• Tue, 21 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

افغانستان اور ہندوستان میں گفتگو مبارک مگر

Updated: January 17, 2025, 1:09 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

۸؍ جنوری ۲۰۲۵ء کو افغانستان کے کار گزار وزیر خارجہ اور ہندوستان کے خارجہ سیکریٹری نے جو ملاقات کی وہ بڑی اہمیت کی حامل ہے اور یقیناً اس کا اچھا نتیجہ برآمد ہوگا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

افغانستان کبھی وسیع تر ہندوستان کا حصہ تھا مگر اس کے الگ ملک کی حیثیت حاصل کرنے کے بعد بھی افغانستان اور ہندوستان کے تعلقات ہمیشہ اچھے رہے۔ پاکستان کے وجود میں  آنے کے بعد بھی ہندوستان اور افغانستان کے تعلقات دوستانہ بلکہ برادرانہ رہے مگر اس برادرانہ رشتے میں  دراڑ اس وقت پڑی جب بامیان کا سانحہ پیش آیا۔ برادرانہ رشتے میں  دراڑ پڑنے کا مطلب یہ نہیں  ہے کہ دونوں  ملکوں  میں  جنگ کی نوبت آئی البتہ پاکستان اور افغانستان میں  کبھی بہت زیادہ قربت پیدا ہوئی اور کبھی جنگ کی بھی نوبت آئی۔ اِن دنوں  افغانستان اور پاکستان کے درمیان اچھے رشتے نہیں  ہیں ۔ ہندوستان نے بھی بیشتر ملکوں  کی طرح طالبان حکومت کو تسلیم نہیں  کیا ہے اس لئے دونوں  ملکوں  میں  سفارتی تعلقات نہیں  ہیں  اس کے باوجود ۸؍ جنوری کو افغانستان کے کار گزار وزیر خارجہ اور ہندوستان کے خارجہ سیکریٹری نے جو ملاقات کی وہ بڑی اہمیت کی حامل ہے اور یقیناً اس کا اچھا نتیجہ برآمد ہوگا۔
 سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ یہ گفتگو کس وقت ہوئی ہے؟ ایران اسرائیل کی مجرمانہ اور جارحانہ سازشوں  کے سبب دباؤ میں  ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ اقتدار سنبھالنے کے انتظار میں  ہیں ۔ روس جو ہر مشکل مرحلے میں  ہندوستان کا دوست اور بہی خواہ ثابت ہوا ہے ان دنوں  یوکرین جنگ میں  پھنسا ہوا ہے۔ پاکستان افغانستان پر فوجی ہوائی حملے کر چکا ہے جس سے دونوں  ملکوں  میں  تنا تنی یا کشمکش ہے۔ ہندوستان نے بھی کہہ دیا ہے کہ اپنے داخلی مسائل کے لئے پڑوسی ملکوں  کو مورد الزام ٹھہرانا پاکستان کی عادت ہوگئی ہے۔ ظاہر ہے اس بیان سے افغانستان کے حوصلے بلند ہوئے ہیں ۔ ایسے میں  افغانستان اور ہندوستان کا خارجہ سیکریٹری کی سطح پر بات کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہی کہا جاسکتا ہے۔ اس اہمیت میں  مزید اضافہ اس سے ہوا کہ طالبان کے دوسری مرتبہ برسراقتدار آنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب یہ دو پڑوسی ملک گفتگو کی میز پر آئے ہیں ۔ یہ گفتگو دبئی میں  ہوئی، اچھا ہوتا کہ یہ گفتگو نئی دہلی یا کابل میں  ہوتی۔
 دو ملکوں  میں  حسب ِ ضرورت بات ہوتی ہی رہتی ہے مگر دبئی میں  افغانستان اور ہندوستان کے خارجہ سیکریٹریوں  کی جو ملاقات ہوئی وہ معمول کی سفارتی ملاقات نہیں  تھی۔ اس ملاقات کو جغرافیائی پس منظر میں  دیکھا جانا چاہئے۔ خبر کے مطابق طالبان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی زمین سے ہندوستان پر حملہ یا تخریبی کارروائی نہیں  ہونے دیں  گے۔ ہندوستان نے بھی شاید یقین دہانی کی ہے کہ وہ افغان مہاجرین کے مسئلہ کو حل کرنے میں  افغانستان کی مدد کرتا رہے گا۔ خبر ہے کہ ہندوستان افغانستان کے ترقیاتی منصوبوں  کو کامیاب بنانے، تجارتی معاملات میں  چابہار بندرگاہ کے استعمال کو جاری رکھنے اور افغانستان میں  کھیل کود خاص کر کرکٹ کو فروغ دینے میں  بھی مدد فراہم کرتا رہے گا۔ اگر واقعی ان باتوں  پر دونوں  ملکوں  میں  اتفاق ہوچکا ہے تو ان کا خیر مقدم کیا جانا ضروری ہے۔ مگر ایسی کوئی خبر نظر سے نہیں  گزری کہ افغانستان نے انسانی حقوق کو پامال نہ کرنے اور خواتین کو ان کا حق دینے کا عہد کیا ہے۔ افغانستان نے جس طرح اپنی آزادی کو برقرار رکھا ہے اور امریکہ و روس کے ہر داؤ کا مقابلہ کیا ہے یا ان دنوں  اپنے بل پر اپنے ملک کی تعمیر نو میں  لگا ہوا ہے وہ بھی بہت قابل ِ قدر ہے مگر اس ملک میں  خواتین کی تعلیم یا حقوق کو جس طرح پامال کیا جا رہا ہے یا پامال کئے جانے کا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے اس پر گفتگو ہونا بھی ضروری ہے۔ امید ہے کہ ہندوستانی حکومت قومی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے افغانستان کے عوام کے مفادات اور حقوق کو بھی نظرانداز نہیں  کرے گا۔
 پاکستان نے افغان مہاجرین کو جنہیں  اپنے ملک میں  جگہ دینے میں  وہ بڑی فراخدلی کا مظاہرہ کرتا رہا ہے اب واپس بھیجنا شروع کر دیا ہے۔ ان کی باز آباد کاری افغان حکومت کے لئے بڑا مسئلہ ہے اور ہندوستان کی حکومت نے اس مسئلہ کو حل کرنے میں  ہمیشہ ہمدردانہ رخ اختیار کیا ہے۔ اب بھی وسیع تر پیمانے پر وہ ایسا ہی کرسکتا ہے۔ اس سے نہ صرف افغان حکومت کے ذمہ داروں  بلکہ لاکھوں  مہاجرین اور دنیا والوں  کا دل جیتنے اور ان کی دعا لینے میں  مدد ملے گی۔ ۱۹۷۱ء میں  سابق مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش سے جب مہاجرین نے ہندوستان کا رخ کیا تھا تو ہندوستان نے ان کو اپنے ملک میں  جگہ دی تھی۔ اب بنگلہ دیش اور ہندوستان میں  سرحدوں  پر گھیرا بندی کرنے میں  اختلاف ہورہا ہے۔ اسی مودی حکومت میں  ہندوستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ایک معاہدہ بھی ہوا تھا اور سمجھا گیا تھا کہ اب دونوں  ملکوں  کی سرحدیں  محفوظ ہوگئی ہیں  مگر ایسا نہیں  ہوا اور بنگلہ دیش سرحدوں  پر مضبوط گھیرا بندی کرنے میں  رکاوٹ کھڑی کر رہا ہے۔ ظاہر ہے حکومت  ہند اس کا جواب دے گی مگر افغانستان میں  مہاجرین کا مسئلہ حل کرنے میں  مدد دینا اس کا انسانی اور پڑوسی ملک ہونے کا حق ادا کرنے جیسا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: ہندوستان اور طالبان: فاصلے کم ہو رہے ہیں

 ہندوستان پڑوسی ملک افغانستان کو بہت کچھ مدد کر رہا ہے اس مدد کے ساتھ اگر وہ عورتوں  کی تعلیم اور حقوق نسواں  کے تحفظ پر بھی بات کرے تو کچھ برا نہیں  ہے۔ افغانستان کے ارباب اختیار جو اپنی حکومت کو شرعی اور اسلامی حکومت قرار دیتے ہیں ، عورتوں  کی تعلیم کی مخالفت اپنے ملک کی روایت کی بنیاد پر کرتے ہیں ۔ ان کو بتائے جانے کی ضرورت ہے کہ اسلام ایسی کسی روایت کو جاری رکھے جانے کے حق میں  نہیں  ہے جو اس کے توانا عقیدہ اور ہر طبقے کیلئے عدل و انصاف کے اصول کو نقصان پہنچاتی ہو۔ سعودی عرب میں  بھی تو اسلامی حکومت ہے وہاں  عورتوں  کی تعلیم کے سلسلے میں  تو اتنی سختی نہیں  ہے۔ افغانستان میں  اسلام نافذ کیا جا رہا ہے مگر نازل تو نہیں  ہورہا ہے پھر پرانی روایتوں  اور ہدایات سے گریز کیوں ؟ یہاں  کی یونیورسٹی اور کالجوں  میں  پردے کے ساتھ وہ تمام علوم پڑھائے جاسکتے ہیں  جو لڑکوں  کو پڑھائے جاتے ہیں ۔ اگر ایسا نہیں  ہوتا تو زچگی، امراض نسواں  اور دوسرے نسوانی معاملات میں  مکمل اجارہ داری مردوں  کو حاصل رہے گی؟ یہ تو اسلام نہیں  کہتا۔ ہندوستانی حکومت موجودہ افغانستان کی حکومت کو تمام تر مدد پہنچانے کے ساتھ یہ تو کہہ ہی سکتی ہے کہ افغان روایت اور اسلامی شریعت میں  وہ اسلامی شریعت کے دائرے میں  رہتے ہوئے اس تفسیر کو ترجیح دے جو موجودہ زمانے سے مطابقت رکھتی ہے۔ افغان پڑوسی کا حق ادا کرنے میں  یہ بھی شامل ہے کہ اس کو تعلیم نسواں  اور حقوق نسواں  کا سبق پڑھایا جائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK