ڈاکٹر منموہن سنگھ کا انتقال ایسے وقت میں ہوا ہے جب روپے کی قدر کافی گر چکی ہے۔ان کے اقتدار میں روپے کی قدرکم ہونے پر ان کے خلاف دنیا بھر کی لعن طعن کی جاتی تھی مگر موجودہ صورتحال یہ ہے کہ روپے کی بے وقعتی کم ہوتے ہوتے اُس نشان تک پہنچ چکی ہے جہاں سے شدید تشویش اور فکر مندی شروع ہوتی ہے۔
ڈاکٹر منموہن سنگھ کا انتقال ایسے وقت میں ہوا ہے جب روپے کی قدر کافی گر چکی ہے۔ان کے اقتدار میں روپے کی قدرکم ہونے پر ان کے خلاف دنیا بھر کی لعن طعن کی جاتی تھی مگر موجودہ صورتحال یہ ہے کہ روپے کی بے وقعتی کم ہوتے ہوتے اُس نشان تک پہنچ چکی ہے جہاں سے شدید تشویش اور فکر مندی شروع ہوتی ہے ۔ڈاکٹر منموہن سنگھ کے دور میں ایک ڈالر ۶۱؍ روپے کے برابر تھا مگر مسلسل تخفیف ِقدر کی وجہ سے اب ۸۵؍روپے ہوگیا ہے مگر آپ دیکھ رہے ہیں کہ کہیں کوئی شوروغل یا احتجاج نہیں ہے۔سرمایہ کا سست بہاؤ، بڑھتا تجارتی خسارہ ،معاشی نمو کے مزید سست ہونے کا اندیشہ اورشرح سود سے متعلق فیڈرل ریزرو کا موقف اور جی ڈی پی کا متاثر ہوناوغیرہ ایسے اسباب ہیں جن کا روپے پر اثر تو پڑنا تھا، سو پڑ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھئے : منموہن سنگھ اور سچر کمیٹی
عام طورپر خیال یہ کیاجاتا ہے کہ روپے کی قدر عام آدمی کا موضوع نہیں ہے۔ اس کے لئے روزمرہ کی اشیاء ،ماہانہ اخراجات اور مہینے بھر کی آمدنی ہی سب کچھ ہے ، اسی لئے عام آدمی روپے کی قدر کے کم زیادہ ہونے پر توجہ نہیں دیتا۔عام آدمی ہی نہیں وہ تعلیم یافتہ طبقہ بھی جو متوسط یا اعلیٰ متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے وہ بھی روپے کی گھٹتی بڑھتی شرح سے دلچسپی نہیں رکھتا جبکہ روپے کی قدر جتنی کم ہوتی ہے ملک میں مہنگائی اتنی بڑھتی ہے ۔ تیل کی قیمتیں ، دیگر درآمد شدہ اشیاء اور کل پرزے ، یہ سب ڈالر کے مہنگا اور روپے کے سستا ہونے سے مسئلہ بن جاتے ہیں۔ خاص طور پر تیل کی قیمتوں کا اضافہ توہر خاص وعام کو متاثر کرتا ہے۔ اسی سے مہنگائی تیزرفتاری سے بڑھتی ہے اور ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے۔ اسی نقطۂ نظر سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی موجودہ قدر خاصی تشویشناک ہے۔ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ روپیہ اس حد تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ اس کے لئے حکومت کے پیش ِ نظر کون سے اقدام اور منصوبے ہیں مگر اس پر فوری توجہ ازحد ضروری ہے۔ غزہ کی جنگ نے جس طرح طول پکڑا وہ سب کے سامنے ہے۔ شام، یمن، ایران اور لبنان کے واقعات بھی کسی کی نگاہ سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ بھی کچھ کم گُل نہیں کھلا رہی ہے۔ جب عالمی منظر نامہ ایسا ہو تو ہر ملک چاہے گا کہ وہ اپنی کرنسی کو سنبھا لے۔ کرنسی کو سنبھالنے کی کوشش میں ابھی تو مزید اضافہ ہونا ہے کیونکہ ابھی ٹرمپ نے امریکہ کی صدارت سنبھالی نہیں ہے۔ ۲۰؍ جنوری کوجب ان کی تاجپوشی ہوجائے گی تب دیکھنا ہوگا کہ ان کی پالیسیاں کس رُخ پر جاری رہتی ہیں۔ ’’امریکہ فرسٹ‘‘ میں کسی قسم کی تبدیلی کا امکان نہیں ہے چنانچہ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ڈالر زیادہ مضبوط ہوگا اور یہی ٹرمپ کی کوشش بھی ہوگی۔ اگر ایسا ہوا اور ہم روپے کو سنبھالنے میں ناکام ہی رہے تو ہماری کرنسی کی بے وقعتی مزید بڑھ سکتی ہے۔ خدا نہ کرے کہ ایسا وقت آئے مگر جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس سے غافل نہیں رہا جاسکتا۔ روپے کی قدرکم ہونے کا فائدہ بھی ہے۔ مثلاً تارکین وطن جو رقومات ہندوستان بھیجتے ہیں وہ شرح زرمبادلہ کی وجہ سے زیادہ ملتی ہیں یا اس شرح کا فائدہ ایکسپوٹرس کو حاصل ہوتاہےمگر چونکہ ہندوستان کی درآمدات زیادہ ہیں اس لئے تجارتی خسارے کا بڑھنا طے ہوتا ہے۔ ویسے بھی روپے کی قدر کم ہونے سے نقصان زیادہ اور فائدہ کم ہے اس لئے اپنی کرنسی کو سنبھالنا وقت کی اولین ضرورت ہے۔اس کے لئے مرکزی حکومت کو بھی فعال ہونا پڑے گا،صرف آر بی آئی پر تکیہ کرنا کافی نہیں ہے۔