اس سوال کا جواب پلیس آف ورشپ ایکٹ پر سپریم کورٹ کے موقف اور فیصلے سے برآمد ہوگا۔ اسے بحال رہنا چاہئے کہ یہ قانون ملک کے مفاد میں ہے۔
EPAPER
Updated: January 05, 2025, 1:53 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
اس سوال کا جواب پلیس آف ورشپ ایکٹ پر سپریم کورٹ کے موقف اور فیصلے سے برآمد ہوگا۔ اسے بحال رہنا چاہئے کہ یہ قانون ملک کے مفاد میں ہے۔
دی پلیس آف ورشپ (اسپیشل پروویژن) ایکٹ ۱۹۹۱ء کے بارے میں اکثر لوگ جانتے ہیں ۔ یہ وہ قانون ہے جو کسی عبادت گاہ کی حیثیت تبدیل کرنے سے روکتا ہے اور اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو جو عبادت گاہ جیسی تھی وہ ویسی ہی رہے گی، اُس میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔
یہ ایک خلافِ معمول قانون ہے جس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ چاہے مندر ہو یا مسجد، کلیسا (چرچ) ہو یا اسٹوپا، گرودوارہ ہو یا کوئی اور عبادت گاہ، وہ ویسی ہی رہے گی جیسی اگست ۱۹۴۷ء میں تھی۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اُس عبادت گاہ میں جس مذہب کے نقطۂ نظر سے عبادت کی جاتی تھی، اُسی طرح کی جاتی رہے گی۔
اگر آپ سوال کریں کہ یہ قانون کیوں بنایا گیا تھا؟ تو اس کا جواب ہے: تاکہ بابری مسجد کی شہادت جیسے واقعات کو روکا جائے۔ قانون میں جو کچھ لکھا گیا وہ بالکل صاف اور واضح ہے۔ قانون سازی کی نیت اور مقصد میں بھی کوئی ابہام نہیں ہے۔ اس کے باوجود وطن عزیز میں قوانین کچھ ہونے کو (جو قانون کی خلاف ورزی پر مبنی ہو) روکا نہیں جاسکتا۔ عدالتیں بھی اس کو نہیں روک سکی ہیں ۔
۲۰۱۹ء میں سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی زمین، مندر ٹرسٹ کے حوالے کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ اس کے بعد ہی اُترپردیش کی ایک عدالت میں گیان واپی مسجد کے تعلق سے عرضداشت پر سماعت کی گئی اور عدالت نے محکمۂ آثار قدیمہ کو سروے کی ہدایت کی۔ پلیس آف ورشپ ایکٹ کی نصوص، کسی بھی عبادت گاہ کے معاملے میں عہد وسطیٰ کی تاریخ کو موجودہ دور کی تاریخ بننے سے روکتی ہے۔خیر، مذکورہ معاملہ ۲۰۲۲ء میں سپریم کورٹ پہنچا جہاں جسٹس ڈی وائی چندرچڈ نے، جنہوں نے بابری مسجد کا فیصلہ قلمبند کیا تھا، ایسا تبصرہ کیا جو تباہ کن ہوسکتا ہے۔ اُنہوں نے کہا تھا کہ پلیس آف ورشپ کسی عبادت گاہ کے مذہبی کردار کے تعین سے نہیں روکتا۔ اس کا مطلب صاف تھا اور اس کا نتیجہ یہی نکل سکتا تھا کہ لوگ کسی بھی عبادت گاہ کے مذہبی کردار کے تعین کے بارے میں عدالت سے رجوع کرنے میں آزاد ہوں گے۔ اُنہوں نے سروے کو جاری رکھنے کی اجازت دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہندو فریق کے دعوے کو تقویت ملی اور شیو لنگ موضوع بحث بن گیا۔ ۲۰۲۳ء میں وارانسی کی ضلع عدالت نے محکمہ آثار قدیمہ کو یہ پتہ لگانے کی ہدایت دی کہ آیا یہ قدیم مسجد کسی مندر کو منہدم کرکے تعمیر کی گئی تھی؟ گمان غالب ہے کہ اسی سلسلہ واقعات کے سبب اتر پردیش، راجستھان اور دیگر ریاستوں کے جج حضرات نے اُن عرضداشتوں کو قابل اعتناء سمجھا اور سماعت کیلئے قبول کیا جن میں کئی مساجد کے تعلق سے دعویٰ کیا گیا کہ عہد وسطیٰ میں وہاں منادر تھے جنہیں منہدم کرکے مسجد بنائی گئی تھی۔ اب ان مساجد کی مذہبی حیثیت کا تعین کیا جارہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ خواجہ معین الدین چشتیؒ کی درگاہ پر بھی دعویٰ کیا جارہا ہے۔
لکھنؤ کی ٹیلے والی مسجد کو بھی متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ شاہ جہاں کے گورنر نے تعمیر کرائی تھی۔ بدایوں کی جامع مسجد شمسی خاندانِ غلاماں سے تعلق رکھنے والے سلطان شمس الدین التمش (وفات: ۱۲۳۶ء) کے دور میں بنائی گئی تھی۔ اس پر اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا نے دعویٰ ٹھونک دیا ہے۔ جونپور کی مسجد اٹالہ کے بارے میں حکومت کے محکمۂ سیاحت کی ویب سائٹ پر درج ہے کہ یہ مسجد ’’جونپور کی دیگر مساجد کی تعمیر کیلئے مثال بنی۔‘‘ اس کے خلاف سوراج واہنی اسوسی ایشن نامی ایک تنظیم نے عداگلت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور مطالبہ کیا ہے کہ اس میں پوجا پاٹھ کی اجازت دی جائے۔ اسی طرح مارچ ۲۴ء میں تیرہویں صدی کے راجہ بھوج شالہ کمال مولا کامپلیکس کے خلاف بھی دعویٰ دائر کیا گیا اور نتیجتاً مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے محکمۂ آثار قدیمہ کو ہدایت دی ہے کہ اس کا سائنسی سروے کیا جائے۔ یہ کامپلیکس مدھیہ پردیش کے شہر دھار میں واقع ہے۔
گزشتہ سال نومبر میں مغربی اترپردیش کی ایک عدالت نے سنبھل جامع مسجد کے خلاف دائر کی گئی ایک پٹیشن پر سماعت کی اور سروے کا حکم دیا۔ سروے ٹیم اُسی دن وہاں پہنچ گئی۔ اسی وقت یہ افواہ اُڑی کہ سروے کرنے کیلئے آنے والی ٹیم مسجد کے نیچے کھدائی کررہی ہے۔ یہ سنتے ہی بہت سے لوگ احتجاج کے مقصد سے جمع ہوگئے۔ پولیس نے گولی چلائی اور مظاہرین میں سے پانچ لقمۂ اجل بن گئے۔یہ اور ایسی خبرو ں سے قارئین واقف ہیں ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے مشاہدات میں جو بات کہی گئی تھی اُس کا حکام سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ عدالت کے حکمنامے میں ان مشاہدات کو نقل نہیں کیا گیا ہے اور اگر ان کا کوئی ریکارڈ ہے تو اس کی حیثیت یہ ہے کہ وہ بات اُس لمحہ کہی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے نہ تو پلیس آف ورشپ ایکٹ پر اسٹے دیا نہ ہی اُس کے خلاف فیصلہ سنایا۔ یہ قانون اب بھی موجود ہے اور جب تک کوئی ایسی عبادت گاہ کی نشاندہی نہیں ہوتی جسے ۱۵؍ اگست ۱۹۴۷ء کو بیک وقت کئی فرقوں کے لوگ استعمال کررہے تھے تب تک کسی بھی عبادت گاہ کے خلاف تنازع کھڑا نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے باوجود ہم دیکھ رہے ہیں کہ یکے بعد دیگرے کئی عبادت گاہوں کے خلاف مقدمے دائر کئے جارہے ہیں ۔ وہ تمام لوگ جو ایودھیا تنازع کے وقت شعور کی عمر کو پہنچ چکے تھے اُن کیلئے دائر کئے جانے والے یہ مقدمے پریشان کن ہیں ۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ایودھیا تنازع پر کتنی توانائی صرف ہوئی اور کتنا خون بہا۔ بہرکیف، پچھلے مہینے سپریم کورٹ نے عدالتوں کو عبادت گاہوں کے خلاف نئے مقدمات قبول کرنے سے منع کردیا اور کہا کہ جب تک وہ (سپریم کورٹ) پلیس آف ورشپ پر حتمی فیصلہ نہیں سناتا تب تک زیر سماعت مقدمات پر متعلقہ عدالتیں فیصلہ نہیں سنائینگی۔
یہ بھی پڑھئے : پورے وجود سے کبھی خوش ہو کے دیکھ لیں
جب پلیس آف ورشپ ایکٹ ۱۹۹۱ء پر سماعت ہوگی، تب ہمیں علم ہوگا کہ اس قانون پر مودی حکومت کا کیا موقف ہے۔ وے کوئی بھی حکومت ہو، اُس سے اُمید کی جاتی ہے کہ وہ قانون کا دفاع کرے گی مگر کہا نہیں جاسکتا کہ مودی حکومت کا کیا طرز عمل ہوگا کیونکہ اِس حکومت کا تعلق جس پارٹی سے ہے وہ اُس مہم سے مستفید ہوئی ہے جس کے نتیجے میں یہ قانون بنایا گیا تھا۔n