ڈونالڈ ٹرمپ نے کرسی صدارت پر بیٹھنے سے پہلے یہ کہہ دیا تھا کہ غزہ کی یہ جنگ بندی چھ ہفتے تک رہے گی اور اگر کسی نے اس کی خلاف ورزی کی تو اس کے خلاف زبردست ایکشن لیا جائے گا۔ یہ محض ایک بیان نہیں تھا ، اسے آپ ایک سیاسی رخ بھی کہہ سکتے ہیں۔
EPAPER
Updated: January 21, 2025, 1:25 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai
ڈونالڈ ٹرمپ نے کرسی صدارت پر بیٹھنے سے پہلے یہ کہہ دیا تھا کہ غزہ کی یہ جنگ بندی چھ ہفتے تک رہے گی اور اگر کسی نے اس کی خلاف ورزی کی تو اس کے خلاف زبردست ایکشن لیا جائے گا۔ یہ محض ایک بیان نہیں تھا ، اسے آپ ایک سیاسی رخ بھی کہہ سکتے ہیں۔
ڈونالڈ ٹرمپ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سینتالیسویں صدر بن گئے۔ڈونالڈ ٹرمپ کا صدر بننا بجائے خود ایک معجزہ ہے کیونکہ جب تک الیکشن کے نتائج نہیں آئے تھے تب تک کسی کو یہ خبر نہیں تھی کہ وہ الیکشن جیت جائیں گے ، اس میں امریکہ کا میڈیا بھی شامل تھا ساتھ ہی ہندوستان کا میڈیا بھی اور جھوٹ کیوں بولیں خود ہم بھی اس میں شامل تھے لیکن ہم نے یہ ضرور کہا تھا کہ آخر کار ڈونالڈ ٹرمپ ہی جیتیں گے۔ڈونالڈ ٹرمپ کا صدر بننے میں کئی تاریخ سازیاں شامل ہیں ، پہلی تاریخ سازی تو یہ ہے کہ واشنگٹن میں درجہ حرارت انجماد سے کئی نقطے نیچے ہے یہ ایک غیر معمولی سردی ہے ، چنانچہ ٹرمپ کے حلف برداری جو بہت بڑے پیمانے پر ہونے والی تھی ایک بڑے میدان میں رکھی گئی تھی لیکن سردی کی وجہ سے یہ حلف برداری اب کھلے میدان کے بجائے سینیٹ کی چھتوں کے اندر ہوگی جو چاروں طرف سے بند ہوتا ہے۔ مزہ یہ ہے کہ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ حلف برداری کی رسم میں حصہ لینے والوں کو پچیس ہزار ڈالر سے لے کر ایک لاکھ ڈالر تک دینا پڑتے تھے، تو چلئے عوام کا یہ فائدہ تو ہوا کہ یہ پیسہ بچ گیا لیکن یہ تو محض ایک اتفاق تھا اصل تاریخ سازی تو اس وقت شروع ہوئی جب یہ معلوم ہوا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے اصرار پر برسوں سے لہولہان غزہ میں اچانک جنگ بندی کا اعلان ہوگیا۔ کسی کو بھی ا س کی امید نہیں تھی، ہمیں بھی نہیں تھی۔ ٹرمپ کو مہم سازی کے درمیان یہ معلوم ہوا کہ امریکہ میں رہنے والے نہ صرف تمام مسلمان بلکہ خاص طو رپر فلسطین اور عرب کے عوام ڈونالڈ ٹرمپ کو ووٹ دینے کے لئے تیار ہیں ۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ فلسطینی عرب مہم بازی کے دوران جوبائیڈن سے بھی ملے تھے اور ڈونالڈ ٹرمپ سے بھی ملے تھے۔ جوبائیڈن سے ان کی ملاقات بہت امید افزا نہیں تھی، لیکن چونکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے اینٹی وار ہونے کا نعرہ لگایا تھا اس لئے فلسطینیوں کویہ یقین تھا کہ وہ غزہ میں جنگ نہیں ہونے دیں گے ۔یہ بھی یاد رہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کا یہ بیان کوئی پریس بیان نہیں ہے، نہ کوئی سیاسی بیان بازی ہے بلکہ یہ ایک سیاسی عمل ہے کیونکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے کرسی صدارت پر بیٹھنے سے پہلے یہ کہہ دیا تھا کہ غزہ کی یہ جنگ بندی چھ ہفتے تک رہے گی اور اگر کسی نے اس کی خلاف ورزی کی تو اس کے خلاف زبردست ایکشن لیا جائے گا۔ یہ محض ایک بیان نہیں تھا ، اسے آپ ایک سیاسی رخ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے یہ کہہ دیا تھا کہ یہ معاہدہ انیس جنوری سے شروع ہوجائے گا اور وہ تین ماہ تک اس کو دیکھیں گے ، اس کے بعد جو ہوگا وہ بعد میں طے کیاجائے گا، اس معاہدے کےلئے شیخ قطر، مصر اور امریکہ نے گارنٹی دی تھی کہ یہ معاہدہ شروع کردیا جائے گا اور یہ معلوم ہو کہ اس معاہدے پر کام شروع ہوچکا ہے ۔ معاہدے کے مطابق غزہ میں قید اسرائیلی قیدیوں کو چھوڑا جائے گا اور یہ بھی طے ہوا تھا کہ ایک اسرائیلی قیدی کے چھوٹنے پر تیس سے لے کر پچاس تک قیدفلسطینیوں کو اسرائیل رہا کرے گا۔ نیتن بنجامن یاہو کے لئے ڈونالڈ ٹرمپ کا یہ رویہ بالکل ناقابل فہم تھا۔ امریکہ کی تاریخ ہے کہ وہاں آنے والا ہر صدر اسرائیل کے ساتھ رہا ہے۔ بارک اوبامہ کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نیتن بنجامن یاہو کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے لیکن وہ بھی اتنی دور نہیں جاسکے۔ نیتن بنجامن یاہو کو پہلی بار معلوم ہوا کہ دنیا میں اس کا سب سے بڑا حلیف امریکہ اب اس کا ساتھ چھوڑ چکاہے۔ اور ساتھ ایسے ہی نہیں چھوڑ چکا ہے وہ چاہتا ہے کہ بنجامن نیتن یاہو اس کا ثبوت بھی دیں ۔ نیتن بنجامن یاہو نے یہ معاہدہ اسرائیلی کابینہ کے سامنے رکھا۔ کابینہ میں کل بتیس ممبر تھے ان میں سے چوبیس نے معاہدے کے حق میں ووٹ دیا۔ صرف آٹھ ممبر ایسے تھے جنہو ں نے اس کی مخالفت کی تھی۔ بہر حال معاہدہ منظور ہوگیا۔ اسرائیل میں دنیا کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی پہلے بھی بنجامن نیتن یاہو کو بتا چکی تھی کہ اسرائیل میں ان کا اثر ختم ہورہا ہے اور وہ ایک ایسے وزیر اعظم ہیں جو صرف کاغذ پر ہیں ۔
ڈونالڈ ٹرمپ کے صدر بننے میں اور بھی کئی تاریخ سازیاں شامل تھیں ۔ وہ کمیٹی، جو یہ طے کرتی ہے کہ اس تقریب میں کون کون سے سربراہ حکومت شامل ہوں گے ان میں شی جنگ پنگ کا بھی نام تھا جو چین کے صدر ہیں اور امریکہ کہ کٹر دشمن بھی ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے آنے سے تو انکار کردیا لیکن ٹیلیفون پر ان کی ڈونالڈ ٹرمپ سے بات ضرور ہوئی۔ مزہ یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے ایک اور عزیز از جان دوست نریندر مودی کے لئے کوئی دعوت نامہ نہیں بھیجا۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ دنیا کے تمام سربراہو ں کی طرح ہندوستانی حکومت کو بھی ایک رسمی دعوت نامہ بھیجا گیا تھا چنانچہ نریندر مودی اگر چاہتے تو وہ آسانی سے جاسکتے تھے یہ اور بات ہے کہ وہاں انہیں ریاستی مہمان کا درجہ نہیں ملتا۔ پھر اگر وہ اس بھیڑ میں شامل ہوتے تو دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا پڑتا کہ وہ کس قطار میں ہیں ۔نریندر مودی نے بہرحال جانے سے انکار کیا اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بہتر ہی کیا۔ ان کالموں میں ہم یہ لکھ چکے ہیں کہ ٹرمپ کا آنا کچھ کے لئے بہت اچھا ہے اور کچھ کے لئے بہت برا۔ ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ نریندر مودی اور ٹرمپ کے درمیان جو مذاق کا آپسی رشتہ ہے وہ ختم ہونے والا ہے۔ ہم اب بھی سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور ہندوستان کے تعلقات پر کچھ ناخوشگوار اثر نہیں پڑے گا لیکن نریندر مودی دنیا بھر کے لوگوں کو جو یہ بتا چکے ہیں کہ ہندوستان میں انہیں بھگوان سمجھا جاتا ہے اور ان کے کروڑوں مداح بھی ایسا سمجھتے ہیں ،لیکن امریکہ سے دعوت نامہ نہ آنے کی وجہ سے نریندر مودی کو یہ معلوم ہوگیا ہے کہ اب دنیا اور خاص طو رپر امریکہ میں ان کی پرائم منسٹری کا سارا رعب ختم ہوچکا ہے اور وہ بھی اپنے جگری دوست نیتن بنجامن یاہو کی طرح صرف کاغذ پر پرائم منسٹر ہیں ۔
یہ بھی پڑھئے: تشدد، خوراک کی کمی اور کھیتی، کبھی ان پر بھی غور کیجئے
ڈونالڈ ٹرمپ کا آنا عمران خان کے لئے اس حدتک تو بہتر ہے کہ انہوں نے ڈونالڈ ٹرمپ کو چناؤ جیتنے کی مبارک باد دی تھی او ریہ بھی کہا تھا کہ وہ اپنی رہائی میں ان کی کوئی مدد نہیں چاہتے وہ چاہتے تھے کہ وہ صرف پاکستانی عوام کی مدد سے باہر آئیں لیکن یہ مشہور ہے کہ ٹرمپ عمران خان کو پسند کرتے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ ٹرمپ پاکستانی حکومت کو کوئی فون کریں کہ عمران خان کو چھوڑ دو، لیکن ایسا پیغام بھیجنے کیلئے بہت سے دوسرے ذرائع بھی موجود ہوتے ہیں جن میں پاکستان میں موجود امریکی سفیرکا رویہ بھی ایک معقول بوجہ ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ عین ممکن ہے کہ ظلمے خلیل زاد پاکستان میں امریکہ کے نئے سفیر بن جائیں ۔ اگر ایسا ہواتو پاکستانی مقتدرہ کو ایسا جھٹکا لگے گا کہ وہ زمین پر آجائیں گے لیکن ان تمام باتوں سے یہ معلوم ہوا کہ دنیا میں سیاست کی ہواؤں کا رخ بہر حال بدل رہا ہے۔