• Sat, 22 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

بیجنگ اور واشنگٹن کی تجارتی مخاصمت اور ہم

Updated: February 16, 2025, 2:41 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

چین کی صنعتی ترقی اور تجارتی بالادستی کو کم آنکنا خود فریبی کے مترادف ہوگا۔ اس نے پیداواریت کے حیرت انگیز معیارات قائم کئے ہیں۔ امریکہ کا اس سے متنبہ ہونا اور وقتاً فوقتاً مسائل پیدا کرنا بلاوجہ نہیں ہے۔ اس کی تازہ مثال ڈیپ سیک ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

جس دہائی میں  بھارتیہ جنتا پارٹی کے نظریاتی ایجنڈا نے ملک پر تسلط جمایا، اُس میں  دیگر ملکوں  میں  بھی حالات معمول پر نہیں  تھے۔ ۲۰۱۵ء میں  چین کے سربراہ لی کیکیانگ نے غیر ملکی تکنالوجی پر چین کے انحصار کو کم کرنے کے مقصد سے دس سالہ منصوبہ کا اعلان کیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ چین کو کم لاگت کا مینوفیکچرر نہ رہنے دیا جائے بلکہ ترقی یافتہ ملکوں  مثلاً جرمنی، تائیوان، جاپان، کوریا اور امریکہ کی معیشت کے ہم پلہ بنایا جائے۔ 
 اس منصوبے کو ’’میڈ اِن چائنا ۲۰۲۵ء‘‘ نام دیا گیا تھا۔ اس کے تحت سیمی کنڈکٹرس، مصنوعی ذہانت، روبوٹکس، کمرشیل ایئر کرافٹ، ڈرون، ہائی اسپیڈٹرین، الیکٹرک گاڑیوں ، بیٹریوں ، ایڈوانسڈچپ اور سولار پینل کے شعبوں  کی شناخت اور پھر درجہ بندی کی گئی تھی کہ ان میں  سے کن شعبوں  میں  چین پیچھے ہے، کن میں  عالمی مقابلہ کی صلاحیت رکھتا ہے اور کن میں  وہ عالمی سطح پر سب سے آگے ہے یعنی گلوبل لیڈر ہے۔ بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ۲۰۱۵ء میں  چین بہت سے شعبوں  میں  پیچھے تھا، چند (ہائی اسپیڈ ٹرین اور بیٹریز) میں  مقابلہ کی صلاحیت رکھتا تھا اور سولار پینل میں  گلوبل لیڈر تھا۔ مذکورہ منصوبہ کے تحت جو درجہ بندی کی گئی وہ اس لئے تھی کہ چین، یا تو تمام شعبوں  میں  مقابلہ کی صلاحیت رکھے یا سب میں  قائدانہ اہلیت حاصل کرلے۔ 
 اس منصوبے کے اعلان کے بعد امریکہ آگ بگولہ ہوگیا۔ اس کے حلیف ممالک بھی جزبز ہوئے۔ امریکہ کسی بھی ملک کو ترقی کرکے گلوبل لیڈر بنتا ہوا نہیں  دیکھ سکتا۔ اس کے خیال میں  عالمی قیادت اُسی کا حق اور حصہ ہے،کوئی دوسرا اس منصب کو حاصل نہیں  کرسکتا۔ اسی لئے چین کے ترقیاتی عزائم پر اُس وقت کے امریکی صدر کا چیں  بہ جبیں  ہونا ف’’فطری‘‘ تھا۔ اس کے باوجود آج چین کی معیشت امریکی معیشت کا دو تہائی ہے جو خود میں  اتنی طاقت رکھتی ہے کہ آئندہ چند برسوں  میں  امریکہ کی برابری کرنے لگے۔ 
  امریکہ اور حلیفوں  کی یہ ناپسندیدگی دیکھ کر چین نے ’’میڈ ان چائنا ۲۰۲۵ء‘‘ پر بات کرنا ترک کردیا۔ ۲۰۱۷ء میں  جب ڈونالڈ ٹرمپ پہلی مرتبہ امریکہ کے صدر بنے تو اُن کی سربراہی میں  امریکہ نے چین پر ٹیریف لگا دیا۔ اس کے بعد کے سال میں  چین کی ٹیکنالوجی کمپنی ہواوئی (Huawei) پر پابندی عائد کردی گئی۔ اس کے بعد صدر بائیڈن کے دور میں  امریکہ نے چین کو ہائی اینڈ کمپیوٹر چپس کی فراہمی روک دی۔ یہ سب اسلئے کیا گیا کہ چین کی ترقی کرتی معیشت کو روکا جائے نیز امریکہ اور چین کی جو تجارتی مفاہمت تھی اور جس کی وجہ سے دونوں  ممالک مستفید ہوا کرتے تھے وہ جاری نہ رہ سکی۔ دوبارہ صدر بننے کے بعد ٹرمپ اپنے ملک میں  افراط زر کا خطرہ مول لے کر  چین پر ٹیریف عائد کررہے ہیں  تاکہ چین کی معاشی رفتار کو سست کیا جائے۔
 اب چین ’’میک ان چائنا ۲۰۲۵ء‘‘ کی تشہیر نہیں  کرتا مگر اس کی جانب سے زیر بحث منصوبے پر عمل جاری ہے۔ ۲۰۲۵ءمیں  وہ مذکورہ شعبوں  میں  سے تقریباً تمام میں  عالمی مقابلہ کی صلاحیت حاصل کرچکا ہے جبکہ کم و بیش نصف شعبوں  میں  عالمی لیڈر بن چکا ہے۔اب یہ ملک کمرشیل ایئرکرافٹ بناتا بھی ہے اور اُڑاتا بھی ہے۔ اور بھی کئی طرح کی طیارہ سازی اس کی دسترس میں  ہے۔ 
 گزشتہ ماہ ’’ڈیپ سیک‘‘ کے ذریعہ چین نے پوری دُنیا پر ظاہر کردیا کہ وہ مصنوعی ذہانت میں  بھی کسی سے پیچھے نہیں  ہے۔ اس سے امریکہ سکتے میں  آگیا کیونکہ (۱) چین نے یہ کامیابی ہائی اینڈ چپس کی فراہمی کے بغیر حاصل کرلی اور (۲) کم سرمائے کے باوجود اتنی بڑی پیش رفت کو یقینی بنادیا۔ سلیکون ویلی کے وہم و گمان میں  بھی نہیں  تھا کہ چین جیسا اتنی بڑی اہلیت حاصل کرلے گا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں  دو ہی ممالک کو مسابقت حاصل ہے۔ اُن میں  سے ایک اگر امریکہ ہے تو دوسرا چین ہے۔ ان جیسی صلاحیتیں  نہ تو یورپ میں  ہیں  نہ ہی کسی اور ملک میں ۔
 برآمدات پر پابندیوں  کے باوجود چینی کمپنی ہواوئی وہ چپس تیار کررہی ہے جو تائیوان کی سب سے جدید چپس سے کچھ ہی پیچھے ہیں ۔ یہ چپس کسی بیرونی تعاون کے بغیر اندرون ملک ہی بنائی گئی ہیں ۔ چین میں  اس کی اہلیت ہے اس کا اندازہ ڈیپ سیک سے ہوتا ہے جس کے بارے میں  کسی نے سوچا بھی نہیں  تھا کہ چین مصنوعی ذہانت میں  اس درجۂ کمال کو پہنچے گا۔ چین صنعتی میدان میں  کیا کچھ کرسکتا ہے اس کو سمجھنے کیلئے اُن مصنوعات اور پیش رفتوں  کو ذہن میں  رکھنا چاہئے جن میں  سے کچھ کا ذکر اوپرآچکا ہے مثلاً جدید طیارہ سازی۔ اس کے علاوہ اسپیڈٹرین، سولار پینل، بیٹری اور ڈرون میں  چین کا ہاتھ پکڑنا کسی بھی ملک کیلئے ازحد دشوار ہے۔ چین ہی وہ ملک ہے جو الکٹرک کار بناتا ہے، وہی اس کا سب سے بڑا صارف ہے اور سب سے بڑا برآمد کنندہ۔ دُنیا کے ۸۰؍ فیصد سولار پینل، ۷۵؍ فیصد لیتھیم بیٹری، ۷۵؍ فیصد ڈرون وغیرہ بیجنگ ہی بناتا ہے۔ 
 چین کی حیرت انگیز پیش رفتوں  سے خار کھانے والے ممالک کو ہمیشہ یہ اُمید رہی کہ وہ کسی نہ کسی مرحلے میں  غوطہ کھائے گا۔ یہ بات بیس سال سے سوچی جارہی ہے مگر چین مستحکم ہے۔ یاد رہے کہ ۱۹۹۰ء میں  جب ہم نے معاشی اصلاحات کو راہ دی تھی تب ہم اور چین تقریباً برابر تھے۔ آج چینی معیشت ہم سے چھ گنا بڑی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: مرا ماضی کتنا امیر تھا، مَیں غریب ہوں

 چین کی مسابقت اور کامیابی مخفی نہیں  مگر ہم نے اب تک اس کو صحیح طریقے سے سمجھا نہیں  ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ چین خاموشی سے اپنا کام کرتا ہے، اس کے ہاں  انگریزی ذرائع ابلاغ کو بہت آزادی نہیں  ہے،اکثر ملکوں  کو اس کی پیش رفتوں  کا علم  نہیں  ہوتا مگر ہم پڑوس میں  ہیں  اس کے باوجود یہ باتیں  زیر بحث نہیں  آتیں ۔ ہمارا قومی میڈیا چاہے تو بہت سی معلومات حاصل اور عام کرسکتا ہے مگر اس معاملے میں  اُس کی دلچسپی دکھائی نہیں  دیتی۔ 
 ہم دلچسپی لیں  نہ لیں ، دُنیا چین کی ترقی کرتی معیشت کو تسلیم کرتی ہے۔ یاد رہے کہ اس کی یہ ترقی اُسی ایک دہائی (۲۰۱۵ء تا ۲۰۲۵ء) میں  ہوئی ہے جس میں  بی جے پی اور ہمارے وزیر اعظم اپنا نظریاتی ایجنڈا لاگو کرنے میں  مصروف رہے۔

china Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK