سماج میں تقسیم کی موجودہ کوششوں کو اُس بیانیہ کے ذریعہ ہی ناکام بنایا جا سکتا ہےجو ملک تحریک آزادی کی بنیاد بنا اور جو ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی روایتوں کا امین ہے ۔
EPAPER
Updated: December 02, 2024, 1:31 PM IST | ram puniyani | Mumbai
سماج میں تقسیم کی موجودہ کوششوں کو اُس بیانیہ کے ذریعہ ہی ناکام بنایا جا سکتا ہےجو ملک تحریک آزادی کی بنیاد بنا اور جو ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی روایتوں کا امین ہے ۔
بی جے پی ۔آر ایس ایس اور اس کے حامی اقلیتوں کی شبیہ خراب کرنے کا کوئی موقع نہیں گنواتے۔ ایسی نفرت انگیزیوں کے خلاف قانونی کارروائی کا نظم موجود ہے مگر زیادہ تر معاملات میں کسی کو سزا نہیں ملتی۔ فرقہ پرست جماعت کے برسر اقتدارآنے کے بعد سے ملک میں مذہبی اقلیتوں کے بارے میں شدید منفی تاثر پیدا ہو ا ہے۔ یہ وہاٹس ایپ گروپس اور ہمارے سماجی مزاج میں آنے والی تبدیلی سے ظاہر ہے۔ اقلیتوں سے نفرت سماج کے ایک بڑے طبقے میں اب معمول کی بات بن گئی ہے حالانکہ یہ اس فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ کے تصور کیلئے نقصاندہ ہےجو ملک کے آئین کے ۳؍ ستونوں میں سے ایک ہے۔
نفرت انگیزی اب صرف نفرت انگیزی تک محدود نہیں رہ گئے بلکہ اب لوگوں کو عملی اقدام پر اکسایا جارہاہے۔ ’’ ہم دو، ہمارے دو‘‘ اور ’’وہ پانچ،ان کے پچیس‘‘ کے نعرہ نیز مسلمانوں کے پناہ گزیں کیمپوں کو’’ بچے پیدا کرنے کی فیکٹری‘‘ قرار دینے کے بعد اب یہ تاثر عام کیا جا رہا ہے کہ مغل بادشاہ غیر ملکی تھے ،انہوں نے ہندوؤں پر ظلم ڈھایا ،وہ مندر توڑتے تھے اور انہوں نے اسلام کو جبراً پھیلایا۔ اس میں ’’انہیں کپڑوں سے پہنچانا جاسکتاہے‘‘کا اضافہ کیا جاچکا ہے۔
لوک سبھا الیکشن ۲۰۲۴ء میں مودی نے درجنوں نفرت انگیز تقاریرکیں ۔ ہیومن رائٹس واچ کے مطابق مودی نے مذکورہ انتخابی مہم میں ۱۱۰؍تقریریں ایسی کیں جو نفرت انگیز پر مبنی تھیں ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ اپوزیشن پر یہ الزام عائد کرتے ہوئے کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کی پیروی کرتی ہے ،مودی نے اسے بدنام کرنے اور ہندوؤں میں خوف پیدا کرنے کیلئے اسلام اور مسلمانوں کیلئے نفرت انگیز (اسلاموفوبک) تبصرے کئے۔‘‘ مسلمانوں کیلئے ’’ریزرویشن ‘‘ کو کانگریس کے ذریعہ اقلیتوں کی ’’منہ بھرائی ‘‘ قرار دیتے ہوئے مودی نے کہاکہ ’’ یہ ہندوستان کےاسلامائزیشن اور اسے تقسیم کی طرف دھکیلنے کی بدترین کوشش ہے۔ جب یو پی اے برسراقتدار آئی تھی تو اس وقت بھی ا س نے ایسے اقدامات کئے تھے۔ بی جے پی نے اس کے خلاف تحریک چلائی۔ وہ چاہے جسٹس ورما کمیٹی کی رپورٹ ہو یا سچر کمیٹی رپورٹ، یہ سب او بی سی، ایس سی اورایس ٹی کا ریزرویشن چھیننے کی کانگریس کی کوشش تھی۔‘‘ ( ٹائمز آف انڈیا)
ٍ جھارکھنڈ اور مہاراشٹر میں اسمبلی انتخابات میں اس رجحان میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔ جھارکھنڈ میں ہیمنت بسوا شرما نے مسلم دراندازی کےپروپیگنڈہ کو اپنا مرکزی موضوع بنایا۔ بی جے پی نے انتہائی توہین آمیز اشتہار جاری کیا جس میں دکھایا گیا کہ ایک بڑا مسلم خاندان ہندوخان کے گھر پر دھاوا بول کر قبضہ کرلیتاہے۔ الیکشن کمیشن سے شکایت کی گئی اور اس نے امید کے برخلاف اس کو ہٹانے کا حکم بھی دیا مگر ہٹائے جانے سے پہلے ہی یہ ویڈیو سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمس پر پھیل چکاتھااور اب بھی موجود ہے۔ جھارکھنڈ میں دوسرا نفرت انگیز پروپیگنڈہ یہ چلایاگیا کہ مسلمان آدیواسی لڑکیوں سے شادی کرتے ہیں اوران کی زمینوں پر قبضہ کرلیتے ہیں ۔ یہ نعرہ بھی دیاگیا کہ مسلم درانداز آپ کی روٹی، بیٹی اور ماٹی چھین رہے ہیں ۔اہم یہ ہے کہ نعرہ کسی اور نے نہیں ملک کے وزیر اعظم نے دیا!
