• Mon, 20 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

معاشی مسائل کا حل ممکن ہے اگر کچھ سیکھا جائے!

Updated: January 19, 2025, 3:37 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کے کئی مسائل مشترک ہیں مگر ان ملکوں میں اشتراک کی وہ کیفیت نہیں پائی جاتی جو مثال کے طور پر یورپی یونین کی ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

تین بڑے مسائل ایسے ہیں  جو تینوں  بڑے جنوب ایشیائی ممالک میں  مشترک ہیں ۔ پہلی غربت اور ناکافی معاشی ترقی ہے۔ دوسرا ایک داخلی قوم پرستی کا رجحان ہے (جس کا بیرونی دُنیا سے تعلق نہیں  ہے)۔ اس کا تعلق یہاں  کی اقلیتوں  سے ہے۔ تیسرا وہ تناؤ ہے جو وسیع تر علاقائی تفاوت کے ساتھ زیادہ مرکزیت والی ریاستوں  کے درمیان پایا جاتا  ہے۔ پہلا مسئلہ ہر اس شخص پر واضح ہے جو اس خطے یعنی جنوبی ایشیاء سے واقف ہے۔ ۲۰۲۰ء میں  ہندوستان کی فی کس قومی آمدنی یا جی ڈی پی ۱۹۳۳؍امریکی ڈالر کے برابر، بنگلہ دیش کی ۲۲۷۰؍ امریکی ڈالر کے برابر اور پاکستان کی ۱۵۰۱ء امریکی ڈالر کے برابر تھی۔ ہمیں  حصول ِ خوشنودی کیلئے لگائی گئی سرخیوں  سے احتراز کرنا چاہئے جو ہم میں  سپر پاور ہونے کا غیر ضروری احساس پیدا کرتی ہیں ۔ ہر جنوبی ایشیائی ملک اپنے دوسرے ہم منصب سے تھوڑا بہت ہی آگے یا پیچھے ہے۔ ان میں  کوئی بھی ایسا نہیں  ہے جو کوریا (فی کس جی ڈی پی ۳۴؍ ہزار امریکی ڈالر ۲۰۲۰ء میں )، جاپان (۳۹؍ ہزار امریکی ڈالر) یا چین (۱۰؍ ہزار ۴۰۸؍ امریکی ڈالر) کے برابر ہو۔ اسی تناظر میں  مَیں  نے کہا کہ ہمیں  یعنی ہندوستانیوں  کو حصولِ خوشنودی کیلئے لگائی گئی سرخیوں  سے پرہیز کرنا چاہئے اور اس خام خالی سے بھی دور رہنا چاہئے کہ ہم ’’سب سے تیز معیشت‘‘ کا درجہ حاصل کرچکے ہیں ۔ کچھ عرصہ کیلئے تیز معیشت بنا جاسکتا ہے مگر یہ بھی طے ہے کہ اگر موجودہ صورتحال برقرار رہی تو ہم دیگر ایشیائی معیشتوں  کے برابر نہیں  ہوسکیں  گے کیونکہ ہم کم و بیش اُسی مرحلے میں  ہیں  جس میں  ہمارے پڑوسی ممالک ہیں ۔ یہ ہوئی غربت اور ناکافی معاشی ترقی کےتعلق سے چند باتیں  جو واجبی طو ر پر کہی جاسکتی ہیں ۔ 
 دوسرا مسئلہ ہر اُس شخص پر عیاں  ہے جو یا تو ان ملکوں  میں  رہتا ہے جن کا ذکر اوپر کیا گیا یا یہاں  کے اُمور کا گہرائی سے جائزہ لیتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ ہندوستان کے کئی مصنفوں  نے جو اِس وقت مغربی ملکوں  میں  رہائش پزیر ہیں ، سیکولرازم اور تکثیریت کے زوال پر کتابیں  لکھیں  اور یہ بتایا ہے کہ کس طرح اِس زوال کی وجہ سے ملک و قوم کا نقصان ہورہا ہے جو آئندہ بھی جاری رہ سکتا ہے۔یہ بات پاکستان کیلئے بھی کہی جاسکتی ہے اور بنگلہ دیش کیلئے بھی۔ تینوں  ہی ملکوں  میں  اقلیتوں  کے ساتھ جبر و زیادتی پر خاصی توانائی صرف کی جارہی ہے۔ یہاں  توانائی سے مراد قانون سازی، ذرائع ابلاغ، عدالتی نظام اور عوامی سیاست سے ہے۔ جو توانائی صرف ہورہی ہے اسے منفی توانائی کا نام دیا جاسکتا ہے جس کا رُخ تعمیری نہیں  ہوتا اور جس کے سبب ملک کا کچھ بھلا نہیں  ہوتا بلکہ اہم اور بنیادی موضوعات سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔ مَیں  اُن باتوں  کا اعادہ نہیں  کرنا چاہوں  گا جو اَب سے پہلے ہزار مرتبہ کہی، لکھی، سنی اور پڑھی جاچکی ہیں ۔ اگر کوئی شخص یہ ماننے کو تیار نہ ہو کہ ہندوستان میں  بھی وہی سب کچھ ہورہا ہے جو پاکستان اور بنگلہ دیش میں  ہورہا ہے تو ایسے شخص کو آپ کبھی قائل نہیں  کرپائینگے، اُسے اُس کے حال پر چھوڑ دینا چاہئے۔

یہ بھی پڑھئے : ’’اگر نہیں ہو مزاح پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا‘‘

 اوپر بیان کئے گئے نکات میں  سے تیسرا نکتہ ایسا ہے جس پر بہت کم گفتگو ہوتی ہے اور اسے بہت کم سمجھا جاتا ہے۔ اس نکتے کو وہ لوگ بھی سمجھنے سے قاصر رہ جاتے ہیں  جن کا شمار ماہرین میں  ہوتا ہے خواہ وہ اندرون ملک رہتے ہوں  یا بیرونِ ملک۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ اِس موضوع پر تب تک گفتگو کرنا فائدہ مند نہیں  ہوسکتا جب تک کہ مردم شماری نہ ہوجائے، نئی حدبندی نہ ہوجائے اور اس کی بنیاد پر لوک سبھا کے حلقوں  کی تشکیل نہ ہوجائے۔ جولائی ۲۳ء میں  وزارت شماریات اور نفاذ منصوبہ نے ایک ایک ریاست کا ڈیٹا جاری کیا تھا جس میں  بتایاگیا تھا کہ ان ریاستوں  میں  فی کس جی ڈی پی کتنی ہے۔اس ڈیٹا سے معلوم ہوا (جو کہ ویسے بھی کوئی راز نہیں  تھا) کہ جنوبی ریاستیں  شمالی ریاستوں  سے بہتر ہیں ۔ مثال کے طور پر آندھرا کی فی کس سالانہ جی ڈی پی ۲ء۱۹؍ لاکھ روپے، کیرالا کی ۲ء۲۸؍ لاکھ روپے، تمل ناڈو کی ۲ء۷۳؍ لاکھ روپے، کرناٹک کی ۳ء۰۱؍ لاکھ روپے اور تلنگانہ کی ۳ء۰۸؍ لاکھ روپے تھی۔ ان میں  سے کوئی بھی جی ڈی پی ایسی نہیں  ہے جو قومی جی ڈی پی سے کم ہو۔ سب زیادہ ہیں  مگر ان کے برخلاف بہار کی صرف ۴۹؍ ہزار روپے، یوپی کی صرف ۷۰؍ ہزار روپے اور مدھیہ پردیش کی صرف ۱ء۴؍ لاکھ روپے ہے۔ 
 جنوری ۲۴ء میں  منظر عام پر آنے والے ایک مقالے سے، جو ریاستوں  میں  ہونے والی جی ایس ٹی کی وصولی سے متعلق تھا اور جسے  بینک آف بروڈا نے جاری کیا تھا، معلوم ہوا کہ اپریل سے دسمبر ۲۳ء تک یوپی میں  ۸۵؍ ہزار کروڑ روپے، مدھیہ پردیش میں  ۳۴؍ ہزار ۹؍ سو کروڑ روپے اور بہار میں  ۱۶؍ ہزار ۲؍ سو کروڑ روپے وصول کئے گئے تھے جبکہ ان کا حاصل جمع کم و بیش اُتنا ہی تھا جتناکہ جنوب کی صرف ایک ریاست کا تھا۔ وہ ریاست ہے کرناٹک جہاں  ۱ء۱۷؍ لاکھ کروڑ روپے وصول ہوئے تھے۔ 
 بین ریاستی تفاوت کی یہ ادنیٰ سی مثال ہے جس میں  آپ نے دیکھا کہ جنوبی ریاستوں  کی آمدنی بھی زیادہ ہے اور وہ جی ایس ٹی کے ذریعہ جمع کی جانے والی رقم میں  بھی زیادہ کی حصہ دار ہیں ۔ اگر ہمیں  اپنے ملک میں  غربت اور وسائل کی نابرابر تقسیم کا مسئلہ حل کرنا ہے تو ہم ریاستوں  کے درمیان پائی جانے والی اس نابرابری کے جاری رہتے ہوئے اسے حل نہیں  کرسکتے۔ اگر داخلی قوم پرستی کو برقرار رکھیں  جس کے تحت ہم اپنے ہی اوپر کچھ زیادتیاں  کررہے ہیں  تو کیا اس مسئلہ کو حل کرنا ممکن ہوگا؟ داخلی قوم پرستی کی وجہ سے اکثریت پسندی یا اکثریت پرستی کی سیاست نے جنم لیا جو تمام موضوعا ت پر چھا جاتی ہے اور ذرائع ابلاغ انہی موضوعات کو اہمیت دیتے ہیں  لہٰذا عوام کے حقیقی مسائل کبھی مرکز توجہ نہیں  بنتے۔
 حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس خطے کے تمام ممالک یہ سمجھتے ہیں  کہ اُن کے جو مسائل ہیں  وہ اُنہی کے ہیں  اور دیگر ملکوں  کے نہیں ۔ دیگر ملکوں  کی مثالیں  سامنے ہیں  مگر اُن پر توجہ نہیں  دی جاتی۔ جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں  کی تنظیم نے تمام رکن ملکوں  کو معاشی طور پر جوڑا جبکہ اُن میں  بے شمار اختلافات تھے۔ وہ تو جنگیں  بھی لڑچکے تھے۔ اسی طرح یورپی یونین کی مثال بھی سامنے ہے۔ مگر اِدھر کے ممالک اُدھر کے ملکوں  سے کچھ سیکھنا ہی نہ چاہتے ہوں  تو کیا کیا جائے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK