ماحولیاتی آلودگی موجودہ دُنیا کا سنگین مسئلہ ہے مگر اس پر رسمی ہی سہی کچھ باتیں تو ہوبھی جاتی ہیں۔ کوئی بات نہیں ہوتی تو ماحول کی کثافت پر نہیں ہوتی جس میں جھوٹ، بے ایمانی، دغا بازی وغیرہ شامل ہے۔ اسکولی نصاب میں بھی اس پر اصرار نہیں ہے۔
EPAPER
Updated: February 22, 2025, 3:00 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
ماحولیاتی آلودگی موجودہ دُنیا کا سنگین مسئلہ ہے مگر اس پر رسمی ہی سہی کچھ باتیں تو ہوبھی جاتی ہیں۔ کوئی بات نہیں ہوتی تو ماحول کی کثافت پر نہیں ہوتی جس میں جھوٹ، بے ایمانی، دغا بازی وغیرہ شامل ہے۔ اسکولی نصاب میں بھی اس پر اصرار نہیں ہے۔
عالمی خبروں کی سرخیوں پر نگاہ دوڑائیے تو بہت جلی حرفوں میں کئی نام ’’باصرہ نواز‘‘ ہونگے۔ ٹرمپ، پوتن، زیلنسکی، میکرون، نیتن یاہو، ایلون مسک، جیف بیزوز اور دیگر۔ یہ سب اپنے آپ میں بڑی طاقت ہیں ۔ ان سب کو ایک حجرہ میں یکجا کردیا جائے تو متعلقہ حجرہ عالمی طاقت کا سب سے بڑا مرکز کہلائےگا۔ یہ حضرات چاہیں تو سماجی انقلاب برپا کرسکتے ہیں ، جھوٹ پر قدغن لگا سکتے ہیں ، دھوکہ دہی کی راہیں مسدود کرسکتے ہیں ، بے ایمانی کا قلع قمع کرسکتے ہیں ، دولت کی غیر مساوی تقسیم کو منصفانہ تقسیم سے بدل سکتے ہیں ، دُنیا کو منشیات سے پاک کرسکتے ہیں اور ماحولیاتی مسائل سے بغیر اسلحہ جنگ کرسکتے ہیں مگر یہ نہیں کرینگے، ہرگز نہیں کرینگے کیونکہ ایسی غلطیوں کا ارتکاب ان کے منشور کا حصہ نہیں ہے۔ ان کے منشور میں وہی سرگرمی جگہ پاتی ہے جس سے معاشی مفادات تکمیل پاتے ہیں اور بالادستی نیز اِجارہ داری قائم ہوتی ہے۔ یہ مفادات ہی کے تحت یکجا ہوتے ہیں اور اسی عنوان پر محاذ آرائی کرتے ہیں خواہ مختلف ملکوں پر جنگیں مسلط کریں یا آپس میں سرد جنگ کا اعلان کرکے ایک دوسرے سے خفا خفا دکھائی دیں ۔ ٹرمپ جب سے آئے ہیں زبردست اُٹھا پٹخ جاری ہے۔ وہ خود غرضی اور مفاد پرستی میں سب کو پیچھے چھوڑ دینے کیلے کمربستہ ہیں ۔ اب سے پہلے کی میعاد میں اُن کے جھوٹ گنے جاتے تھے، اب اُن کی طاقت بڑھ گئی ہے تو جھوٹ گننے والے کم ہوگئے ہیں ۔ موجودہ دور میں جس طرح دیگر بُرائیوں کو بُرا سمجھنے کا رجحان ختم ہوگیا ہے اسی طرح جھوٹ کی شناعت بھی ختم ہوگئی ہے۔ کچھ لوگ تو اتفاقاً سچ بول لیتے ہیں ورنہ جھوٹ ہی اُن کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ یہ اور ایسی ہزار قباحتوں اور کثافتوں کا تصور کیجئے تو محسوس ہوتا ہے کہ دُنیا میں جتنی ماحولیاتی آلودگی ہے، کم و بیش اُتنی ہی سماجی کثافت بھی ہے بلکہ اُس سے زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ہمارے وزیراعظم کا دورۂ فرانس و امریکہ
تو کیا سچ قصہ پارینہ ہوجائے گا؟ کیا ایمانداری مفقود ہوجائے گی؟ کیا صلہ رحمی، ہمدردی، وفاداری اور دیگر اوصاف ِلطیف کتابوں میں رہ جائینگے؟ اس ضمن میں جتنے بھی سوالات قائم کئے جاسکتے ہیں اُنہی سے اُن کا جواب نکلتا ہے۔ اب یہی دیکھئے کہ کوئی دروغ گو خود کو دروغ گو کہلانا پسند نہیں کرتا۔ وہ خود کو سچا ہی کہتا ہے۔ یعنی وہ سچ کی اہمیت، تقدم اور فوقیت کا اعلان کرتا ہے۔ ایسا ہی بے ایمان کا حال ہے۔ وہ خود کو ایماندار ہی باور کراتا ہے یعنی ایمانداری کی اہمیت، تقدم اور فوقیت کی گواہی دیتا ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ جھوٹ چاہے جتنا بڑھ جائے اور بڑے سے بڑا آدمی جھوٹ بولنے لگے، تب بھی سچ کی اہمیت ختم نہیں ہوگی، ایمانداری کی حیثیت زائل نہیں ہوگی اور جتنی بُرائیاں اس دُنیا میں ہیں اُن پر اچھائیوں کی بالادستی آفاقی صداقت کے طور پر موجود رہے گی اور اس کا سورج تاقیامت غروب نہیں ہوگا۔
معلوم ہوا کہ سچ، ایمانداری، صلہ رحمی، وفاداری وغیرہ کا دعویٰ برقرار ہے اور رہے گا لہٰذا ممکن ہے کہ ایک بار پھر ان خواص کا پوری دُنیا پر تسلط ہو مگر جب تک یہ نہیں ہوتا،مورخ اور اُس سے بھی بڑھ کر منصف ِ دوراں یہ دیکھنا چاہے گا کہ جب جھوٹ عروج پر تھا تب سچ کا علمبردار کون تھا اوراُس میں سچ کے غلبے کی کتنی تڑپ تھی، جب بے وفائی عام تھی تب وفاداری کا حامی کون تھا اور اُس میں وفاداری کی حمایت کا کتنا جذبہ تھا یا جب بے ایمانی کا دور دورہ تھا تب ایمانداری پر یقین رکھنے والا کون تھا اور ایمانداری کو عام کرنے پر اس کی کتنی توجہ تھی۔ ہر شخص اپنا محاسبہ کرے تو نتیجہ اخذ کرسکتا ہے کہ وہ خود کو کہاں پاتا ہے مگر وہی شخص خارجی دُنیا کا جائزہ لے اور اندازہ لگائے کہ مذکورہ اوصاف ِ لطیف کو مستحکم کرنے کی کوشش کہاں ہورہی ہے تو اُسے سخت حیرت اور مایوسی ہوگی۔ گھروں میں تربیت کا نظم تو ختم ہوچکا یا قریب الختم ہے مگر اسکولوں میں بھی، جہاں کی خاک سے انساں بنائے جاتے تھے، اب نصاب ہے اور نصاب ہی مرکز توجہ ہے، سچ، ایمانداری، وفاداری، حسن عمل وغیرہ کو وہ مرکزیت حاصل نہیں ہے جو ہوا کرتی تھی۔ اب سے پہلے کی نسلوں کے طالب علم اسماعیل میرٹھی جیسے محترم شعراء کی نظمیں پڑھ کر اپنے اندر بہت کچھ راسخ کرلیا کرتے تھے چنانچہ نظم کےپہلےہی مصرعے ’’رب کا شکر ادا کر بھائی‘‘ کے محض چھ الفاظ سے ننھے طالب علموں کو جذبۂ شکر سے روشناس کرا دیا جاتا تھا یا الطاف حسین حالی کی نظم ’’مٹی کا دیا‘‘ کے ذریعہ انسانی خدمت کا شعور بیدار کردیا جاتا تھا۔ نظمیں ہی نہیں چھوٹی چھوٹی کہانیاں اور قصے بھی ذہنوں انمٹ نقوش قائم کیا کرتے تھے۔ اُردو ہی نہیں ، غیر اُردو ذریعہ ہائے تعلیم میں بھی بہت کچھ تھا جو کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتا تھا۔ اُس دور کے طالب علموں کو جولیا کارنی کی نظم ’’لٹل تھنگس‘‘ آج بھی یاد ہے جو مثبت تبدیلیوں کا محرک بنی۔
آج کل کے نصاب سے میری واقفیت کم ہے اس لئے رائے زنی مناسب نہیں مگر اس نصاب میں جو کچھ بھی ہے اُسے پڑھ کر سامنے آنے والی نسل کے افراد کی شخصیت میں عمر کے اعتبار سے جتنی گہرائی پیدا ہوجانی چاہئے اُس کا احساس نہیں ہوتا۔ ایسا لگتا ہے کہ دورحاضر کی نئی نسل گھر کے ماحول، اپنے اساتذہ اور نصابی کتب سے کم اور خارجی ماحول سے زیادہ سیکھ رہی ہےبلکہ اُن سے کہا جارہا ہے کہ جاؤ، باہر (انٹرنیٹ) سے سیکھو۔ اُردو معاشرہ میں سن پچاس تا اسی ّکی دہائی میں نوعمروں کو ناول یا ڈائجسٹ پڑھنے کی ممانعت تھی۔ کہا جاتا تھا کہ اس سے اخلاق بگڑ سکتے ہیں ۔ آج انٹرنیٹ پر جو کچھ ’’دستیاب‘‘ ہے اُس کے آگے تو اُن ناولوں اور ڈائجسٹوں کی کوئی اوقات ہی نہیں ہے۔ بونے اور کوتاہ قد ہیں وہ! جبکہ اُن سے جو کم از کم فائدہ ہوتا تھا وہ زباندانی کا تھا،ذخیرۂ الفاظ کا تھا، جملوں کی بندش کا تھا، واحد جمع اور تذکیر و تانیث کا تھا۔ ناولوں اور ڈائجسٹوں کے مطالعہ سے تخیل اور تصور کو طاقت ملتی تھی اور اُس وقت کے بزرگ بھلے ہی مانتے نہیں تھے مگر صالح فکر بھی پروان چڑھتی تھی۔ اُس دور میں نسل نو کی تربیت گھر میں بھی ہوتی تھی، اسکول میں بھی اور کتابوں سے بھی۔ ابن صفی کے ناول پڑھنے والوں کی گفتگو چغلی کھاتی تھی کہ یہ ابن صفی کے قاری ہیں ۔ جاسوسی ہونے کے باوجود یہ ناول تربیت کا ذریعہ تھے۔ اب تربیت کا خانہ خالی ہی رہتا ہے اور جو چیز اسے پُر کرتی ہے وہ غیر صالح خارجی مواد ہے۔ کیا یہ صورتِ حال گھر کے بڑوں کی فعال اور دانشمندانہ سرپرستی کا تقاضا نہیں کرتی؟