انتخابی مہم میں اس بار کلیدی نعرہ یوگی آدتیہ ناتھ کا ’’ بٹیں گے تو کٹیں گے‘‘ تھا جس کا مقصد ہندوؤں کو (مسلمانوں کے خلاف) متحد ہونے کا پیغام دینا ہے۔ان کی تائید آر ایس ایس کے دتاتریہ ہوسبولے نے بھی یہ کہہ کر کردی کہ ’’اہم نکتہ یہ ہے کہ ہندو متحد ہوگا تو سب کو فائدہ پہنچے گا،یہی سَنگھ (آر ایس ایس) کا مقصد ہے۔‘‘ مودی نے اسی نعرہ کو تھوڑا تبدیل کرکے’’ایک ہیں تو سیف ہیں ‘‘ کا نعرہ دیا اور یہ پیغام دیا کہ اقلیتوں سے تحفظ کا یہی راستہ ہے جن کی وجہ سے ’’ہندو خطرہ میں ہیں ۔‘‘
مہاراشٹر میں نائب وزیر اعلیٰ نے نہ صرف’’ زمین جہاد‘‘اور ’’ووٹ جہاد‘‘ کو موضوع بنایا بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ بھارت جوڑو یاترا میں ’’اربن نکسل‘‘ اور ’’دائیں بازو کے شدت پسند عناصر ‘‘ نے شرکت کی۔ اس کا نتیجہ صرف ووٹوں کے پولرائزیشن کی شکل میں نہیں برآمد ہوا بلکہ عوامی تاثر پربھی یہ اثر انداز ہوا جس کی وہاٹس ایپ گروپ اور لوگوں کے ڈرائنگ روم میں ہونےوالی بات چیت ہے۔ کرسٹوف جیفری لوٹ ہندو قوم پرستی کے عروج پر تحقیق کرنے والے ممتاز اسکالر ہیں ، مارچ سے اپریل ۲۰۲۴ء کے درمیان’’ سی ایس ڈی ایس ‘‘کی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہیں ۔ اس تحقیق کا مقصد یہ سمجھنا تھا کہ ہندومسلمانوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ۔ تحقیق کے دوران ’’کیا مسلمان بھروسے کے لائق نہیں ، کیا ان کی منہ بھرائی کی جارہی ہے؟‘‘ جیسے سوالات کئے گئے۔ اس ریسرچ میں مسلمانوں کے تعلق سے عمومی منی ذہنیت سامنے آتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: کیا امریکہ چین کی معاشی پیش رفت کو روک پائے گا؟
محققین کو چاہئے کہ وہ یہ سمجھنے میں بھی ہماری مدد کریں کہ گزشتہ چند برسوں اور دہائیوں میں اس طرح کے منفی تاثر ات کس طرح بد سے بد تر ہوتے جارہے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی اس سے بچنے کیلئے مودی یہ دعویٰ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،جو ان کی تقاریر میں بھی سننے کو ملتا ہے کہ ’’وہ فرقہ وارانہ بیان بازی میں ملوث نہیں ہوں گے۔‘‘ صحافیوں کے ساتھ انٹرویو میں جب ان سے ان کی مسلم مخالف تقاریر کے تعلق سے سوال کیا جاتا ہےتو مودی جواب دیتے ہیں کہ ’’جس دن میں ہندو مسلم کی بات کرنے لگوں گا اس دن عوامی زندگی کے لائق نہیں رہ جاؤں گا۔ میں کبھی ہندو مسلم نہیں کروں گا۔‘‘ یہاں قول وفعل کا تضاد پوری طرح واضح ہے۔ یہ وہ تاثر ہے جو ہندوؤں میں نفرت کی فضا میں اضافہ کرتا ہے۔ نفرت کا یہ دائرہ دن بہ دن بڑھ رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس تقسیم کو کیسے روکا جائے؟ جواب یہ ہے کہ وہ متبادل بیانیہ پیدا کیا جائے جو ملک کی آزادی کی تحریک کی بنیاد تھا، وہ بیانیہ جو ہندوستان کی ہم آہنگی کی روایات کو پیش کرتا ہے اور جس کی بدولت تمام مذاہب کے لوگ آزادی کی تحریک میں شریک ہوئے تھے۔ یہ وہ قدریں ہیں ہمارے آئین میں موجود ہیں ۔ ان ہی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