Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

ترقیاتِ انسانی کے معیارات اور ہم

Updated: February 23, 2025, 1:49 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

ترقیات انسانی یعنی ہیومن ڈیولپمنٹ کے بہت سے جدول اور بہت سے سروے سامنے آتے رہتے ہیں مگر عام آدمی نہ تو کبھی انکے بارےمیں غور کرتا ہے نہ ہی انکی بنیاد پر حکومت وقت سے سوال کرتا ہے جبکہ ان سے باخبر رہنا ازحد ضروری ہوتا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ ہندوستانی مردم شماری ملک کا سب سے بڑا اور واحد ذریعہ ہے بہت سی شماریاتی اطلاعات کے حصول کا جن کا تعلق ملک کی آبادی سے ہے۔‘‘ اس کی تاریخ ۱۳۰؍ سال پرانی ہے اور بلاشبہ یہ ایک قابل اعتماد اور ایسا ذریعہ ہے کہ جس پر کئی زمانے گزر چکے ہیں  اور یہ طے ہوچکا ہے کہ ہردس سال پر آبادی کے مختلف طبقات کو سمجھنے اور ان کی حقیقی صورت حال جاننے کا یہ بہتر طریقہ ہے جو ۱۸۷۲ء میں  شروع کیا گیا تھا ۔‘‘مرکزی حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سے حاصل شدہ تفصیل آبادیات، اقتصادیات، سماجیات اور شماریات وغیرہ کے محققوں  نیز دانشوروں  یعنی اسکالروں  کیلئے بے حد کارآمد ثابت ہوتی رہی ہے۔‘‘ اب تک کی آخری مردم شماری ۲۰۱۱ء میں  ہوئی تھی ، یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد کی آبادیاتی صورت حال کی کوئی تفصیل ہمارے سامنے نہیں  ہے اور ہم یہ بھی نہیں  جانتے کہ ہماری آبادی کی کیا طاقت ہے۔ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس (ایچ ڈی آئی) بھی ایک ذریعہ ہے مگر جس میں  حیات انسانی کا دورانیہ، خواندگی کی شرح اور معیارِ زندگی کو جانچا جاتا ہے۔ 
 امریکہ جس طریقے سے حیاتِ انسانی کو آنکتا ہے اس میں  پیدائش کے وقت بچے کےزندہ بچ رہنے کی توقع اور تعلیم کا زاویہ اہم ہوتا ہے کہ بچہ سکول میں  کتنے سال گزارتا ہے۔ اسی طرح حیات انسانی کے معیار کو جانچنے کیلئے یہ دیکھا جاتا ہے کہ جو قومی آمدنی ہے اس کا کتنا حصہ ہر سال شہریوں  کو حاصل ہوتا ہے۔
 اقوام متحدہ کا کہنا ہےکہ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس (ایچ ڈی آئی) کو پیش نظر رکھ کر یہ جانچا جاسکتا ہے کہ حکومت کی پالیسیاں  کیسی ہیں  اور یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ دو ممالک جن کی قومی آمدنی یکساں  ہے اُن کے ہاں  انسانی ترقیات میں  فرق کیوں  ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، ان ملکوں  کے لوگ اپنی حکومتوں  کی ترجیحات کو ہدف تنقید بناسکتے ہیں  اور مختلف سوالات قائم کرسکتے ہیں ۔
 ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس پر ہندوستان کا اسکور یا مقام عراق، بوتسوانا اور بنگلہ دیش سے بھی پیچھے ہے۔ یہ اسکور یا مقام عالمی اوسط سے بھی کم ہے۔ لیکن کیرالا کا اسکور اچھا ہے جو اس ریاست کو میکسیکو، کیوبا اور چین کی صف میں  کھڑا کرتا ہے جبکہ اترپردیش اور بہار کو زمبابوے اور پاکستان کے برابر جگہ ملے گی۔(مگر انڈیکس یا جدول میں  ملکوں  کا مقام طے کیا جاتا ہے نہ کہ ان ملکوں  کے صوبوں  یا ریاستوں  کا)۔ اگر تمل ناڈو کے بارے میں  جاننے کی کوشش کی جائے تو اس کا شمار بہار سے ۵۰؍مقام اوپر ہوگا ۔ یہی کیفیت ملک کے دیگر حصوں  کی ہے۔ اس سے ترقیاتی دوڑ میں  چند ریاستوں  کے بہت اچھے مقام پر ہونے اور دوسروں  کے بہت پچھڑا ہوا ہونے کی حقیقت بے نقاب ہوتی ہے۔ 
 پاکستان کی بھی یہی صورت حال ہے۔ وہاں  کے الگ الگ صوبوں  میں  بھی ترقیاتِ انسانی کی کیفیت ایک دوسرے سے بہت مختلف ہے۔ ایک پاکستانی سروے جس میں  عالمی صورت حال سے موازنہ نہیں  کیا گیا، اس میں  پنجاب کے مقابلے میں  بلوچستان کی حالت خستہ ہےجبکہ خیبرپختون خواہ کی حالت اس سے بھی خستہ۔
 جولائی ۲۳ء میں  ہماری مرکزی وزارت شماریات اور نفاذ منصوبہ جات نے فی کس آمدنی کا ریاست وار خاکہ پیش کیا تھا جس میں  تلنگانہ کے شہریوں  کی فی کس آمدنی تین لاکھ روپے بتائی گئی جو کہ مدھیہ پردیش کے شہریوں  کی فی کس آمدنی ۱ء۴؍ لاکھ روپے کے دوگنا سے زیادہ، یوپی کی فی کس آمدنی ۲۰۲۲ء میں  ۷۰؍ ہزار روپے سالانہ کے مقابلے میں  چار گنازیادہ اور بہار کی ۲۰۲۲ء میں  ۴۹؍ ہزار روپے سالانہ کے مقابلے میں  چھ گنا زیادہ تھی۔ پاکستان کی فی کس آمدنی ۱ء۲؍ لاکھ روپے (ہندوستانی روپے) او بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی ۲ء۱؍ لاکھ روپے تھی۔ ان اعدادوشمار کا بغور تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہماری ریاستوں  مثلاً یوپی اور بہار کی فی کس آمدنی پاکستان اور بنگلہ دیش سے بھی کم ہے۔
 اپنی کتاب ’’شمال بمقابلہ جنوب‘‘ میں  آر ایس نلاکنتن نے ہندوستانی شہریوں  کی فی کس آمدنی کا تجزیہ کچھ اس طرح پیش کیا ہے کہ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کس کی آمدنی کتنی ہوگی اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کون کہاں  یعنی کس ریاست میں  پیدا ہوا۔ ہم نے گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے مردم شماری نہیں  کروائی ہے اس لئے ہمیں  اندازہ نہیں  ہے کہ ہمارے شہریوں  کی حالت کیا ہے مگر الگ الگ رپورٹوں  اور سرویز سے جو صورت حال اُبھرتی ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ اگر کوئی شخص یوپی میں  پیدا ہوا ہے تو وہ اتراکھنڈمیں  پیدا ہونے والے سے آٹھ سال کم جی سکتا ہے ۔ ایک ہزار افراد میں  جو لوگ فوت ہوتے ہیں  ان کی تعداد کیرالا میں  فوت ہونے والوں  سے چپ گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح خواتین کو دیکھئے کہ ایک ہزار خواتین میں  فوت ہونے والی خواتین کی شرح کیرالا کے مقابلے میں  یو پی میں  چار گنا زیادہ ہے۔ عمر کے حساب سے بچوں  کا جتنا وزن ہونا چاہئے وہ پنجاب میں  زیادہ صحتمندانہ ہے بہ نسبت بہار کے۔ آنگن واڑی اگر ہے تو ہریانہ میں  دس گنا زیادہ امکان ہے کہ پکی عمارت میں  ہوگی اور مغربی بنگال میں  اس کے پکی عمارت میں  ہونے کا امکان بہت کم ہے۔ کرناٹک کے اسپتالوں  میں  جتنے بیڈ ہیں  اُتنے بہار میں  نہیں  ہیں  اور جتنے ڈاکٹر مہاراشٹر میں  ہیں  اُتنے اوڈیشہ میں  نہیں  ہیں ۔ انسانی ترقیات کے ایسے ہی معیارات پر الگ الگ ریاستوں  کو پرکھا جائے تو بڑی

یہ بھی پڑھئے: ’’حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں‘‘

عجیب اور ناقابل یقین صورت حال اُبھرتی ہے۔ اس سلسلے کی چند اور مثالیں  اس طرح ہیں :
 گجرات میں  اعلیٰ تعلیم میں  جانے والے طلبہ اتنے نہیں  ہیں  جتنے کہ ہماچل پردیش میں  ہوتے ہیں  جبکہ گجرات کے طلبہ کے انگریزی میڈیم میں  جانے کا اتنا امکان نہیں  ہے جتنا کہ پنجاب کے طالب علموں  کا ہے۔خود ہندوستانی سرکار اپنے شہریوں  کے ساتھ ریاست بہ ریاست الگ طرزعمل اختیار کرتی ہے۔ مثلاً ایک منی  پوری شخص پولیس میں  شکایت درج کرائے تواس کا اتنا وزن نہیں  جتنا کہ آندھرا میں  شکایت درج کرنے والے وہاں  کے شہری کاہے کہ اس کی شکایت جلد ہی چارج شیٹ میں  تبدیل ہوسکتی ہے۔ بہرحال دیکھنا ہے کہ نئی مردم شماری سے کیا کچھ نکل کر سامنے آتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK