• Wed, 05 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

واقعات ہی واقعات ، ڈرامے ہی ڈرامے

Updated: February 05, 2025, 1:23 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

ڈونالڈ ٹرمپ نے بیان دیا کہ میکسیکواور کولمبیا سے آنے والے ہر اس شہری کو نکال باہر کیا جائے گا جس کے پاس کوئی سرکاری دستاویز یا ویزا نہیں ہے۔اپنی انتخابی مہم میںبھی کہا کہ صدر بنتے ہی وہ میکسیکوکے ہر شہری کو امریکی حدود سے نکال باہر کریں گے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 یہ تو عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ صدر بنتے ہی سب سے پہلے یوکرین کی جنگ کے بارے میں  کچھ باتیں  کریں  گے۔ ڈونالڈ ٹرمپ وہائٹ ہاؤس پہنچ تو گئے لیکن یوکرین کے بارے میں  ابھی تک انہو ں نے کوئی بیان نہیں دیا ہے، ہاں  مختلف ذرائع سے یہ ضرور معلوم ہوا ہے کہ ان کے اور روس کے صدر پوتن کے درمیان بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی نہ کوئی بات ضرو ر ہوئی ہے اور لوگ یہ کہہ رہے ہیں  کہ یوکرین کی جنگ کے بارے میں  ڈونالڈ ٹرمپ کا بیان محض کچھ واقعات کی دیر ہے لیکن جیسا کہ پہلے بھی کہا گیا تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کی بیان بازیوں  کا سلسلہ کم نہیں  ہوگا اور وہ ہر روز کوئی نہ کوئی نیا بیان دیتے ہیں  جس کا اثر امریکہ کے علاوہ دنیا کے بھی عوام پر پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر صدر بنتے ہی انہوں  نے یہ بیان دیا کہ امریکہ کے سابق چیف آف اسٹاف جارج میلی کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا۔ جارج میلی کو بھی اس کا اندازہ تھا کہ ڈونالڈ ٹرمپ ان کے خلاف کوئی نہ کوئی کارروائی ضرور کریں  گے اس لئے جوبائیڈن کے جاتے جاتے انہوں  نے جوبائیڈن کو مجبور کیا کہ وہ اپنے دور کے ہر افسر اور ہر انچارج کو دی جانے والی سزا معاف کردیں  چنانچہ جارج میلی کی خطا تو معاف ہوگئی لیکن ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ کہا ہے کہ جارج میلی نے اور بھی بہت سے فراڈ کئے ہیں ۔ 
  ڈونالڈ ٹرمپ نے بیان دیا کہ میکسیکو سے آنے والے ہر اس شہری کو نکال باہر کیا جائے گا جس کے پاس کوئی سرکاری دستاویز یا ویزا نہیں  ہے۔ اپنی انتخابی مہم بازی میں  انہوں  نے کہا کہ صدر بنتے ہی وہ میکسیکو کے ہر شہری کو امریکی حدود سے نکال باہر کریں  گے۔ صدر بنتے ہی ان سے پوچھا گیا کہ آپ میکسیکواور کولمبیا کے بارے میں  کیا کارروائی کریں  گے؟ ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا اس کارروائی میں  فوجی مداخلت کی بھی ضرورت ہو گی؟ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ فوجی مداخلت اگر ضروری ہوئی تو کی جائے گی ۔ اس کے بعد انہوں  نے کولمبیا کے صدر گستاؤ پیٹروسے بہت سخت لہجے میں  کہا کہ وہ کولمبیا سے آنے والوں  کو امریکہ آنے سے روکیں  ورنہ کوئی ضروری کارروائی کی جائے گی۔کولمبیا کے صدر پیٹرو یہ سن کر ’اونہہ‘ کہہ کر دوسری طرف منہ کرکے بیٹھ گئے۔ اس کے بعد ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ کیا کہ جتنے ایسے ملازم امریکہ میں  موجود ہیں  انہیں  امریکہ سے نکال باہر کیا جائے۔ ایسے کولمبیا والوں  کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ ظاہر ہے اتنی بڑی تعداد میں  ’سیاسی مہمانوں ‘ کی کوئی روز مرہ ضیافت تو نہیں  کرسکتا ، اس لئے ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ اب امریکہ میں  صدر کولمبیا کبھی قدم نہیں  رکھ سکیں  گے اور اس کے علاوہ ان کی کابینہ کے افسران اور وزیر اور دیگر سرکاری اہلکار بھی اب امریکہ میں  قدم نہیں  رکھ سکیں  گے۔گستاؤ پیٹرو نے اسے بھی مذاق سمجھا اور کہا کہ وہ خود بھی امریکہ جانے کے لئے تیار نہیں  تھے اور اگر انہیں  نہیں  جانے دیا جاتا تو انہیں  کوئی فرق نہیں  پڑے گا۔ پیٹرو یہ سمجھتے تھے کہ واقعہ یہیں  ختم ہو جائےگا لیکن واقعہ یہیں  تک نہیں  ختم ہوا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ اب امریکہ میں  بکنے والی،ظاہر جو سفارتی اور تجارتی آداب کے تحت بک رہی تھیں ، ان پر پندرہ فیصدٹیرف لگایا جائے گا اور یہی نہیں  یہ ٹیرف ایک ہفتہ تک رہے گا اس کے بعد بھی اگرکولمبیا کے لوگوں  کے آنے کی رفتار کم نہیں  ہوئی تو اگلے ہفتے سے یہ ٹیرف پندرہ فیصد کے بجائے پچاس فیصد کردیا جائے گا۔ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ بھی کیا کہ دو امریکی طیاروں  نے امریکہ میں کولمبیا کے ناجائز باشندوں  کو گرفتار کرکے کولمبیا بھیج دیا۔ پیٹرو نے اس کےجواب میں  یہ کیا کہ ان طیاروں  کو بوگوٹا کے ہوائی اڈے پر اترنے کی اجازت ہی نہیں  دی۔ طیارے واپس آگئے اور ڈونالڈ ٹرمپ غصے سے پاگل ہوگئےلیکن پیٹرو یہ سن کر کہ امریکہ میں  کولمبیا سے جانے والی چیزوں  پر پچاس فیصد ٹیکس لگے گا تو ان کے بھی ہوش اُڑ گئے۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ سے کولمبیا کی چیزوں  کی امریکہ میں  فروخت پر بہت برا اثر پڑتا اور کولمبیا کا خزانہ اس بوجھ کو برداشت نہ کرپاتا۔ اس کے بعد جو ڈرامہ ہوا وہ کولمبیا کے صدر پیٹرو نے کیا تھا۔ انہوں  نے ایک طیارہ واشنگٹن بھیجا اور اعلان کیا کہ ایسے تما م شہری کولمبیا واپس آجائیں  ، انہوں  نے امریکہ کے ذمہ داروں  سے یہ بھی کہا کہ یہ واپس آنے والے مسافروں  کو ہتھکڑیاں  نہ لگائی جائیں  تاکہ انسانیت کے آداب کی توہین نہ ہو۔ پھر ایساہی کیا گیا، اس سے نہ صرف کولمبیا کے بلکہ دنیا کے عوام کو بھی یہ معلوم ہوا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے بیان محض بیان بازی نہیں  ہیں  بلکہ ان کی عملی حیثیت بھی ممکن ہے اور ضروری نہیں  کہ اس حیثیت کا بوجھ ہر کوئی اٹھا سکے۔کولمبیا اور میکسیکو کے بعد ایسے ناجائز شہریوں  کی تعداد کے حساب سے ہندوستان سب سے بڑا ہے۔ جن باشندوں  کو امریکہ چھوڑنے کی دھمکی دی گئی ہے ان میں  سے کم وبیش ۷؍لاکھ ۲۵؍ہزار ہندوستانی ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ ہندوستان آئیں  تو اتنے ہی لاکھ بے روزگاریاں  بھی واقع ہوں  گی۔ مزہ یہ ہے کہ اس بیچ یہ خبر بھی آئی کہ نریندر مودی نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے فون پر بات کی اور یہ درخواست بھی کی ہے کہ وہ امریکہ آنا چاہتے ہیں ۔ ٹرمپ نے کہا کہ نریندر مودی اگر مارچ میں  تشریف لائیں  تو زیادہ بہتر ہوگا۔ ہندوستان کا گودی میڈیا تو یہ خبر سنتے ہی اچھل پڑتا اور اس کی چیخیں  آسمان تک بلند ہوتیں  کہ مودی ہے تو ممکن ہےلیکن یہ میڈیا یہ نہ بتاپاتا کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے اس کے علاوہ کیا کہا۔ مبینہ طور پر انہوں  نے نریند رمودی سےکہا کہ آپ عقل مند آدمی ہیں ۔ آپ کو معلوم ہے کہ امریکہ آنے سے پہلے آپ کو کچھ شرطیں  بھی ماننی پڑیں  گی۔ ہندوستان امریکہ کے بازار میں  کچھ بہت چیزیں  تو نہیں  بیچتا لیکن اگر بیچتا بھی ہے تو اس پر پندرہ فیصدکا ٹیرف ناقابل برداشت بوجھ ہوگا۔ اس کے علاوہ ٹرمپ نے یہ کہا کہ آپ جتنا جنگی سامان روس سے لیتے ہیں  اسے روک کر وہ سارا سامان امریکہ سے لیں  اور جب تک یہ نہیں  ہوتا تب تک امریکہ آنے کی زحمت نہ برداشت کریں ۔ ظاہر ہے کہ نریندر مودی یہ بوجھ نہیں  اٹھا سکتے او ران کی اتنی اوقات بھی نہیں  کہ وہ ٹرمپ سے ہندوستانیوں  کے بارے میں  رعایت کی درخواست کریں ۔

یہ بھی پڑھئے : کوئی بتائے، کانگریس کا بحران بھلا ختم ہو بھی تو کیسے؟

  ہم نے پہلے بھی کہا تھا اور ایک بار پھر کہہ رہے ہیں  کہ اب راہل گاندھی اور خاص طور پر چندرا بابو نائیڈو کو یہ کمان سنبھالنا چاہئے کیونکہ امریکہ میں  بسے ہوئے ہندوستانیو ں کی بڑی تعداد یا تو گجرات کی ہے یا آندھر پردیش والوں  کی ہے۔ یہ لوگ اگر امریکہ جائیں  اور ٹرمپ اور ان کے افسروں  سے ملاقات کریں  تو عین ممکن ہے ڈونالڈ ٹرمپ اس بارے میں  انسانی حقوق کے واسطے سے کچھ رعایتیں  بھی کریں ۔اگلے چار سال تک ڈونالڈ ٹرمپ سے ایسی ہی مزید بیان بازیوں  کی توقع کرنی چاہئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK