جو کام رخصت پذیرامریکی صدر جو بائیڈن ۱۵؍ ماہ میں نہیں کرسکے وہ ان کے نو منتخب جانشیں ڈونالڈ ٹرمپ نے ۱۵؍ دنوں سے بھی کم عرصے میں کر دکھایا۔لوگوں نے یہ سمجھا کہ ٹرمپ نے یہ دھمکی حماس کودی تھی لیکن درحقیقت اس کا نشانہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو تھے۔
EPAPER
Updated: January 22, 2025, 1:31 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai
جو کام رخصت پذیرامریکی صدر جو بائیڈن ۱۵؍ ماہ میں نہیں کرسکے وہ ان کے نو منتخب جانشیں ڈونالڈ ٹرمپ نے ۱۵؍ دنوں سے بھی کم عرصے میں کر دکھایا۔لوگوں نے یہ سمجھا کہ ٹرمپ نے یہ دھمکی حماس کودی تھی لیکن درحقیقت اس کا نشانہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو تھے۔
اتوار کے دن غزہ میں پندرہ ماہ سے جاری فلسطینیوں کا قتل عام آخر کار تھم گیا۔اسرائیل اور حماس کے درمیان ہوئے جنگی بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کے تحت تین اسرائیلی یرغمالیوں اور اسرائیل کی جیلوں میں بند ۹۰؍ فلسطینی قیدیوں کو رہا کردیا گیا۔ غزہ سے اسرائیلی فوج کا انخلاشروع ہوگیا اوراجڑے ہوئے فلسطینی باشندے اپنے اپنے گھروں کے ملبوں میں واپس ہونے لگے۔غزہ سے ہزاروں کلومیٹر دور واشنگٹن میں ڈونالڈ ٹرمپ یہ دعویٰ کررہے تھے کہ یہ معاہدہ صرف ان کی وجہ سے ممکن ہوسکا۔
ٹرمپ کا دعویٰ غلط نہیں تھا۔جو کام رخصت پذیرامریکی صدر جو بائیڈن ۱۵؍ ماہ میں نہیں کرسکے وہ ان کے نو منتخب جانشیں ڈونالڈ ٹرمپ نے ۱۵؍ دنوں سے بھی کم عرصے میں کر دکھایا۔ ۷؍ جنوری کو ٹرمپ نے یہ اعلان کیا تھا کہ اگر ۲۰؍ جنوری کو ان کی حلف برداری اور افتتاحی تقریب کے قبل اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا نہیں کیا گیا تو مشرق وسطیٰ کو جہنم بنادیں گے۔ لوگوں نے یہ سمجھا ٹرمپ نے یہ دھمکی حماس کودی تھی لیکن درحقیقت اس کا نشانہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو تھے۔ حماس تو جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے پر شروع سے رضامند تھی۔ اس ضد پر تو اسرائیلی وزیر اعظم اڑے ہوئے تھے کہ ’’مکمل فتح‘‘حاصل کئے بغیرغزہ میں جنگ بند نہیں ہوگی۔ ایک سال تک بائیڈن ان کی منت سماجت کرتے رہے لیکن نیتن یاہو ٹس سے مس نہیں ہوئے۔
سابق اسرائیلی وزیر اعظم یہود اولمرٹ نے یہ انکشاف کیا ہے کہ ٹرمپ نے نیتن یاہو پر شدید دباؤ ڈال کر جنگ بندی کے لئے راضی کروایا۔ ٹرمپ کے سابق مشیراسٹیو بینن نے تو یہ دعویٰ بھی کیا کہ ٹرمپ نے جو وارننگ دی تھی وہ حماس کے لئے نہیں بلکہ نیتن یاہو کیلئے تھی۔قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی کی کامیاب ثالثی کا اسرائیل۔حماس معاہدہ میں اہم کرداررہا۔ انہوں نے بھی ٹرمپ اور خصوصی طور پر ان کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی اسٹیو وٹکوف کو اس کا پورا کریڈٹ دیا۔اسرائیل کے مقبول اخبار Haaretz کی ایک رپورٹ کے مطابق وٹکوف نے ۱۰؍دسمبر کو قطر سے نیتن یاہو کے دفتر کو فون کرکے یہ اطلاع دی کہ وہ اگلے دن یروشلم میں اسرائیلی وزیر اعظم سے ملنا چاہتے ہیں ۔جب انہیں بتایا گیا کہ یہودیوں کا تہوار Sabbath چل رہا ہے اور اس کے دوران ملاقات ممکن نہیں ہوسکے گی توٹرمپ کے ایلچی نے کڑا رخ اختیار کرتے ہوئے کہ دیا کہ ملاقات تو ہر حالت میں ہوگی۔ اور واقعی ایسا ہی ہوا۔ نیتن یاہو نے ٹرمپ کے ایلچی کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے سنیچر کے دن دفتر پہنچ کر ان سے ملاقات کی۔وٹکوف نے نیتن یاہو کو صاف الفاظ میں سمجھادیا کہ اڑیل رویہ ترک کرکے سمجھوتہ کے لئے تیار ہوجائیں اسی میں ان کی بھلائی ہے۔ وٹکوف نیتن یاہو کی منظوری لے کرقطر واپس چلے گئے اور تین دنوں کے اندر دونوں فریق نے معاہدہ پر دستخط کردئے۔ ٹرمپ نے خود سوشل میڈیا پر’’ ٹائمز آف اسرائیل‘‘ کی ایک رپورٹ شیئر کی جس میں ایک عرب افسر نے دعویٰ کیا کہ ’’ٹرمپ کے نمائندہ نے ایک ملاقات میں نیتن یاہو سے اپنی بات منوالی جو بائیڈن ایک سال میں بھی نہیں کرسکے۔‘‘ بی بی سی کے انٹرنیشنل ایڈیٹرJeremy Bowen کے مطابق غزہ میں جنگ بندی کرواکے ٹرمپ نے دوسری بار وہائٹ ہاؤس میں قدم رکھنے کے قبل ہی مشرق وسطیٰ کی جیوپالیٹکس پر اپنا دبدبہ قائم کردیا ہے۔
قطر کے وزیر اعظم نے Sky News کو انٹرویو میں انکشاف کیا کہ پچھلے بدھ کو جو معاہدہ ہوا اس کا فریم ورک ہوبہو وہی ہے جو اس معاہدہ کا تھا جو قطر اور مصر نے دسمبر ۲۰۲۳ء میں پیش کیا تھا۔اس وقت غزہ کی جنگ کو صرف دو ماہ گزرے تھے۔تیرہ ماہ قبل یہ معاہدہ ہوگیا ہوتا تو ہزاروں بے گناہوں کی جانیں بچ گئی ہوتیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بائیڈن نے دعویٰ کیا کہ جس معاہدے پر اسرائیل اور حماس نے دستخط کئے یہ وہی معاہدہ ہے جو مئی میں تحریر کیا گیا تھا۔ گمان ہوتا ہے کہ بائیڈن جھوٹ بول رہے ہیں کیونکہ ساری دنیا جان گئی ہے کہ جنگ بندی کس نے کرائی ہے۔اہم سوال یہ ہے کہ تیرہ ماہ یا آٹھ ماہ بعد اسی معاہدہ کو نیتن یاہو نے کیسے قبول کرلیا جسے وہ پہلے بار بار مسترد کرچکے تھے۔ اس کا جواب سابق اسرائیلی وزیر اعظم اولمرٹ نے ان الفاظ میں دیا’’ نیتن یاہو ٹرمپ سے خوف ذدہ ہیں ۔‘‘ ٹرمپ کے دباؤ میں نیتن یاہو کو حماس کی ان شرطو ں کو بھی مان لینا پڑا جن کو وہ پہلے حقارت سے ٹھکراتے رہے تھے۔ اسرائیل کے وزیر خزانہ Bezalel Smotrich نے معاہدہ کو ’’اسرائیل کی سلامتی کیلئے خطرناک‘‘قرار دیتے ہوئے استعفیٰ دینے کی دھمکی دے ڈالی۔ قومی سلامتی کے وزیر Itamar Ben-Gvir نے تو استعفیٰ دے بھی دیا۔
ٹرمپ کا نیا روپ دیکھ کر نیتن یاہو ہکا بکا رہ گئے ہیں ۔ وہ سمجھ نہیں پائے کہ ان کے اور اسرائیل کے پرجوش حامی ٹرمپ ان پر اتنا دباؤ کیوں ڈال رہے ہیں ۔ نیتن یاہو تو بائیڈن کی وہائٹ ہاؤس سے رخصتی کا انتظار کررہے تھے کیونکہ انہیں توقع تھی کہ ٹرمپ کے دور اقتدار میں ان کو مزید کھلی چھوٹ ملنے والی ہے۔ لیکن ٹرمپ نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ ابھی حال میں ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کیا جس میں ایک امریکی دانشور Jeffrey Sachs نے یہ دعویٰ کیاکہ پچھلی تین دہائیوں سے نیتن یاہو امریکہ کو اپنی انگلیوں پر نچارہے ہیں اور عرب ممالک سے لڑوارہے ہیں تاکہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی بالادستی قائم رہے۔ نیتن یاہو نے ہی امریکہ کو عراق کی غیر ضروری جنگ میں گھسیٹا اور اور اب ایران سے جنگ کروانے کی جی توڑ کوشش کررہے ہیں ۔
یہ بھی پڑھئے:دنیا میں سیاست کی ہوا کا رخ بدل رہا ہے
امریکہ کے عرب اور دیگر مسلم باشندے روایتی طور پر ڈیمو کریٹک پارٹی کی حمایت کرتے رہے ہیں ۔ پچھلے پندرہ ماہ سے امریکی مسلمانوں نے بار بار بائیڈن سے فریاد کی کہ وہ غزہ میں بے گناہوں کا قتل عام رکوائیں ۔ لیکن بائیڈن امریکی یہودی ووٹروں اور عطیہ دہندگان کی ناراضگی کے خوف سے اسرائیل پر ذرا سا بھی دباؤ نہیں ڈال سکے۔ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی رکوانے میں بائیڈن انتظامیہ کی ناکامی سے اور اسرائیل کو ۱۸؍ بلین کی فوجی امداد فراہم کرنے کی وجہ سے امریکی مسلمانوں میں ڈیموکریٹ پارٹی کے خلاف غم وغصہ تھا۔ اس لئے ایک بڑے طبقے نے صدارتی انتخاب میں کملا ہیرس کے بجائے ٹرمپ کو ووٹ دینا پسند کیا۔اپنی انتخابی مہم کے آخری دنوں میں مشی گن میں ٹرمپ نے مسلمانوں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ وہائٹ ہاؤس میں قدم رکھتے ہی غزہ کی جنگ رکوادیں گے۔ ٹرمپ نے اپنا وعدہ نبھایا۔