• Wed, 08 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

ڈاکٹر منموہن سنگھ: خاموشی کی طاقت کا استعارہ

Updated: January 06, 2025, 2:53 PM IST | Professor Sarwar Al-Huda | Mumbai

سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ پر گزشتہ ایک ہفتے کے دوران درجنوں مضامین شائع ہوئے ہیں اور ہر مضمون، دوسرے سے الگ ہے۔ زیر نظر مضمون میں بھی ڈاکٹر سنگھ کی شخصیت کے نئے پہلوؤں سے آگاہی ہوگی۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

ڈاکٹر منموہن سنگھ کو ۲۰۰۵ء میں  کچھ فاصلے کے ساتھ دیکھا تھا۔ وہ پنڈت جواہر لعل نہرو کے مجسمے کی تنصیب کے سلسلے میں  جے این یو آئے تھے۔ اس موقع پر جے این یو کے سب سے بڑے گراؤنڈ میں  انہوں  نے خطاب کیا تھا۔ اس موقع پر اساتذہ اور طلباء بڑی تعداد میں  موجود تھے۔ امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدہ اور یو این او میں  ایران کے خلاف ووٹنگ، یہ کچھ ایسے معاملات تھے جن کا ذکر پہلے ہی سے کیمپس میں  جاری تھا۔پمپلیٹس اور زبانی گفتگو نے ان معاملات کو اتنا اہم بنا دیا تھا کہ دستخطی مہم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ منموہن سنگھ جب گراؤنڈ میں  داخل ہوئے تو اس وقت تک طلبہ کی بڑی تعداد موجود تھی، ایک طرف چند ایسے طلبہ تھے جنہوں  نے اپنے ہاتھوں  میں  کالا جھنڈا لے رکھا تھا۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ان طلبہ کی طرف دیکھا، بلکہ مجھے یاد آتا ہے کہ وہ ان کی طرف جانا بھی چاہتے تھے۔ ان کے چہرے پر کوئی ناگواری تھی۔ وہ بدستور خاموش اور سنجیدہ تھے۔ چونکہ کوئی ایسا شور نہیں  تھا لہٰذا احتجاج میں  بھی وہ خاموشی تھی جو منمو ہن سنگھ کی شخصیت کا اہم ترین حوالہ ہے۔ پہلی مرتبہ ہماری طرح بہت سے طلباء نے انہیں  دیکھا بلکہ محسوس کیا۔ کچھ زیادہ فاصلہ نہیں  تھا۔وہ منظر آج بھی نگاہوں  کے سامنے ہے۔ ڈاکٹر سنگھ نے فرانسیسی فلاسفر والٹیئر کا ایک قول پیش کیا جو کچھ اس طرح تھا:
"I may disagree with what you have to say, but I shall defend to the death your right to say it."
 اختلاف، اتفاق کے مقابلے میں  کبھی زیادہ بامعنی اور تعمیری ہو جاتا ہے۔ تہذیبی زندگی میں ’’نہیں ‘‘ بولنے کی ہمت کی داد کسے ملی ہے، اس کی تاریخ مرتب کی جائے تو ممکن ہے تہذیبی زندگی کا وہ چہرہ سامنے آجائے جسے اختلاف نے روشن کیا ہے۔ آخری دم تک اختلاف کو نہ صرف یاد رکھنا بلکہ اس کی حمایت کرنا کوئی کھیل تو نہیں  ہے۔ اب تو ایسے اقوال بھی ہماری تہذیبی زندگی میں  اجنبی سے ہو گئے ہیں ۔ کبھی نہیں  کہنے کا شور’’نہیں ‘‘کی اہمیت کو کم کر دیتا ہے بلکہ اسے نہیں  کا اشتہار کہنا چاہئے۔ منموہن سنگھ کی تقریر میں  والٹیئر کا قول ایک وقتی صورتحال سے ضرور متعلق تھا مگر یہ آواز آنے والے وقت کیلئے بھی تھی۔ احتجاج اپنی فطرت کے لحاظ سے پرشور سمجھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی طبیعت میں  جو خاموشی تھی، وہ خود کسی بڑے احتجاج سے کم نہیں  تھی۔ وقت کے ساتھ خاموشی کے اس احتجاج اور اس کی طاقت کو سمجھنے اور محسوس کرنے والے کم ہو جاتے ہیں ، یا کم ہو گئے ہیں ، لیکن اس کا حسن ہمیشہ برقرار رہتا ہے۔ ڈاکٹر سنگھ کی زندگی کا سفر جھیلم کے ایک گاؤں  گاہ سے شروع ہوا تھا۔ انہوں  نے تقسیم اور غریب الوطنی کے کرب کو دیکھا اور محسوس کیا۔ انہوں  نے اپنی جائے پیدائش کو ہمیشہ یاد رکھا اور اس کے تئیں  گہری نسبت کا اظہار کیا۔ 
 مجھے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ۲۰۱۰ء میں  میسر آیا۔ استاد محترم پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی کے چھوٹے بھائی رضی قدوائی کے بیٹے عادل کی شادی تھی۔ اس موقع پر سونیا گاندھی اور راہل گاندھی بھی منموہن سنگھ کے ساتھ شریک ہوئے تھے۔ محسنہ قدوائی صاحبہ مہمانوں  کا استقبال کر رہی تھیں ۔ وہ عادل کی نانی ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ کو جب معلوم ہوا کہ انتظار حسین صاحب بھی تشریف فرما ہیں  تو وہ تیز قدموں  کے ساتھ انتظار حسین کی طرف آئے۔ مَیں  وہاں  پہلے سے موجود تھا۔ منموہن سنگھ انتظار حسین کے سامنے دونوں  ہاتھ جوڑ کر کھڑے تھے،یہ وہ احترام تھا جو کسی رائٹر کا کسی صاحب دل اور صاحب نظر سیاستداں  کیلئے ہوتا ہے۔ انتظار حسین کھڑے ہو گئے۔ اتنے بڑے جمہوری ملک کے وزیراعظم نے پوچھا تھا کہ انتظار صاحب آپ کیسے ہیں ۔ میری زندگی کا یہ ایک نافراموش لمحہ تھا جب انہیں  اتنے قریب سے دیکھا۔ ان کی رفتار میں  ایک خاص طرح کی سرمستی اور سرشاری تھی۔
 اقتصادی پالیسی کے تعلق سے جس فکر مندی کا اظہار ان کی مخالفت اور موافقت کے سلسلے میں  کیا جاتا رہا ہے، وہ ہماری تہذیبی زندگی کا اہم ترین حوالہ بن گیا ہے۔ یہ ایک ایسا انسانی اور سماجی پہلو ہے جسے وقت کبھی پرانا نہیں  ہونے دے گا۔ عام انسانی زندگی کے معیار کو بلند کرنے کیلئے دُنیا میں  نظری اور عملی طور پر جتنی کوششیں  ہوئی ہیں ، ان میں  ایک کوشش منموہن سنگھ کی بھی ہے۔ اقتصادیات کے تعلق سے دنیا آج ان کی بصیرت کا ذکر بھی کر رہی ہے اور اعتراف بھی۔ براک اوباما کا استفسار بھی موضوع گفتگو ہے کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے کس طرح بازار کو اس مندی سے باہر کیا۔ اُن کے نزدیک خاموشی کا مطلب گویائی بھی تھا یا گویائی میں  بھی خاموشی موجود تھی۔ انہوں  نے سوالوں  سے کبھی خود کو الگ نہیں  کیا۔ وہ سہجتا کے ساتھ جواب دیتے اور سوال کرنے والوں  کا ان کی نظر میں  احترام بھی تھا۔ ایک سوال کے جواب میں  کہا تھا تاریخ فیصلہ کریگی اور یہ شعر سنایا تھا:
کئی جوابوں  سے اچھی ہے خامشی میری
نہ جانے کتنے سوالوں  کی آبرو رکھ لی

یہ بھی پڑھئے:کیا عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون محفوظ رہے گا؟

 اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کے نزدیک جواب دینے کا مطلب کیا تھا۔ اور یہ بھی کہ سوال نہ ایک طرح کے ہوتے ہیں  اور نہ ہر سوال کا جواب دیا جا سکتا ہے۔ ’’میری خاموشی‘‘ یہ فقرہ آج کی زندگی کے سیاق میں  کتنا اجنبی دکھائی دیتا ہے۔ ڈاکٹر سنگھ نے بحیثیت وزیراعظم اپنی مدت کے اختتام پر جو تقریر کی تھی، وہ بھی بہت یادگار ہے۔اس میں  کتنا اعتماد اور انکسار ہے۔ کہا تھا: ’’تاریخ فیصلہ کریگی‘‘اور تاریخ آنے والی تاریخ کا انتظار کر رہی تھی۔ اُنہوں  نے اپنے تعلق سے تاریخ کا ذکر بہت سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ دُنیا کی سیاسی و سماجی تاریخ بھی ان کی نگاہ میں  تھی۔ انہیں  تاریخ سے جو روشنی ملی تھی اس کا اظہار بعض موقعوں  پر ہو جاتا تھا مگر ان کی تاریخی بصیرت اقتصادیات کے ساتھ گہری نظر کی طالب تھی گویا اقتصادی و معاشی صورتحال کو سمجھنے کیلئے بھی تاریخی شعور درکار تھا۔ مخالفتیں  سیاست اور حکومت کا لازمی حصہ ہوتی ہیں  مگر لوگوں  کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ شخصیت کی سچائی سب سے بڑی سچائی ہے۔ یہ سچائی دلوں  میں  گھر کرتی جاتی ہے۔ ڈاکٹر سنگھ ہندوستان کی تہذیبی زندگی میں  ایک ایسی خاموش طاقت کا استعارہ ہیں  کہ ان سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اب شور میں  زندگی ہے اور شور ہی کو سب کچھ سمجھا جاتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK