اہل فلسطین کیلئے جتنی اہم اُن کی وہ سرزمین ہے جس سے اُنہیں نکالا جارہا ہے وہیں وہ درخت بھی بہت قیمتی ہیں جو نسل در نسل اُنہیں ورثہ میں ملے ہیں۔ اسی لئے ظالم فوج انہیں بھی نشانہ بناتی ہے
EPAPER
Updated: November 03, 2024, 2:03 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
اہل فلسطین کیلئے جتنی اہم اُن کی وہ سرزمین ہے جس سے اُنہیں نکالا جارہا ہے وہیں وہ درخت بھی بہت قیمتی ہیں جو نسل در نسل اُنہیں ورثہ میں ملے ہیں۔ اسی لئے ظالم فوج انہیں بھی نشانہ بناتی ہے
میرے آبائی مکان میں ایک پرانا جامن کا درخت تھا۔ اس سے مجھے کتنی محبت تھی اس کا احساس تب نہیں تھا جب اس کا سایہ سر پر تھا یا جب اس کا پھل میسر تھا۔ اب احساس ہوتا ہے اور یہ آرزو ابھرتی ہے کہ کاش اسی جگہ وہی درخت از سر نو نمودار ہوجائے تو اس کے سائے میں بیٹھ کر بچپن کی بے شمار یادوں کو اکٹھا کیا جائے، کچھ سنا جائے، کچھ سنایا جائے، مگر، درختوں اور انسانوں میں کوئی چیز مشترک ہو یا نہ ہو، یہ خصوصیت ضرور مشترک ہے کہ دونوں کی قسمت میں فنا لکھی ہوئی ہے۔ انسان چلا جاتا ہے تو لوَٹ کر نہیں آتا، درخت گر جاتا ہے یا کاٹ دیا جاتا ہے تو دوبارہ ابھرتا اور پھلتا پھولتا نہیں ہے۔
جس دور میں جامن کا درخت میرے بچپن سے اور میرا بچپن جامن کے درخت سے ہمکلام ہوا کرتے تھے تب پیپل یا نیم کے علاوہ کسی اور درخت سے میری آشنائی نہیں تھی۔ زیتون کے درخت کا تو بالکل علم نہیں تھا۔ ننیہال میں رشتے کی ایک خالہ کا نام زیتون تھا مگر میں نہیں جانتا تھا کہ زیتون درخت کا نام بھی ہوتا ہے۔ میرے لئے وہ خالہ کا نام تھا۔ بہت بعد میں پتہ چلا کہ زیتون نام کا ایک درخت ہوتا ہے جس کے پھلوں کا تیل (روغن ِ زیتون) غیرمعمولی طبی فوائد رکھتا ہے۔ زیتون سے میرا یہ تعارف تب ہوا جب لوگ دبئی اور سعودی جانے لگے تھے۔ دو تین سال بعد جب وہ وطن واپس آتے تو تحفے میں کسی کو گھڑی، کسی کو عطر، کسی کو ابو فاس اور کسی کو زیتون کے تیل کا ڈبہ دیا کرتے تھے۔ زیادہ دلدار ہوتے تو بیک وقت کئی چیزیں نذر کردیتے تھے۔ زیتون کے درخت، پھل اور تیل سے واقفیت کا پہلا نقش جو ذہن پر مرتسم ہے وہ اسی دور کا ہے۔ دھیرے دھیرے علم میں اضافہ ہوا تو زیتون کی بابت معلوم ہوا کہ کلام پاک میں اس کی قسم کھائی ہے: وَالزَیتُونِ (اور قسم ہے زیتون کی)۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ زیتون کے درخت کا اصل وطن فلسطین (اور شام) ہے جہاں اس کی کاشت کی تاریخ کم و بیش چار ہزار سال پرانی ہے۔ یہیں سے یہ درخت اور اس کا پھل دیگر ملکوں میں پہنچے بالخصوص یورپ میں جو ماضی میں ہر درآمد شدہ شے پر ’’میڈ اِن یورپ‘‘ کا سکہ لگا کر دوسروں سے زیادہ خود کو دھوکہ دینے میں طاق تھا۔ اب تو خیر اس نے بہت ترقی کرلی اور اتنا اثر و رسوخ حاصل کرلیا ہے کہ آپ سے کوئی چیز چھین کر اپنی کہنا شروع کردے تو آپ احتجاج کے بجائے خود پر فخر کرینگے کہ چھیننا بری بات ہے مگر چھینا کس نے ہے!
ممکن ہے آپ سوچ رہے ہوں کہ مَیں سوانحی مضمون لکھنے بیٹھا ہوں یا کوئی طبی موضوع پیش نظر ہے۔ جی نہیں ، آج، اس مضمون کا موضوع فلسطین ہے مگر جنگ و جارحیت نہیں ، شہادت و ہلاکت بھی نہیں ، اسرائیل و امریکہ و اقوام متحدہ بھی نہیں ، تباہی و تاراجی یا کسی کی بے بسی اور کسی کی بے حسی بھی نہیں ، عربوں کی بے عملی اور یورپ کی چشم پوشی بھی نہیں ۔ موضوع وہ درخت ہے جس کی دو پتیوں کو فاختہ کی چونچ میں رکھ کر مغرب نے اسے امن کی علامت بنا دیا تاکہ جہاں چاہے امن کے نام پر بدامنی کا بیج بو دے اور جہاں چاہے قتل عام کرواتا رہے۔ انگریزی میں زیتون کو Oliveکہا جاتا ہے لہٰذا آلیو برانچ کا معنی شاخِ زیتون ہے جسے مغرب ہی نے علامت ِ امن یا صلح اور دوستی کے جذبے کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے۔
ہندوستان میں زیتون کی کاشت نہیں ہوتی (سوائے ریاست ِ راجستھان کے جہاں ۲۰۰۷ء میں اس کے پودے اسرائیل سے درآمد کرنے کے بعد صحرائے تھر میں لگائے گئے) مگر جس قوم کو وَالزَیتُونِ کی وجہ سے اس درخت اور اس کے پھل سے رغبت اور اُنسیت ہونی چاہئے تھی اُس نے تو اپنی بچیوں کا زیتون نام رکھنا بھی ترک کردیا مگر اہل فلسطین کی رغبت اور اُنسیت کا وہی عالم ہے جو صدیوں پہلے تھا۔ جب جب بھی اسرائیلی فوجوں کی یورش بڑھی، اُنہوں نے زیتون کے پیڑوں کی اُتنی ہی فکر کی جتنی اپنے بال بچوں کی فکر کی۔ بلاشبہ، یہ درخت اُن کی آمدنی کا ذریعہ ہیں مگر وہ ذریعۂ آمدنی سے بڑھ کر اُن سے محبت کرتے ہیں ۔اسی محبت نے زیتون کو ارض فلسطین سے فلسطینیوں کی وابستگی، وطنیت کی پہچان اور فلسطینی مزاحمت کی علامت بنادیا۔ جب یہ جذبہ راسخ ہوا تو دشمن اسرائیلیوں نے جہاں فلسطینی عوام سے نسل پرستانہ اور جابرانہ دشمنی نکالی، وہیں زیتون کے درختوں کو بھی اُجاڑا، اُن کا استیصال کیا اور اگر بمباری کی تو زیتون کے درختوں کو بھی نشانہ بنایا۔ کئی رپورٹس شاہد ہیں کہ ۱۹۶۷ء کے بعد سے اب تک اسرائیل نے فلسطین کے ۸؍ لاکھ سے زیادہ زیتون کے درختوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ یقیناً یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوگی کیونکہ وہاں اس سے زیادہ تو انسان شہید ہوئے ہیں مگر فرض کرلیجئے تعداد اتنی ہی ہے تب بھی یہ بہت بڑا نقصان ہے کیونکہ اہل فلسطین کیلئے زیتون کا ایک درخت بھی اُن کی جان کی طرح قیمتی ہے۔ اس درخت کی جتنی معاشی اہمیت ہے اُس سے ہزار گنا زیادہ جذباتی اہمیت ہے۔ سوچئے اُن کے دلوں پر کیا گزری ہوگی جب ان درختوں پر بم گرے ہونگے! کئی لوگ تو اپنے درختوں کی تباہی پر ایسا زار و قطار روئے جیسے اُن کے گھر کا کوئی فرد شہید ہوا ہو۔ جو لوگ پناہ گزینوں میں مقیم ہیں اُنہیں اپنے گھر سے زیادہ اپنے درختوں کی فکر ہے۔ الجزیرہ کی ایک رپورٹ میں ایک فلسطینی شہری کا بیان نقل کیا گیا تھا کہ ’’مَیں سب سے کہتا تھا کہ یہ درخت میری زندگی کے ساتھی ہیں ، انہوں نے مجھے چھوٹے سے بڑا ہوتا دیکھا ہے، یہ میری خوشیوں پر خوش ہوئے، میرے غم پر غمزدہ ہوئے، میری کامیابی اور ناکامی کا شاہد کوئی اور ہو نہ ہو، یہ درخت ضرور ہیں ۔‘‘
یہ بھی پڑھئے : سیکولرازم کے حق میں سپریم کورٹ کے دو فیصلے
فلسطین کی بڑی آبادی ایسے خاندانوں پر مشتمل ہے جنہیں زیتون کے درخت نسل در نسل ورثہ میں ملے ہیں ۔ یہ اُن کی قومی شناخت کا درجہ رکھتے ہیں ۔مشہور فلسطینی شاعر محمود درویش نے یوں ہی نہیں کہا تھا کہ ’’اگر زیتون کے درختوں کو علم ہو کہ اُنہیں اُگانے والے ہاتھوں پر کیا گزر رہی ہے تو اُن کا تیل آنسو بن جائیگا۔‘‘ دُنیا یہ تو جانتی ہے کہ فلسطین میں کتنا خون بہا مگر اہل فلسطین نے زیتون کے آنسوؤں کو بھی بہتا دیکھا ہے، اب بھی دیکھ رہے ہیں ۔