امریکہ، چین سے کیوں خار کھائے ہوئے ہے؟ اس کی خود ساختہ وجوہات ہیں ورنہ امریکہ آج بھی اُتنا ہی خوش حال ہے جتنا کہ پہلے تھا۔ یہ اب بھی بڑی معیشت ہے۔
EPAPER
Updated: March 23, 2025, 2:01 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
امریکہ، چین سے کیوں خار کھائے ہوئے ہے؟ اس کی خود ساختہ وجوہات ہیں ورنہ امریکہ آج بھی اُتنا ہی خوش حال ہے جتنا کہ پہلے تھا۔ یہ اب بھی بڑی معیشت ہے۔
بیسویں صدی کی ابتداء ہی سے عالمی معیشت میں امریکہ اور یورپ کی مجموعی حصہ داری ۵۰؍ فیصد سے زیادہ رہی اور یہ سلسلہ ۲۰۰۹ء تک جاری رہا اس کے بعد کے سال سے اس میں تخفیف ہونے لگی۔ پچھلے سال یہ حصہ داری ۴۳؍ فیصد تھی اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں مزید تخفیف ہوگی۔ یورپ معاشی طور پر انجماد کا شکار ہے جیسے اس کی معیشت بھول چکی ہو کہ نمو کیا ہے۔ یورپ کی مشترکہ جی ڈی پی گزشتہ سال ایک فیصد سے بھی کم بڑھی۔
اس سے پہلے کے سال میں بھی یہی کیفیت تھی۔اس سال کیلئے اُمید کی جاسکتی ہے کہ اس میں ایک فیصد کا اضافہ ہوگا مگر یہ امکان کم ہے کہ اس کی (یورپ کی) مشترکہ معیشت بڑھتی رہے گی اور یہ عمل طویل عرصہ تک جاری رہ سکے گا۔ ۲۰۲۳ء میں برطانیہ کی معیشت میں ایک فیصد سے کم کی نمو دیکھی گئی، ۲۰۲۴ء میں بھی یہی حال رہا جبکہ رواں سال میں ایک فیصد کے اضافہ کی اُمید کی جاسکتی ہے۔ یہ یورپ کا حال ہے۔ اب آئیے امریکہ کی طرف:
امریکہ کی معیشت گزشتہ سال ۲؍ فیصد سے بڑھی لیکن اس سال اسے مشکلات کا سامنا ہے اور اس کی معیشت سکڑ رہی ہے۔ امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین، کناڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ، ان تمام ملکوں کی مجموعی آبادی عالمی معیشت کا ۱۰؍ فیصد ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ دُنیاکی بقیہ ۹۰؍ فیصد آبادی کی مجموعی معیشت نسبتاً چھوٹی ہے۔ مذکورہ ملکوں کو ہم ’’مغربی دُنیا‘‘ کہتے ہیں ۔ ۲۰۰۹ء تک ان ملکوں کی معیشت کا حجم زیادہ تھا ۔ اس کے بعد سے حالات میں تیزی سے تبدیلی آنی شروع ہوئی۔
مذکورہ ملکوں کے علاوہ جو بقیہ ۹۰؍ فیصد کی آبادی ہے اُس میں تبدیلی کے محرک کے طور پر جس ملک کا نام لیا جاتا ہے وہ بلاشبہ چین ہے۔ عالمی جی ڈی پی میں اس کا حصہ ۱۹۹۰ء میں ایک فیصد تھا جو ۲۰۰۰ء میں ۳؍ فیصد ہوا لیکن ۲۰۱۰ میں ۹؍ فیصد تک پہنچ گیا۔ اب ۱۷؍ فیصد ہے۔ اپنے ملک ہندوستان کی بات کریں تو ۱۹۹۰ء میں عالمی جی ڈی پی میں اس کی حصہ داری اُتنی ہی تھی جتنی اُس وقت چین کی تھی مگر فی الحال ۳ء۶؍ فیصد ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل واضح کردوں کہ عالمی جی ڈی پی اس وقت ۱۰۸؍ کھرب ڈالر ہے۔
بلاشبہ، ہندوستان نے معاشی میدان میں خاصی ترقی کی ہے مگر گزشتہ تین دہائیوں کے دوران عالمی معاشی نمو کا پہیہ چین کی معیشت ثابت ہوئی جو ہمارا پڑوسی ملک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین کی ترقی کے سبب ’’مغربی دُنیا‘‘ تشویش میں مبتلا ہوگئی ہے جو خود کھسکتی جارہی ہے جبکہ چین بڑھتا جارہا ہے۔اسی کا نتیجہ یہ دیکھنے کو ملا کہ مغرب کے ذرائع ابلاغ چین کے انفراسٹرکچر پروجیکٹوں کو، جو افریقہ، لاطینی امریکہ اور جنوب مشرقی ایشیاء میں جاری ہیں ، تسلسل کے ساتھ تنقید کا ہدف بناتے ہیں ۔ اتنا ہی نہیں ، ایسی سالانہ رپورٹیں بھی منظر عام پر آتی رہتی ہیں جن میں کہا جاتا ہے کہ چین کی معاشی کامیابی کا سفر جلد ہی اختتام تک پہنچنے والا ہے۔
چین کے خلاف پائی جانے والی بے چینی کو یورپی سیاست اور امریکہ میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ غیر معمولی مقبولیت کیوں حاصل کرگئے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اسی بے چینی کو پیش نظر رکھا اور دو اہم مسائل کو نشان زد کیا۔ پہلا ہے امریکہ میں غیر سفید فام ملکوں کے تارکین وطن کی بڑھتی آبادی اور دوسرا ہے ایسے ملکوں کی سرگرمیوں کو محدود کرنا جو اپنی مصنوعات امریکہ کو برآمد کرتے ہیں اور اس بنیاد پر اپنی معیشت کو فروغ دے رہے ہیں ۔امریکی شہریوں کی فی کس جی ڈی پی میکسیکو سے ۶؍ گنا زیادہ ہے اور کنیڈا کے شہریوں سے ۳۰؍ ہزار ڈالر زیادہ ہےاس کے باوجود امریکہ میں معاشی اُمور کی بنیاد پر بے چینی پائی جاتی ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطابق، اس سال امریکیوں کی فی کس جی ڈی پی ۹۰؍ ہزار ڈالر سے کچھ ہی کم ہوگی۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو ہندوستان کی فی کس جی ڈی پی ۳؍ ہزار ڈالر سے بھی کم ہے۔ ایسا نہیں کہ امریکہ معاشی اعتبار سے یا فی کس جی ڈی پی کے اعتبار سے یا دیگر متعلقہ اُمور ہی میں آگے نہیں ہے بلکہ وہاں ملازمتوں کی شرح بھی اچھی ہے، وہ بھی اس حد تک کہ کوئی امریکی شہری روزگار حاصل کرنا چاہے تو اُسے آسانی سے روزگار مل جاتا ہے۔ آج کی دُنیا میں دیکھا جائے تو سب سے زیادہ خوشحال اور کامیاب ملک امریکہ ہی ہے اس کے باوجود اس ملک کے لوگ دیگر ملکوں کی ترقی سے نالاں ، بے چین اور ناراض ہیں ۔ان کی ناراضگی کا سب سے بڑا ہدف چین ہے۔ ٹرمپ چین میں پائے جانے والے روزگار کے مواقع اپنے ملک میں لانا چاہتے ہیں بالخصوص وہ مواقع جو مینوفیکچرنگ سیکٹر میں ہیں ۔ ۱۹۹۰ء میں امریکہ میں مینوفیکچرنگ کا شعبہ اس کی معیشت کا ۱۶؍ فیصد تھا مگر آج صرف ۱۰؍ فیصد ہے۔اس شعبے کی مجموعی پیداوار ۱۹۹۰ء میں ایک کھرب ڈالر کے برابر تھی جو اَب ۳؍ کھرب کے برابر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شعبے نے ترقی تو کی مگر اس کی رفتار مدھم رہی۔ اس شعبے میں روزگار کے مواقع ۱۸؍ ملین تھے جو ۱۲؍ ملین رہ گئے۔
یہ بھی پڑھئے : ......’’اَور درویش کی صدا کیا ہے
امریکی مینوفیکچرنگ میں روزگار کے مواقع کم ہونے کا ایک سبب خود کار مشینوں کا عمل دخل ہے جسے آٹومیشن کہا جاتا ہے مگر امریکہ کا یہ ہدف کہ مینوفیکچرنگ کا جو کام چین میں ہورہا ہے وہ امریکہ میں ہونے لگے، کسی بڑی کامیابی کا نسخہ نہیں ہے کیونکہ اس کی وجہ سے صنعتی پیداوار کم ہوگی اور کام کرنے والوں کو زیادہ پیداواریت کے شعبوں سے ہٹ کر کم پیداواریت کے شعبے کی طرف جانا پڑے گا۔ اس کے باوجود ٹرمپ یہی کرنے کے درپے ہیں ۔
امریکہ تجارتی مقابلے کا سبب بننے والی مصنوعات کو روکنا چاہتا ہے۔ اب چین میں بنی برقی کار پر ۱۰۰؍ فیصد ٹیکس ہے۔ اس کی وجہ سے امریکہ میں چینی کار کی قیمت دوگنا ہوجائے گی۔ اس کے باوجود امریکی شہری چینی کار خریدیں گے تو اُن پر دوسری ضرب چینی کار کے سافٹ ویئر کی پڑے گی جس پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔کاروں سے متعلق تمام سافٹ ویئرس کو امریکی سلامتی کے نام پر ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ امریکہ کی حکمت عملی یہ ہے کہ اس کے شہری امریکہ میں بننے والی کاریں ہی خریدیں اور چینی کاریں خریدنے کے رجحان سے توبہ کرلیں ۔ مگر کیا اس کا کوئی بہت بڑا فائدہ ہوگا؟ اس کا امکان کم ہے۔ وقت ہی فیصلہ کریگا کہ فائدہ ہوا بھی یا نہیں ۔