وزیراعظم کو ڈونالڈ ٹرمپ کا گلے لگانا بہت مبارک و مسعود ہے مگر بھارتیوں کو بیڑی اور ہتھ کڑی پہنا کر بھیجنا کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے؟ یہ تو ملک اور ملک کے باشندوں کی توہین ہے۔
EPAPER
Updated: February 21, 2025, 1:53 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai
وزیراعظم کو ڈونالڈ ٹرمپ کا گلے لگانا بہت مبارک و مسعود ہے مگر بھارتیوں کو بیڑی اور ہتھ کڑی پہنا کر بھیجنا کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے؟ یہ تو ملک اور ملک کے باشندوں کی توہین ہے۔
اپنی کم علمی کا اعتراف بری بات نہیں اسلئے جب اخبار میں خبر پڑھی کہ وزیراعظم نریندر مودی نے فرانسیسی افواج سے کہا ہے کہ وہ پناکا ایم بی ایل آر (ملٹی بیرل راکٹ لانچر) کو قریب سے دیکھیں تو یہ حیرت ہوئی کہ یہ کیا ہے جس کو دیکھنے کی دعوت وزیراعظم نے فرانسیسی افواج کو دی ہے؟ معلوم کیا تو یہ جان کر فخر سے سر اونچا ہوگیا کہ:
lیہ سودیشی راکٹ لانچر ہے یعنی ایسا راکٹ لانچر ہے جو ہندوستان میں ہی تیار کیا گیا ہے۔
lاس کے ہر راکٹ لانچر میں ۱۲؍ راکٹ ہوتے ہیں ۔
lاس کا کیلیبر ۲۱۴؍ ایم ایم ہے جو ۴۰؍ کلومیٹر تک مار کرسکتا ہے۔
lپناکا کی ایک بیٹری میں ۶؍ وھیکل یعنی ۷۲؍ راکٹ ہوتے ہیں ۔
lاس کا رینج بڑھا کر ۷۵؍ کلومیٹر کیا جا چکا ہے اور تجربہ بھی کیا گیا ہے۔
lمنصوبہ ہے کہ اس کا رینج ۳۰۰؍ کلومیٹر تک کیا جائے گا۔
یہ بھی اچھی خبر ہے کہ دفاع، توانائی اور شہری ہوا بازی سمیت کئی شعبوں میں باہمی تعاون کی فرانس کو وزیراعظم نے دعوت دی ہے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں ۲۶ء- ۲۰۲۵ء کے بجٹ میں پیش کی گئی اصلاحات کا بھی ذکر کیا جن میں چھوٹے نیوکلیئر ری ایکٹر ٹیکنالوجی کے منصوبوں میں نجی پارٹنر شپ (شراکت داری) اور انشورنس (بیمہ) میں ۱۰۰؍ فیصد غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کی اجازت دی گئی ہے۔ فرانس کے صدر ایمانوئل سے ہمارے وزیراعظم نریندر مودی کی گفتگو کی جو دوسری تفصیلات شائع ہوئی ہیں ان کو پڑھ کر بھی سر فخر سے اونچا ہوجاتا ہے اور یہ کہنا بجا معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم نے ہند- فرانس تعلقات کو نئی بلندیوں سے ہمکنار کیا ہے۔ دونوں سربراہوں کے درمیان دفاع، خلاء، صحت اور غیر فوجی ایٹمی تعاون پر بھی گفتگو ہوئی۔ مشرق وسطیٰ، بحرہند اور یوکرین کے معاملات پر بھی اظہار خیال ہوا۔ سرحدوں پر ہوئے دہشت گردی سمیت ہر قسم کی دہشت گردی پر بھی گفتگو کی گئی۔ دونوں نے دہشت گردی کے لئے کی جانے والی فنڈنگ کو ختم کرنے کی بھی یقین دہانی کی۔ مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے سلسلے میں الگ سے بیان جاری کیا گیا۔ ۲۰۲۶ء کو انڈو فرانس ائیر آف انوویشن تسلیم کیا گیا ہے اس بات پر بھی اتفاق ہوا ہے کہ دونوں ملک ایسا فریم ورک تیار کریں گے جس سے جنریٹیو اے آئی تیار کیا جاسکے گا جو مساوات پر مبنی ہوگا اور جس میں کسی قسم کی تفریق نہیں کی جائے گی۔ یہ ایسا ماڈل ہوگا جو دنیا میں سب کے بھلے کے لئے ہی استعمال ہوگا۔ دونوں ملکوں میں چھوٹے ماڈیولر ری ایکٹر (ایس ایم آر) اور ایڈوانسڈ ماڈیولر ری ایکٹر (اے ایم آر) تیار کرنے میں باہمی تعاون کا بھی سمجھوتہ کیا گیا ہے یہ بھی طے ہوا ہے کہ ایٹمی توانائی کے شعبے میں تعلیم و تربیت کو بھی بڑھاوا دیا جائے گا۔ کچھ اور باتیں بھی ہوئیں جن کی تفصیل اخبارات میں آتی رہی ہیں ۔
ہمارے وزیراعظم کی جرأت اور مضبوط موقف پر سبھی کو فخر ہونا چاہئے مگر ایک مشکل بھی ہے وہ یہ کہ تاریخ بتاتی ہے کہ جب ہندوستان میں ٹیپو سلطان نے فرانسیسیوں سے گفتگو شروع کی تھی یا تعلقات بڑھائے تھے تو انگریزوں نے اس کو پسند نہیں کیا تھا۔ یہ تو ہمارے ہوش کی بات ہے کہ مصر کے جمال عبدالناصر اور ہمارے ملک کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے سوویت یونین سے قربت اختیار کی تھی تو ملک بھر میں ایسے واقعات رونما ہونے شروع ہوئے تھے جن کے تار مغرب سے جڑے ہونے کے شواہد سامنے آتے رہے ہیں ۔ تہور رانا تو اب بھی مغرب میں ہے اور اس کے ہندوستان بھیجے جانے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں ۔ مشرق وسطیٰ میں صدام حسین کو اور پھر شام کے بشارالاسد کو بھی مغرب مخالف لابی کا حصہ ہونے کی ہی قیمت چکانی پڑی تھی اس لئے وزیراعظم کے صدر ایمانوئل سے گفتگو کے سبب اندیشے پیدا ہوتے ہیں لیکن یہ اطمینان بھی ہے کہ ہندوستان یا بھارت اب پہلے جیسا نہیں ہے اور پھر بھارتی وزیراعظم صدر ڈونالڈ ٹرمپ یا امریکہ سے بھی بات کر رہے ہیں ۔ فرانس کا دورہ مکمل کرکے ہمارے وزیراعظم امریکہ گئے ہیں اور یہ سوال کئی ذہنوں میں دستک دے رہا ہے کہ کیا ہمارے وزیراعظم صدر ٹرمپ سے نیوکلیئر انرجی (توانائی) کے ایجنڈے پر بات کریں گے۔
یہ بھی پڑھئے : تعلیم میں مثبت تجربے یا سیاست؟
لیکن جو بات بالکل سمجھ میں نہیں آرہی ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستان کے جو لوگ امریکہ سے واپس بھیجے جا رہے ہیں انہیں ہتھ کڑی اور بیڑی پہنا کر کیوں بھیجا گیا ہے؟ یا انسانوں کو ان طیاروں میں کیوں بھیجا جا رہا ہے جو مال برداری کے لئے ہیں ۔ یہ بھی نہیں معلوم ہوسکا کہ وزیراعظم نے اس مسئلہ میں ڈونالڈ ٹرمپ سے کیا بات کی۔ جو لوگ امریکہ گئے ہوں گے وہ یقیناً اپنی گاڑھی کمائی کو خرچ کرکے حسین خواب لئے گئے ہوں گے یا پھر انہیں دھوکہ دے کر لے جایا گیا ہوگا۔ اگر ان لوگوں نے ضابطے کی تکمیل نہیں بھی کی تو قابل فہم ہیں ۔ امریکہ نے اگر انہیں واپس بھیجا تب بھی قابل فہم ہے مگر امریکہ سے یہ تو پوچھا ہی جاسکتا تھا کہ کیا اس نے ضابطے کی خلاف ورزی کرنے والے ہر ملک کے لوگوں کے ساتھ یہی کیا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ امریکہ ہمارے ملک کے ذمہ داروں کو کمزور سمجھ کر دھوکہ دے رہا ہے؟ وزیراعظم کو ڈونالڈ ٹرمپ کا گلے لگانا بہت مبارک و مسعود ہے مگر بھارتیوں کو بیڑی اور ہتھ کڑی پہنا کر بھیجنا کیسے برداشت کیا جاسکتا ہے؟ یہ تو ملک اور ملک کے باشندوں کی توہین ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ انگریزوں نے ابتدا میں یہ جھانسہ دے کر کہ تمہارے ساتھ انصاف نہیں ہورہا ہے یا ہم تمہیں راج گدی دیدیں گے یا تمہارے ساتھ انصاف نہ کرنے والوں کو کیفر کردار کو پہنچائیں گے کئی خاندانوں میں اختلافات پیدا کئے اور ان کو بھارت کے غلام بن جانے کے منظر کو دیکھنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔
ہوسکتا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے بھارتی وزیراعظم کو کرسی پیش کرکے یہ کوشش کی ہو کہ وہ مصائب میں گھرے بھارتیوں کے امریکہ سے بہت خراب حالت میں بھگائے جانے یا بیڑیوں اور ہتھ کڑیوں میں واپس کئے جانے کے مسئلہ پر گفتگو نہ کریں مگر ایک عام بھارتی یہ کیسے بھول سکتا ہے کہ یہ سب اس وقت بھی ہوا ہے جب ہمارے وزیراعظم امریکہ میں تھے۔