پاکستان میںیہ بھی بڑا حیرت انگیز ہے کہ پولیس اور وہ بھی پولیس نہیں بلکہ ماسک لگائے ہوئے چند افراد سزا دینے والو ںکے گھر پہنچ جاتے اور گھر کے دروازے توڑ کر اندر داخل ہوجاتے ہیں۔ احمد نورانی کے گھر پر بھی ایسا ہی واقعہ ہوا۔ان کے گھر میں بھی ایسے ہی داخل ہوئے۔
اس سال امن کے نوبیل پرائز کیلئے پاکستان کے سابق کرکٹ کپتان اور پاکستان تحریک انصاف پارٹی کے بانی عمران خان اور ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کو نامزد کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ سے کم ہی لوگ واقف ہیں ۔ اتفاق سے ہندوستان میں ان لوگوں کو ذرا کم ہی جانا جاتا ہے جو انسانی حقوق کے لئے کام کرتے ہیں اسلئے ہم سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹرماہ رنگ کے بارے میں چند سطریں ضبط تحریر میں لانا ضروری ہوگا۔ وہ ایک بلوچی دوشیزہ اور میڈیکل ڈاکٹر ہیں ۔ کچھ عرصہ قبل ان کے والد کو اغوا ء کرلیا گیا تھا اور تھوڑے دنوں کے بعد ان کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی تھی۔ تب حکومت کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ان کی موت شاید کسی حادثے میں ہوئی ہے لیکن تمام بلوچیوں کو یہ یقین تھا کہ انہیں پاکستان کی بدبخت فوجی حکومت نے اغواء کیا اور پھر مار ڈالا۔ بلوچی انہیں شہیدکہتے ہیں ۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اسی کے بعد اپنے والد کی پیروی کرتے ہوئے تمام بلوچستان میں ان لوگوں کی بازیابی کیلئے تحریک شروع کی جو مشتبہ طور پر غائب ہوگئے اور ان کا کوئی پتہ نہیں چلا۔ اطلاعات کے مطابق ایسے لوگوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کسی مسلح جدوجہدکے بغیر تمام اغواء شدہ بلوچیوں کیلئے تحریک چلا رہی ہیں ۔ حال ہی میں اس تحریک کے زیر اہتمام ایک مارچ میں انہیں گرفتار کرلیا گیا۔ وہ اب بھی جیل میں ہیں لیکن ہمارے کم جاننے کے باوجود دُنیا نے ان کی خدمات کو پہچانا اور بالآخر نوبیل امن پرائز کیلئے نامزد کیا۔
نوبیل کیلئے نامزد کیا گیا دوسرا نام پاکستان تحریک انصاف پارٹی کے بانی اور رہنما عمران خان کا ہے جن کی شہرت عرصۂ دراز تک کرکٹ کے سبب رہی۔ چونکہ قارئین اُن کے بارے میں جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اِس وقت اُن پر کس طرح زیادتیاں ہورہی ہیں اس لئے ہم ان کے بارے میں مزید لکھ کر مضمون کی طوالت کا سبب نہیں بننا چاہتے۔
پاکستان میں حال ہی میں ایک حادثہ ہوا۔ اس کا تعلق وہاں کے صحافی احمد نورانی سے ہے۔ نورانی نے چند ہفتوں پہلے اپنی سائٹ پریہ بتایا تھا کہ جنرل عاصم منیر(خیر سے جو حافظ بھی ہیں ) نے اقتدار سنبھالنے کے چند ہی روز بعد اپنے عزیز و اقارب کو اہم عہدے دیئے ہیں ۔ احمدنورانی نے لکھا کہ عاصم منیرکی ایک ماموں زاد بہن سہیلہ کو تمام پابندیوں کو پامال کرتے ہوئے ایک بڑی کمپنی کا سی ای او مقرر کیا گیا، حالانکہ ان کی قابلیت اتنی بھی نہیں تھی کہ وہ اس فرم کی ایجنٹ ہی بن سکتیں ۔ اس کے علاوہ یہ بھی لکھا کہ عاصم منیر کے ایک ماموں بابر اعظم کو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایسا عہدہ دیا گیا کہ وہ افسروں کی تبادلہ آرائی اور تقرری میں دخل دیں اور لاکھوں کمائیں ۔ احمد نورانی نے اس سلسلے میں شواہد بھی پیش کئے۔ ظاہر ہے کہ جنرل صاحب اس معاملے میں کافی خفا ہوگئے۔ احمد نورانی تو امریکہ میں ہیں ان کا کچھ نہیں کیا جاسکتا تھا، اس کے باوجود اُن کے گھر پر حملہ ہوا اور اُن کے دو بھائیوں کو تشدد کے بعد اغواءکر لیا گیا۔ پاکستان میں یہ بھی بڑا حیرت انگیز ہے کہ پولیس اور وہ بھی پولیس نہیں بلکہ ماسک لگائے ہوئے چند افراد سزا دینے والوں کے گھر پہنچ جاتے اور گھر کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوجاتے ہیں ۔ احمد نورانی کے گھر پر بھی ایسا ہی ہوا۔ ان کے گھر میں ان کی بیوہ ماں اور ایک بہن رہتی ہیں اور ساتھ ہی دو ایسے بھائی بھی تھے جو انجینئرہیں اور سرکاری ملازم ہیں ۔ انہیں یعنی بھائیوں کو اغوا ء کرلیا گیا۔ نورانی کی ماں روتی ہوئی کورٹ پہنچیں اور آج سولہ دن سے بھی زیادہ ہوچکے ہیں ان کے بچوں کا کوئی پتہ نہیں ہے۔
احمد نورانی کی ماں نے عدالت میں کھڑے ہوکر چیخ چیخ کر یہ پوچھا کہ اگر میرے بچو ں کو کچھ ہوجاتا ہے تو جج صاحب بتائیے کیا ہوگا، میں کسے ذمہ دار قرار دوں گی؟ جج صاحب نے ان کی طرف دیکھا اور کہا کہ میں تو قانونی چارہ جوئی کررہا ہوں ، رہا یہ کہ آپ کے بچو ں کو کو ن دیکھے گا تو بس اللہ سے دعا کیجئے۔ کاش جج صاحب کو کوئی بتاتا کہ اللہ کی طرف دیکھنا تو ہر مسلمان کا دین ہے لیکن اسی اللہ نے فرمایا ہے کہ جو منصف ناانصافی کرتا ہے اللہ اسے دیکھ رہا ہوتا ہے اور اسے سزا دیتا ہے۔ بہر حال یہ تو ہے پاکستانی عدلیہ کا حال۔
پاکستان میں کم از کم پچاس ساٹھ ایسے جرنلسٹ ہیں جنہیں اسی طرح اغواء کیا گیا ہے لیکن حضرت علی ؓ کا یہ قول ہے کہ انسان کفر کے نظام کے ساتھ تو کچھ دور چل بھی سکتا ہے لیکن ظلم کے نظام کے خلاف چند قدم بھی نہیں چل سکتا۔ پاکستان میں کفر کا نظام تو نہیں ہےلیکن ظلم کا ایسا نظام ہے کہ جس کے سامنے آکر خود لفظ ظلم بھی احترام سے سر جھکادیتا ہے اور پاکستان میں اس وقت وہی ظالمانہ اقتدار رائج ہے۔
یہ بھی پڑھئے : ایک سے زیادہ تعبیر بھی پریشانی کا سبب بن جاتی ہے
جنرل عاصم کو بھی اپنے گناہوں کی سزا ملنا شروع ہو گئی ہے ۔ امریکہ کے دو رہنما یعنی ری پبلکن پارٹی کے جوولسن اور ڈیمو کریٹ پارٹی کے جمی پنٹاگن شامل ہیں ، انہو ں نے امریکی کانگریس میں ایک بل پیش کیا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ پاکستان کے موجود جنرل پاکستان میں ہونے والی تمام غیر قانونیت کے موجد ہیں ، انہوں نے ہی عمران خان کو بھی قید میں رکھا ہے جن کی پارٹی تحریک انصاف ملک میں ۸۰ ؍فیصد سے بھی زیادہ ووٹ حاصل کرچکی ہے۔ بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جنرل عاصم کو آئندہ کبھی امریکہ آنے کا موقع نہ دیا جائے اور نہ انہیں کوئی ایسا ویزا دیاجائے جس سے ان کے امریکہ آنے کا اتفاق ہو۔ اس بل کو قانون بننے میں کم از کم چھ مہینے لگیں گے لیکن قانون جب بھی بنے اس بل کا پیش ہونا ہی جنرل عاصم منیر کے لئے بری بلکہ بہت بری خبر ہے۔
اس بل کے آنے کے باوجود پاکستان میں اور خاص طور پر پاکستانی فوج میں جنرل عاصم کی کیا وقعت رہے گی۔ کیا وہ اپنے فوجیوں کے سامنے منہ رکھ کے یہ کہہ سکیں گے کہ وہ پاکستانی فوج کے ایسے سربراہ ہیں جس کو امریکہ آنے کی اجازت نہیں ۔ اتفاق سے عمران خان بھی چھ سو دنوں سے اڈیانہ جیل کی کال کوٹھر ی میں قید ہیں ۔ عید کے دن کے بعد پاکستان میں کیا صورت ہوگی اگر وقت ملا تو ہم انشاء اللہ اس کے بارے میں بھی آپ کو بتائینگے۔