ہر وہ خیال جو تحریر کی صورت میں موجود ہے وہ تاریخ کا حصہ ہے اور تاریخ میں قصہ گوئی کا مطلب کثرت تعبیر کو تقویت پہنچانا ہے۔ اختلاف اور اتفاق کی بنیادیں تاریخ فراہم کرتی ہے۔
EPAPER
Updated: April 07, 2025, 1:05 PM IST | sawar-u-huda | Mumbai
ہر وہ خیال جو تحریر کی صورت میں موجود ہے وہ تاریخ کا حصہ ہے اور تاریخ میں قصہ گوئی کا مطلب کثرت تعبیر کو تقویت پہنچانا ہے۔ اختلاف اور اتفاق کی بنیادیں تاریخ فراہم کرتی ہے۔
کسی تحریر کی کئی طرح سے تعبیر ممکن ہے۔ ہر تعبیر کا اپنا ایک جواز ہے۔ جمہوری نظام میں تعبیر کی کثرت معاشرہ کی ذہنی صحت کی علامت بھی ہے۔ تعبیر کسی نہ کسی منطق کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ تحریر جس نے زمانی فاصلہ طے کر لیا ہے، فطری طور پر مختلف تعبیرات کے لیے راہیں ہموار کر دیتی ہے۔چنانچہ ہماری سماجی، سیاسی اور تہذیبی زندگی میں تعبیر کی کثرت فکر و خیال کی سطح پر بیدار ذہن کی علامت سمجھی جاتی ہے مگر ہر تحریر مختلف تعبیرات کا نہ تو بوجھ اٹھا سکتی ہے نہ ہی بدلتے ہوئے وقت کا ساتھ دے سکتی ہے۔ عقیدت کی اپنی ایک مجبوری ہے۔ پڑھنے والا محسوس کرتا ہے کہ تعبیر کے عمل میں ایک ایسی ہوشیاری شامل ہے جو دوسروں کیلئے نہ صرف پریشانی کا باعث ہے بلکہ معاشرہ افواہ کا شکار ہو سکتا ہے۔ افواہ کو حقیقت بننے میں بہت کم وقت لگتا ہے۔ جب تک حقیقت سامنے آتی ہے، افواہ اپنا کام کر چکی ہوتی ہے۔یکجہتی کا بنیادی مفہوم کبھی تبدیل نہیں ہوگا۔ اختلاف کی پہلی منزل میں یکجہتی کو کمزور خیال کرنا ایک کمزور ذہن کی علامت ہے۔ تہذیبی زندگی میں اختلافات کے مواقع آتے ہی رہتے ہیں ۔ اختلاف کرنے کی ایک تہذیب بھی ہمارے یہاں رہی ہے۔ اگر ان رہنماؤں کی تقریروں اور تحریروں کو ملاحظہ کیا جائے جو ہماری تہذیبی زندگی کی رنگا رنگی کی علامت رہی ہیں تو یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اختلاف کی تہذیب کیا ہوتی ہے۔ زور سے بولنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہم ہمیشہ سچ کہہ رہے ہوتے ہیں ۔ ایک بے بنیاد بات جب بار بار کہی جاتی ہے اور کسی بڑی جگہ سے کہی جا رہی ہوتی ہے تو اس کا فوری اثر بھی ہوتا ہے۔فوری اثر رفتہ رفتہ دائمی اثر بنتا جاتا ہے۔ زمانہ کسی اسلوب کی گرفت میں آ جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ تاریخ کی اب اسی طرح تعبیر ممکن ہے۔
ہر وہ خیال جو تحریر کی صورت میں موجود ہے وہ تاریخ کا حصہ ہے اور تاریخ میں قصہ گوئی کا مطلب کثرت تعبیر کو تقویت پہنچانا ہے۔ اختلاف اور اتفاق کی بنیادیں تاریخ فراہم کرتی ہے۔ تاریخ سے جو کچھ ہم دریافت کرتے ہیں اس کے بارے میں ایمانداری کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہے کہ کسی مخصوص نظریے کو تقویت پہنچانے کیلئے اپنی تاریخی ریاضت کا سودا نہ کیا جائے۔ایک ہی شخص اور ایک ہی وقت کے تعلق سے تاریخ دانوں کا مختلف موقف اختیار کرنا دراصل تاریخ کو اپنی اپنی نظر سے دیکھنا ہے۔ نظر جب نظریہ بن جاتی ہے تو ایک معنی میں نظر کو اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ نظر کب نظریہ بن جائیگی اس بابت کوئی پیش گوئی ممکن نہیں ۔ ہمارے زمانہ میں نظریہ اگر اپنی وقعت کھوتا جا رہا ہے تو اس کا سبب نظریے کی کثرت نہیں بلکہ وقت کے ساتھ اپنی وابستگی کے معیار اور مزاج کو بدل لینا ہے۔ وابستگی کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ اکا دکا مثالوں سے قطع نظر وابستگی مفاہمت میں تبدیل ہو گئی ہے۔یہ تہذیبی زندگی کا بڑا زوال ہے کہ موسم کی تبدیلی نظریے کی تبدیلی کا سبب بن جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی ہمیشہ کسی کا نہ تو دوست ہوتا ہے اور نہ دشمن۔ تہذیبی زندگی میں ٹی ایس ایلیٹ نے کہا تھا کہ یہ دنیا اس وقت تک ٹھیک نہیں ہو سکتی جب تک اس کے سیاستدانوں کو ادب نہ پڑھا دیا جائے۔ یہ تجویز کتنی نئی اور کتنی پرانی ہے۔سیاست دانوں نے ادب کو پڑھا ہے اور کتنا پڑھا ہے اس کا اندازہ بھی تحریروں اور تقریروں سے ہو جاتا ہے۔ تہذیبی زندگی کا چہرہ روشن ہو سکتا ہے اگر تہذیبی زندگی کو متاثر کرنے والی شخصیات پر اعتماد بحال ہو جائے۔کتنے معصوم اور سادہ انسانوں کا دل زندگی کی اعلی قدروں اور سچائیوں کیلئے وقف ہے۔
ہم زمانے کی چالاکیوں سے واقف بھی ہوتے ہیں مگر کوئی لمحہ ہمارے اعتماد کو بحال کر دیتا ہے۔ کسی تحریر کی ایک سے زیادہ تعبیر کے بارے میں اب ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ شعر و ادب کے تعلق سے تعبیرات کا ایک سلسلہ سا قائم ہو جاتا ہے اور کسی کو اعتراض نہیں ہوتا کہ اتنی تعبیرات کیونکر ممکن ہیں ۔گرچہ ان تعبیرات کے سلسلے پر بھی شک و شبہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے یعنی تحریر اتنی تعبیرات کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ادب کی تعبیر کا بھی کوئی قانون اور دستور ہوگا۔ ظاہر ہے کہ ادب کی تعبیر کا قانون دراصل ادب کی ہیئت میں ہی پوشیدہ ہے۔ باہر سے کوئی نظریہ لایا جائے اور تحریر اس کا ساتھ نہ دے تو تعبیر کا مسئلہ مضحکہ خیز ہو جائیگا۔
قانون ہر شخص کیلئے یکساں اور برابر ہے مگر قانون کی تعبیر ہر شخص کیلئے یکساں نہیں ہوتی۔ ایک بے سہارا اور کمزور آدمی جب قانون کی طرف دیکھتا ہے تو اس اعتماد کا اظہار کرتا ہے کہ قانون میری سب سے بڑی پناہ گاہ ہے۔ ایک بے سہارا اور کمزور شخص کیلئے قانون کی کتاب کتنی بڑی پناہ گاہ بن جاتی ہے۔ یہ اس کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ اعتماد کی یہ صورت کسی معاشرہ کو داخلی اعتبار سے پر قوت بنا دیتی ہے لیکن کوئی ایسا وقت بھی آتا ہے جب ایک سادہ اور عام انسان بھی یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ ہماری تہذیبی زندگی دراصل تعبیرات کے ساتھ وابستہ ہے۔ وقت کی پیچیدگی اور اس کی کرائسس تعبیر کے عمل کو پیچیدہ بنا دیتی ہے۔ کوئی بھی تعبیر اتنی معصوم نہیں ہوتی مگر ایک معصوم انسان یہ سمجھتا ہے کہ تعبیر کا مزاج بنیادی طور پر سیاست سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ ایک سے زیادہ کسی تحریر یا نظریے کی تعبیر بہت ممکن ہے اور وقت کے ساتھ یہ صورتحال مستحکم ہوتی جا رہی ہے۔ اسی لمحے ٹھہر کر غور کر لینا چاہیے کہ تعبیر کی کثرت ہماری تہذیبی زندگی کے شیرازہ کو کتنا مضبوط کر رہی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ تعبیر کی کثرت نے ہمیں فکری طور پر منتشر کر دیا ہے؟ انتشار حد سے بڑھ جائے تو تعبیر کی کثرت کا تاریک پہلو نظر آنے لگتا ہے۔لیکن یہ بات دہرائی جانی چاہیے کہ تعبیر کی کثرت سے خوف نہ کھاتے ہوئے بھی اس کی طرف سے بہت بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔ اس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ کسی تحریر کو تعبیر کی کثرت سے بچایا نہیں جا سکتا۔ تحریر اور وہ تحریر جو داخلی طور پر زمانے کے سرد و گرم کا مقابلہ کر چکی ہے، وہ تعبیرات کا بوجھ اٹھا لیتی ہے مگر وہ اپنی زبان میں یہ بھی کہتی ہے کہ اسے پامال اور اس کے ساتھ کھلواڑ نہ کیا جائے۔ اس تحریر کو خوف ایسے شخص سے ہے جو اس کی تاریخیت کو نظر انداز کر دے اور اپنی فوری اور وقتی منفعت کو تقویت پہنچانے کیلئے استعمال کرے مگر اس خوف کی زبان کو کون دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔ ایک شور ہے جو تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ ٹھہر کر غور کرنا تو اب ہر شخص کیلئے ممکن نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھئے : ٹرمپ نہ مانے تو اُن کے اپنے ہی اُنہیں مجبور کرینگے
تعبیر کی کثرت اب ایک مستقل مسئلہ بن گئی ہے۔ تحریر کو اگر کچھ کہنے کی اجازت ہوتی تو وہ کیا کہتی۔ خاص طور پر وہ تحریر جو تہذیبی زندگی کی رنگا رنگی سے وجود میں آئی ہے۔ اب تہذیبی رنگا رنگی کی نئی تعبیر کی جا رہی ہے۔ اور ایک دل ہے جو اسی تہذیبی رنگا رنگی کے لیے وقف ہے۔ اسے فوری سیاست سے خطرہ تو ہے مگر اپنی سخت جانی پر بھی اس کو بڑا ناز ہے۔ کلیم عاجز نے کہا تھا:تری تلوار نے تو کچھ کمی باقی نہیں رکھی مگر وہ سخت جاں ہم ہیں کہ اب تک دم نہیں نکلا