کیا ہم ایسے دورمیں آگئے ہیں جب لفظ اپنا معنی اور وزن کھو رہے ہیں اور جو بھی کہا سنا جارہا ہے وہ کسی پر اثر نہیں کررہا ہے۔ یہ مضمون اسی کیفیت کو واضح کرتا ہے۔
EPAPER
Updated: March 24, 2025, 1:56 PM IST | sawar-u-huda | Mumbai
کیا ہم ایسے دورمیں آگئے ہیں جب لفظ اپنا معنی اور وزن کھو رہے ہیں اور جو بھی کہا سنا جارہا ہے وہ کسی پر اثر نہیں کررہا ہے۔ یہ مضمون اسی کیفیت کو واضح کرتا ہے۔
وحید اختر نے ’’شب و روز تماشہ‘‘کے عنوان سے جو نظم لکھی تھی وہ زندگی کے فریب کو کچھ اس طرح سامنے لاتی ہے کہ جیسے زندگی کا فریب سے بچنا ممکن نہیں ۔ دانشورانہ زندگی انکار کی دولت سے محروم ہو کر یکرنگی کی شکار ہو جائے تو اسے دانشورانہ زندگی نہیں کہتے۔ کبھی دانشور بننا کتنا دشوار تھا۔ وقت نے دانشور کی راہ کتنی آسان کر دی ہے۔ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر صرف باتیں کرنا اور ایسی باتیں کرنا جن میں فکر و احساس کا کوئی عنصر نہ ہو ،دانشوری کی توہین ہی تو ہے۔علم و آگہی داخلی سطح پر ایک آگ ہے جسے کسی نمائش کی ضرورت نہیں ۔ وہ بغیر کسی نمائش کے ظاہر ہو جاتی ہے۔ یہ ظاہر ہونا نمائش کی کوئی اور صورت ہے جو اب کم کم ہماری دانشورانہ زندگی میں باقی رہ گئی ہے۔ ایک بے کیف اور روح سے خالی زبان لکھی اور بولی جا رہی ہے۔ لکھنے اور بولنے والا وقت کے ساتھ ہے۔ علمی اور تہذیبی دنیا اسی بے کیف اور بےرس زبان کی گرفت میں ہے۔ لفظ کو بھوگنا لفظ کے ساتھ بامعنی رشتہ قائم کرنا اب مسئلہ نہیں رہا۔ ایک طے شدہ زبان ہے جسے نہ اپنی ذات سے کوئی خطرہ ہے اور نہ زمانے سے۔ زبان کتنی آسودہ ہو گئی ہے۔یہ آسودگی زبان کا مقدر تو نہیں ۔ زبان شرمندہ ہے کہ اسے وقت کے ہاتھوں فروخت کر دیا گیا ہے۔
یہی دیکھئے کہ لفظ کا چہرہ کتنا اداس ہے اور لفظ کو استعمال کرنے والے کا چہرہ کس قدر تابناک۔علمی اور تہذیبی زندگی یکرنگی اور فرسودگی کی گرفت میں دھیرے دھیرے آتی ہے۔ایک وقت آتا ہے جب زبان اپنے لہو لہان چہرے اور وجود کے ساتھ بغاوت پر آمادہ ہو جاتی ہے۔ کبھی کچھ حساس اور ذہین لوگ اسے پہچان لیتے ہیں اور زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جنہیں صرف اپنے چہرے کا خیال رہتا ہے۔ چہرے کی خراشیں چھپانے کیلئے کتنے جتن کیے جاتے ہیں اور خراشیں ہیں کہ وقت کے ساتھ ابھرتی جاتی ہیں ۔ لفظ اور لہو لہان لفظ سے ہمارے رشتے کی نوعیت بھی بے حسی کی زد میں ہے۔ایک موسم ہے جو بدلتا نہیں اور ہمارا معاشرہ طرح طرح سے اس موسم کی تبدیلی کی افواہ میں مصروف ہے۔لہو لہان زندگی لہو لہان لفظوں کے ساتھ ہر صبح سامنے آ جاتی ہے۔ایک وہ لفظ ہے جو یک رنگی اور رسمیات کی زد میں ہے۔اور ایک وہ زبان ہے جو لہو لہان زندگی کی خبر دیتی ہے۔ایک ہی وقت میں زبان کن دشواریوں سے دوچار ہوتی ہے۔لیکن دانشور اپنی آسودہ اور سہمی ہوئی دانشوری کے ساتھ ڈرائنگ روم میں بیٹھا ہے۔ لفظ اس کی نظر میں اس کی ملکیت ہے وہ جس طرح چاہے اسے استعمال کرے۔ میزوں اور کرسیوں کے درمیان زندگی جب خوف کی علامت بن جائے اور اسے زندگی کی حرارت کا احساس نہ رہے تو پھر میز اور کرسیاں علمی و تہذیبی زوال کی علامت بن جاتی ہیں ۔ ’’سوچ لینے ہی سے حالات کی زنجیر کہاں کٹتی ہے‘‘اب تو سوچ لینا بھی یا سوچنا بھی دشوار ہو گیا ہے۔ حالات کی زنجیر کٹے تو کیسے کٹے۔ ایک زنجیر ہے جو فطری طور پر زندگی کے ساتھ ہے مگر نہ جانے کتنی زنجیروں کو ہم نے اپنے لئے بنوایا ہے۔ زنجیر ایک طرح کی نہیں ہوتی۔ ہر شخص زنجیر کی آواز کو نغمہ قرار دیتا ہے اور اسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ تہذیبی زندگی میں کوئی تاریخی کردار ادا کر رہا ہے۔ میز اور گھومتی ہوئی کرسی جب علمی اور تہذیبی زندگی کی پہچان بن جائے تو ایسے میں وحید اختر کی نظم کو بطور خاص دیکھ لینا چاہیے۔
تحریراور تقریر کی طرف سے بڑھتی ہوئی بیزاری، لفظ کا احساس سے بڑھتا ہوا فاصلہ ہے۔ لفظ کو وقت دینے اور لفظ کے ساتھ وقت گزارنے کا وقت بھی کسی کے پاس کتنا ہے۔ زندگی کے تماشوں کے ساتھ کبھی کوئی لفظ ٹھہر جاتا ہے اور روح میں اترتا جاتا ہے۔ پچھلے دنوں ایک کتاب نگاہ سے گزری جس میں نئی اور موجودہ زندگی کو ان الفاظ کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے جو زندگی میں داخل ہو گئے ہیں ۔یہ انگریزی الفاظ خاموشی کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ ہمارا مقدر وقت کے ساتھ ہو جانا ہے۔ اسی میں ہماری زندگی کی بقا کا راز پوشیدہ ہے۔ظاہر ہے کہ چند ہی ایسے الفاظ ہیں جو ہمارے تہذیبی معاشرہ کا حصہ ہیں ۔لفظوں کا بھی کوئی عبوری دور ہوتا ہے اور انہیں تہذیب کی خوشبو یا طرز احساس بننے میں تھوڑا وقت لگتا ہے۔ مشینی آلات کو پہلے کی طرح احساس کیلئے دشمن بتانا تو بالکل سامنے کی بات ہے۔لیکن مشینی آلات تہذیبی زندگی کی ضرورت بن گئے ہیں اور انہی کے ساتھ احساس کی دنیا بھی باقی رہ سکتی ہے پھر بھی لفظوں کے ساتھ زندگی بسر کرنا نہ تو صرف لغت دیکھنا ہے اور نہ زبان دانی کا بے جا غرور۔کسی لفظ کا اصل تلفظ کسی نووارد کی زبان سے جس تازگی کا احساس دلاتا ہے اس میں کتنا حسن ہے! دھیرے دھیرے اصل تلفظ کے ساتھ توانائی کا احساس دلاتا ہے۔لیکن بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ لفظ کی ادائیگی، درد مندی اور شائستگی کا تاثر پیش کرے۔ رٹی ہوئی اور اپنی معنویت کو کھوتی ہوئی زبان اس وقت خطرناک ہو جاتی ہے جب اسے کسی ذہین اور حساس شخص سے کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔فکر و احساس سے خالی زبان بہت جلد اپنا حلقہ وسیع کر لیتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے : مغرب بمقابلہ مشرق، ترقی یافتہ بمقابلہ ترقی پزیر ممالک
یہ وسعت بہت ڈراتی ہے۔مگر یہ خود بھی ایک خوف سے گزر رہی ہوتی ہے۔ حرف کا لفظ اور لفظ کا زبان بن جانا، سماجی اور تاریخی سطح پر کتنا صبر آزما عمل ہے۔ اس عمل میں انسانی زندگی کی دھڑکنیں بھی شامل ہیں ۔ حرف، لفظ اور زبان کو اپنے وجود میں اتارنے کا مطلب انسانی اور تہذیبی تاریخ کے طویل سلسلے اور سفر کو تاریخی عمل کے ساتھ دیکھنا اور محسوس کرنا ہے۔ایک زندگی میں ایک شخص کتنے الفاظ استعمال کر سکتا ہے۔سوال یہ ہے کہ الفاظ سے ہمارا رشتہ کیا اور کیسا ہے۔ صبح سے شام تک چند الفاظ مختلف حوالوں کے ساتھ جو سنائی دیتے ہیں ، وہی اصل میں موجودہ زندگی کی کہانی بیان کرتے ہیں ۔ انہیں بولنا اور سننا مجبوری بھی ہے اور طے شدہ نظام کی ضرورت بھی۔ یہ الفاظ میزوں اور کرسیوں سے وابستہ شخصیات کا بہت خیال رکھتے ہیں اور پھر انہی سے وفاداری کی تعریف بھی متعین ہوتی ہے۔ اگر کسی موقع پر کسی لفظ کے ساتھ کوئی دوسرا لفظ تحریر و تقریر میں درآئے تو سمجھا جاتا ہے کہ وفاداری بشرط استواری میں کوئی کمی واقع رہ گئی ہے۔ وحید اختر کی نظم میں یہ مصرع بھی آتا ہے: ’’سینکڑوں بار کی اگلی ہوئی دہرائی ہوئی باتوں میں ‘‘یہی وہ زبان اور زندگی کا اسلوب ہے جو کرسیوں اور میزوں کی تہذیب سے ہم آہنگ ہے۔یہ اگلی ہوئی اور دہرائی ہوئی بات موسم کی تبدیلی کے ساتھ اپنی تاریخ کو دہراتی ہے۔کرسیوں اور میزوں سے بے معنی ملاقات کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہے کہ زندگی کی چھوٹی بڑی خواہشیں انسان کو ایسے مقام پر لے آتی ہیں ،جہاں سے رسوائی اپنے سفر کا آغاز کرتی ہے۔