں اس وقت طے ہوں گی جب ڈونالڈ ٹرمپ حکومت میں آجائیں گے اور اپنی نئی پالیسیاں شروع کریں گے۔
یہ بھی پڑھئے:امریکی عوام اور جارح سیاست کی تائید
ٹرمپ کے آنے سے ویسے تو ساری دنیا کو اچنبھا ہوا ہے لیکن یہ بات ہے کہ ٹرمپ نے اکیاون فیصد ووٹ پائے ہیں جو کملا ہیرس سے چار فیصد آگے ہیں ایسا بھی بہت کم ہوا ہے کہ دو حریفوں میں ووٹوں کا اتنا بڑا فرق ہو۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ کملا ہیرس نے کبھی بائیڈن کی پالیسیوں کی مخالفت نہیں کی، سارے امریکہ میں ڈیموکریٹ کے امیدوار اس سے بہت برہم تھے، اسرائیل کے بارے میں بھی کملا ہیرس نے کبھی یہ نہیں کہا کہ وہ غزہ پر اسرائیلی حملے کے خلاف ہیں ، یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں عرب ملکوں کے رہنے والے ان لوگوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا جو پہلے ڈیموکریٹس کو ووٹ دیتے تھے۔امریکہ میں عرب ممالک کے لئے ایک نیشنل الائنمنٹ موومنٹ موجود ہے، اس نے پوری طریقےسے ٹرمپ کو ووٹ دیا ، یہ لوگ پہلے ڈیموکریٹک امیدوار کو ووٹ دیتے تھے۔ اسی کے ساتھ جائزے بتاتے ہیں کہ امریکہ میں رہنے والے یہودیوں کی ۷۷؍فیصد تعداد نے کملا ہیرس کوووٹ دیا لیکن یہودی ساری دنیا میں ڈیڑھ کروڑ ہیں جس میں سے ۸۰؍فیصد تعداد یورپ اور خاص طور پر امریکہ میں مقیم ہے۔ٹرمپ نے اپنا الیکشن جیتنے کے بعد جو فتح کی تقریر کی اس میں عرب ووٹروں اور پاکستانی ووٹروں کا شکریہ ادا کیا انہو ں نے لاطینی امریکیوں کا بھی شکریہ ادا کیا جن کا انہیں ووٹ ملا تھا لیکن انہوں نے یہودی ووٹرو ں کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا، اس کی کیاوجہ ہے ہم اس کے بارے میں آگے کسی مضمون میں بتائیں گے لیکن ٹرمپ کے آنے سے امریکیوں میں بہرحال ایک خوشی ہے۔ وہ اگر خوش نہ ہوتے تو اتنی بڑی تعداد میں ٹرمپ میں ووٹر نہیں بنتے۔ ٹرمپ کی آمد آمد دنیا میں اور خاص طو رپر ایشیا میں سیاست پر کوئی اثر ڈالے گی، یہ ابھی دیکھنا باقی ہے لیکن خیال یہی ہے کہ ایشیا کی سیاست میں بھی ٹرمپ کے آنے سے بڑی تبدیلیاں پیدا ہوں گی۔ہم ہندوستانیوں کو بھی یہ جاننا چاہئے کہ ٹرمپ کی پالیسی ہندوستان کے بارے میں بھی بدل سکتی ہے۔ خدا کرے کہ یہ تبدیلی بہتر ہو۔