۸؍ جنوری کو دبئی میں ہندوستان کے خارجہ سیکریٹری وکرم مسری کے افغانستان کی عبوری حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ ہوئے مذاکرات ہماری خارجہ پالیسی کی ایک جرأت مندانہ پیش رفت کہے جاسکتے ہیں۔
EPAPER
Updated: January 15, 2025, 1:43 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai
۸؍ جنوری کو دبئی میں ہندوستان کے خارجہ سیکریٹری وکرم مسری کے افغانستان کی عبوری حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ ہوئے مذاکرات ہماری خارجہ پالیسی کی ایک جرأت مندانہ پیش رفت کہے جاسکتے ہیں۔
افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت کو دنیا کے باقی تمام ممالک کی طرح ہندوستان نے بھی ابھی تک تسلیم نہیں کیا ہے۔ طالبان کے ساتھ ویسے بھی ہمارے رشتے شروع سے ہی مخاصمانہ بلکہ دشمنوں جیسے رہے ہیں ۔ اس کے باوجود نئی دہلی نے پچھلے ہفتے طالبان حکومت کے نمائندے کے ساتھ اعلیٰ سطح پر جو رابطہ قائم کیا وہ ہماری سفارتی حقیقت پسندی کا مظہر ہے۔ ۸؍ جنوری کو دبئی میں ہندوستان کے خارجہ سیکریٹری وکرم مسری کے افغانستان کی عبوری حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ ہوئے مذاکرات ہماری خارجہ پالیسی کی ایک جرأت مندانہ پیش رفت کہے جاسکتے ہیں ۔سفارت کاری کا دیرینہ اصول ہے کہ نہ تو کوئی دوستی دائمی ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی دشمنی: دائمی صرف مفاد ہوتا ہے۔شکر ہے دیر سے ہی سہی پر نئی دہلی کو سفارت کاری کا یہ بھولا ہوا سبق یا د تو آیا۔
دبئی مذاکرات کے بعد طالبان حکومت کی جانب سے جو بیان جاری کیا گیا اس میں ہندوستان کو’’ اہم علاقائی اور اقتصادی پارٹنر‘‘ قرار دیتے ہوئے دو طرفہ سیاسی اور معاشی تعلقات کو مستحکم بنانے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ ہندوستان اور افغانستان دونوں اس بات پر بھی متفق ہوئے کہ صرف تجارتی مقاصد کے لئے ہی نہیں بلکہ فلاحی اور امدادی اشیاء کی ترسیل کیلئے بھی ایران کی چابہار بندر گاہ کو زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جائے۔ ہندوستان نے طالبان حکومت کی انسانی امداد کی فراہمی میں اضافے کی درخواست بھی قبول کرلی ہے۔ ماضی کے تلخ تجربات کی بنیاد پر ہندوستانی خارجہ سکریٹری نے سلامتی کے حوالے سے اپنی بنیادی تشویش سے طالبان حکومت کو آگاہ کیا۔متقی نے مسری کو یقین دہانی کرائی کہ افغانستان کی سرزمین کو ہند مخالف دہشت گرد تنظیموں کو استعمال کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی۔
۱۵؍اگست ۲۰۲۱ء کے دن افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاکے بعد جب طالبان نے کابل پر اپنا پرچم لہرایاتو واشنگٹن اور دیگر مغربی دارالحکومتوں میں ماتم کا ماحول تھا۔ سپر پاور امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی بیس برسوں کی جدو جہد کے بعد بھی افغانستان کی جنگ جیت نہ سکے اور انہیں پسپا ہوکر کابل سے عجلت میں فرار ہونا پڑا۔ کابل میں طالبان کی فاتحانہ واپسی سے صرف امریکہ میں ہی نہیں ہندوستان میں بھی مایوسی چھاگئی۔ کابل میں بھارتی سفارت خانہ اورقندھار اور مزار شریف میں واقع بھارتی قونصل خانوں پر تالے پڑ گئے اور سفارتی اور سیکورٹی عملہ کوخصوصی طیاروں سے عجلت میں دلی لایاگیا۔ ۲۰۰۱ء کے بعد سے ہندوستان نے حامد کرزئی اور اشرف غنی کی حکومتوں کے ساتھ اتنے گہرے دوستانہ تعلقات قائم کرلئے تھے کہ جب امریکی فوج کے انخلاکے ساتھ یہ کٹھ پتلی حکومت منہ کے بل گرپڑی تو نئی دہلی میں بھی چہرے مرجھاگئے۔ ہماری خارجہ پالیسی کی ایک دیرینہ خامی یہ رہی ہے کہ ہم سب انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھتے ہیں ۔اس پالیسی کی ناکامی کا نتیجہ ہمیں بنگلہ دیش میں بھی بھگتنا پڑرہا ہے ۔
ہندوستان نے طالبان کے ساتھ کبھی رشتے استوار ہی نہیں کئے نہ ۱۹۹۶ء میں جب طالبان نے پہلی باراقتدار پر قبضہ کیا تھا اور نہ ہی ۲۰۱۵ء کے بعد جب ان کی واپسی یقینی نظر آنے لگی تھی۔ ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۱ء تک طالبان کی حکومت کی پہلی میعاد کے دوران ہندوستان کھل کر ان کے دشمن ’’شمالی اتحاد‘‘ کی حمایت کررہا تھا۔ رشتے تو بڑی چیز تھے نئی دہلی میں بیٹھے اعلیٰ دماغ سرکاری اہلکاروں نے طالبان کے ساتھ رابطہ قائم کرنے سے بھی گریز کیا جبکہ پچھلے کئی سالوں سے خود امریکہ طالبان کے نمائندوں کے ساتھ دوحہ میں مسلسل مذاکرات کررہا تھا۔اسی لئے ۲۰۲۱ء میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد افغانستان میں ہندوستان کے نہ صرف اثر و رسوخ بلکہ موجودگی پر ہی سوالیہ نشان لگ گیا۔ ۲۰۰۱ء کے بعد ہندوستان نے افغانستان میں خطیر سرمایہ لگا کر سڑکیں ، اسپتال،اسکول ،پل ہی نہیں بلکہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت بھی تعمیر کروائی۔ ترقیاتی اور فلاحی پروجیکٹس پر تین ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرکے ہندوستان کئی سال قبل ہی افغانستان کی مدد کرنے والا سب سے بڑا علاقائی عطیہ دہندہ بن گیا تھا۔ طالبان کی واپسی کے بعد ہندوستان کی سرمایہ کاری اور محنت دونوں کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہوچلا تھا۔ طالبان کے تئیں انڈیا کے سرد رویے کے برعکس چین ان کے کافی قریب آتا چلا گیا۔پچھلے چند برسوں میں افغانستان میں چین نے اپنا اثرو رسوخ کافی بڑھا لیاہے۔ چین دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے ستمبر ۲۰۲۳ء میں کابل میں ایک نئے سفیر کی تقرری بھی کی اور بیجنگ میں طالبان کے سفیر کی تعیناتی کی اجازت بھی دے دی۔سفارتی تنہائی جھیل رہی طالبان حکومت کو چین پوری اخلاقی، سفارتی اور اقتصادی حمایت اور تعاون فراہم کررہا ہے کیونکہ افغانستان اس خطے میں مرکزی اہمیت کا حامل ہے جو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ کے لئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے : شیخ حسینہ اور بنگلہ دیش کا مستقبل؟
یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ ہندوستان اور طالبان ایسے وقت میں قریب آرہے ہیں جب پاکستان اور طالبان کے درمیان فاصلے ناقابل یقین حد تک بڑھ چکے ہیں ۔ پاکستان اور طالبان کی بڑھتی ناچاقی بھی یقیناً ہندوستان اور طالبان کے تعلقات کی تبدیلی کی محرک بنی ہے۔ جس پاکستان نے ساڑھے تین سال قبل کابل میں طالبان کی واپسی پر جشن منایا تھا آج وہ اسی طالبان کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف ہے۔پچھلے سال پاکستان کو دہشت گردی کا بے پناہ عذاب جھیلنا پڑااور زیادہ تر وارداتوں میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا ہاتھ تھا۔ شہباز شریف حکومت کا الزام ہے کہ طالبان حکومت اس کالعدم تنظیم کی سرپرستی کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ ٹی ٹی پی افغانستان میں موجود’’ سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم‘‘ ہے جو سرحد کے اس پار پاکستان میں حملے کرتی ہے اور اسے طالبان حکومت کی سرپرستی اور حمایت حاصل ہے۔پچھلے ماہ ایک حملے میں ٹی ٹی پی نے ۱۶؍ پاکستانی فوجی اہلکاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ جوابی کاروائی کرتے ہوئے پاکستانی جنگی طیاروں نے افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کی پناہ گاہوں پر بمباری کرکے درجنوں لوگوں کو ہلاک کردیا۔
تقریباً ۲۵؍برسوں تک طالبان کے ساتھ ہندوستان کے رشتے معاندانہ اور مخاصمانہ رہے۔ سیکولرجمہوری ہندوستان ظاہر ہے طالبان کی اسلامی شدت پسند ی کا نظریاتی طور پر مخالف تھا۔ لیکن دونوں کی دشمنی کی ایک اہم وجہ طالبان کی پاکستان کے ساتھ قربت بھی تھی۔ کل تک ہندوستان طالبان کو دہشت گرد اور انتہا پسند سمجھتاتھا آج پاکستان کا یہ الزام ہے کہ طالبان ان دہشت گردوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کررہے ہیں جو پاکستان میں قتل و غارتگری میں مصروف ہیں ۔