• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ڈاکٹر ذاکر حسین کو میں نے جامعہ میں دیکھا ہے (۲)

Updated: February 17, 2025, 1:26 PM IST | sarwarul-huda | Mumbai

۸؍فروری کو سابق صدر جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین کا یوم ولادت تھا۔ اسی مناسبت سے زیر نظر مضمون کی پہلی قسط گزشتہ ہفتے شائع کی گئی تھی۔ اب اس کے دوسرے حصے میں مزید چند نکات ملاحظہ ہوں:

Photo: INN
تصویر:آئی این این

دو قومی اداروں  کے درمیان مکالمے کی ضرورت پہلے بھی تھی لیکن جیسا کہ ابتداء میں  لکھ چکا ہوں ، آج اس کی ضرورت پہلے سے کہیں  زیادہ ہے۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے کاشی ودیا پیٹھ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے درمیان جس قومی رشتے کی جستجو کی تھی،اس کی اہمیت ہمیشہ باقی رہے گی۔اس اہمیت کا تعلق ہماری اس بے چینی سے ہے جو آج کی زندگی کے سیاق میں  اپنا جدید تر مفہوم تو رکھتی ہے،لیکن اس کا رشتہ اسی بے چینی سے ہے جس کا ذکر قومی تعلیم کے سیاق میں  ڈاکٹر ذاکر حسین نے بہت پہلے کیا تھا۔ ڈاکٹر ذاکر حسین کی وہ تقریر جو انہوں  نےجامعہ ملیہ اسلامیہ کے قیام کے ۲۵؍ سال مکمل ہونے پر فرمائی تھی، اس کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ وہ بھی اس سیاق میں  کہ اب جامعہ نے اپنے قیام کے ۱۰۰؍ سال مکمل کر لئے ہیں ۔  
 ذاکر صاحب نے ودیا پیٹھ میں  قومی زندگی اور قومی تعلیم کے سلسلے میں  اتنی اہم اور بنیادی باتیں  کہی تھیں  کہ آج بھی غور و فکر کی دعوت دیتی ہیں ۔ زمانہ سیاسی اور سماجی اعتبار سے جن مشکلوں  سے گزر رہا تھا ان کی تفصیل میں  جانے کا یہ موقع نہیں  ہے لیکن اس خطبے سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اپنے وسائل کے ساتھ کس طرح اور کیوں  کر قومی تعلیم اور قومی زندگی کے مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔
 ڈاکٹر ذاکر حسین نے نہایت ہی شفاف ذہن اور شفاف زبان کے ساتھ قومی تعلیم کے بارے میں  اظہار خیال کیا ہے۔وہ قومی تعلیم کے سلسلے میں  ذہنی زندگی اور سماجی زندگی دونوں  سے بحث کرتے ہیں ۔اس سلسلے میں  انہیں  درخت کا خیال آتا ہے کہ اس کی شاخیں  الگ الگ ہونے کے باوجود درخت سے وابستہ رہتی ہیں ۔ ایک شخص کی ذہنی زندگی اسے بظاہر دوسروں  سے الگ کرتی ہے لیکن ان کا یعنی ذاکر صاحب کا خیال ہے کہ ذہنی زندگی سماجی زندگی کے بغیر ممکن نہیں ۔’’ذہنی زندگی‘‘کی ترکیب کا خیال کسی ذہین صاحب علم اور صاحب بصیرت شخص ہی کو آ سکتا ہے کہ ذہنی زندگی عملی زندگی سے کتنے فاصلے پر ہوتی ہے اور یہ فاصلہ کبھی وقت کے ساتھ کتنا بڑھ جاتا ہے۔ ذاکر صاحب لکھتے ہیں : 
 ’’ذہنی زندگی تو کسی ذہنی زندگی ہی سے پیدا ہوتی ہے، یہ چراغ ہمیشہ دوسرے چراغ ہی سے جلایا جا سکتا ہے۔ ذہنی زندگی میں  ’’تو‘‘ نہ ہو تو ’’میں ‘‘ کا وجود ہی نہ ہو۔ اس لیے ذہنی زندگی کیلئے، جو اصلی معنوں  میں  انسانی زندگی ہے، سماج کا وجود لازمی ہے۔‘‘
 ذہنی زندگی کو چراغ سے مشابہ قرار دینا یہ بتاتا ہے کہ ذہن میں  کوئی چراغ روشن ہے اور اسی لئے یہ ذہنی زندگی ایک معنی میں  قومی زندگی کو روشن کرتی جاتی ہے۔ انہوں  نے اس خیال کا بھی اظہار کیا ہے کہ سماج میں  دو کام اس کی بقا کے لئے ضروری ہیں ۔ یعنی سماج وقت کے ساتھ بدلتا بھی رہتا ہے اور وہ اپنے وجود کو بھی باقی رکھتا ہے۔ سماج کا اپنے حال پر قائم رہنا دراصل اپنی روایت کا احترام بھی باقی رکھتا ہے۔ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس کی روشنی میں  علمی اور تہذیبی زندگی کے مختلف شعبوں  کو دیکھا جا سکتا ہے۔ سماج کا وقت کے ساتھ بدل جانا گویا تبدیلی کو ایک بنیادی ضرورت کے طور پر دیکھنا ہے۔ انہوں  نے بدلنے کی روش کو ایک طاقت کے طور پر دیکھا ہے۔ قومی زندگی کے تعلق سے وہ یہ بھی لکھتے ہیں :
 ’’قومی زندگی میں  تعلیم اسی طرح گزرے ہوئے زمانے سے موجودہ زمانے کو ملاتی ہے جیسے اکیلے آدمی کی زندگی میں  اس کا حافظہ، میں  نہیں  سمجھتا کہ قومی زندگی میں  تعلیم کی اہمیت کو اس سے بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔‘‘ اس اقتباس میں  خاص طور پر ملاحظہ کیجئے یہ حصہ کہ ’’اکیلے آدمی کی زندگی میں  اس کا حافظہ ‘‘۔ یہ کتنا خوبصورت حصہ ہے۔ حافظہ نہ صرف ایک شخص کے لئے بلکہ قومی زندگی کے لئے بھی اہمیت کا حامل ہے۔ حافظہ ہی کسی قوم کو نئے حالات میں  اپنی روایت کا شعور عطا کرتا ہے، اور تبدیلی کا احساس بھی دلاتا ہے۔ جامعہ کے قیام کو ۲۵؍ سال ہو گئے تھے، ڈاکٹر ذاکر حسین نے ایک ذہین، ذمہ دار اور درد مند پیشوا کے طور پر گزرے ہوئے ان برسوں  کو دیکھا تھا،تب ہی کہا تھا: ’’آج مجھے آپ کی خدمت میں  جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ۲۵؍ سالہ روداد کا خلاصہ پیش کرنا ہے۔ ۲۵؍ سال اور کیسے ۲۵؍ سال میں ! یہ کام جب شروع ہوا تھا تو کتنے تھے جن کو یہ گمان ہو سکتا تھا کہ اس پر ۲۵؍ سال بھی گزر جائیں  گے؟ خاصی طویل مدت ہوتی ہے ۲۵؍ سال کی۔ اور قوموں  کی زندگی میں  یہی ۲۵؍ سال ایک لمحے سے بھی کم ہوتے ہیں ۔حیات قومی کا یہی ایک لمحہ ایک تخلیقی لمحہ ہونے کی وجہ سے صدیوں  پر بھاری بھی ہو سکتا ہے۔ ان گزرے ہوئے ۲۵؍ سال کی روداد کس اسلوب سے پیش کروں ۔‘‘

یہ بھی پڑھئے : بیجنگ اور واشنگٹن کی تجارتی مخاصمت اور ہم

 ذاکر صاحب کی ان تقاریر میں  وقت کا گہرا شعور موجود ہے۔ ۲۵؍ سال کو طویل زمانہ بتانا اور اسے کوئی لمحہ قرار دینا جو صدیوں  پر بھاری ہو جاتا ہے، یہ سب کچھ وقت کے بارے میں  ان کے ذہنی رویے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ قومی اور تہذیبی زندگی کے درمیان وقت کو اس طرح تیز تر گزرتے ہوئے دیکھنا اور محسوس کرنا، اور کبھی اس کی آہستہ روی کو بڑی حقیقت کے طور پر دیکھنا سیاسی، تہذیبی، تعلیمی اور ادبی افکار و مسائل کے درمیان وحدت کی تلاش ہی تو ہے۔ 
 ڈاکٹر ذاکر حسین نے غالب کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر ۱۹۶۹ء میں  جو تقریر کی تھی اس میں  بھی غالب کے تعلق سے وقت کا مسئلہ موجود ہے۔ انہوں  نے غالب کے فارسی کلام کا انتخاب بھی کیا تھا۔ غالب کی صدی تقریبات کے موقع پر انہوں  نے جو سوالات پیش کئے تھے ان کی اہمیت ہمیشہ باقی رہے گی۔ ملاحظہ کیجئے غالب کے بارے میں  ان کے یہ خیالات کتنے اہم ہیں :
  ’’انہیں  یقین تھا کہ لوگ ایک دن ان کے کلام کو ضرور سمجھ لیں  گے۔ اور اس کی قدر کریں  گے۔ اس لئے ان کے نغمہ تخیل نے جوش پیدا کیا تھا۔ اور کوئی بلبل اس طرح نغمہ سرا ہو تو کوئی موجود باغ اس کے شایان شان نہیں  ہوتا۔ مگر غالب اپنی دنیا سے الگ نہیں  تھے بلکہ اس میں  ایک نشے کی طرح سرایت کر گئے تھے۔‘‘
 وقت کے ساتھ ذاکر صاحب کے اس خیال کی توثیق ہورہی ہے کہ غالب کو اپنی عظمت کے تسلیم کئے جانے کا یقین تھا۔ آج غیر اُردو حلقوں  میں  غالب کی کہیں  زیادہ پزیرائی ہورہی ہے۔ بہرکیف، اس گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ ڈاکٹر ذاکر حسین کی شخصیت اتنی رنگا رنگ ہے جتنی کہ خود ہماری قومی اور تہذیبی زندگی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK