Inquilab Logo Happiest Places to Work

ٹرمپ نہ مانے تو اُن کے اپنے ہی اُنہیں مجبور کرینگے!

Updated: April 06, 2025, 1:47 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

مگر اس سے قبل کہ ایسا ہو، ٹرمپ عالمی معیشت کو کافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ہندوستان اس تجارتی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا، اسے کوئی حکمت عملی تو اپنانی ہوگی۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

تجارتی جنگیں  کس  طرح ختم ہوتی ہیں ؟ اس کا جواب پانے کیلئے ہمیں  اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہئے کہ جنگیں  کس طرح ختم ہوتی ہیں ؟ دونوں  ہی سوالوں  کا جواب یہ ہے کہ جب یہ جنگیں  ایک بار شروع ہوتی ہیں  تو ان کا ختم ہونا آسان نہیں  رہ جاتا۔
 اکثر و بیشتر یہ ہوتا ہے کہ تجارت اور سفارت سے متعلق سرگرمیاں  کچھ اس طرح جاری رکھی جاتی ہیں  کہ وہ عوام کی نگاہوں  سے اوجھل رہتی ہیں ۔ اس کا سبب صرف راز داری نہیں  ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ ان سرگرمیوں  کی تفصیل غیر دلچسپ ہوتی ہے اور نیوز چینلوں  کے مباحثو ں  میں  انہیں  موضوع نہیں  بنایا جاسکتا۔ آپ خود بھی محسوس کرسکتے ہیں  کہ کون سا ملک کس دوسرے ملک پر ڈیری اشیاء، سویا بین اور موٹر گاڑیوں  کے کل پرزوں  کیلئے کتنا ٹیریف لگاتا ہے اور کتنا کم کرسکتا تھا وغیرہ معاملات غیر دلچسپ موضوع ہیں ۔ اسی طرح کسی چوٹی کانفرنس میں  ملنے والے لیڈروں  کی تصاویر تو دلچسپی سے دیکھی جاتی ہیں  مگر اُن کے درمیان تنازعات کو حل کرنے کے سلسلے میں  کیا گفتگو ہوئی یہ ہر خاص و عام کی دلچسپی کا سبب نہیں  بنتی۔عدم اتفاقی ان میٹنگوں  کے بعد بھی قائم رہ سکتی ہے لہٰذا ایسے موقعوں  پر سفارتکاروں  کی جانب سے اعلان کیا جاتا ہے کہ دوبارہ ملاقات پر اتفاق کیا گیا ہے اور مسائل کو افہام و تفہیم کے ذریعہ حل کیا جائیگا۔ عدم اتفاق کی صورت میں  متعلقہ ممالک گفتگو جاری رکھنے ہی کا عزم کرتے ہیں  کیونکہ جنگ کے خطرہ کو ٹالنا اُن کے بہترین مفاد میں  ہوتا ہے۔
 لیکن، جب جنگ کا ماحول بننے لگتا ہے تو اس پر قابو پانا آسان نہیں  ہوتا۔ جنگ کا یہی ایک سبب نہیں  ہوتا کہ کسی نے حملہ کردیا بلکہ یہ بھی کہ جس پر حملہ کیا گیا اُس کا ردعمل کیسا ہے، کن حالات میں  کیا، کتنی شدت کا حملہ تھا اور وہ کتنا تباہ کن تھا، ان باتو ں کو پہلے سے بھانپا نہیں  جاسکتا۔مشہور مکے باز مائیک ٹائسن نے کہا تھا: ’’ہر ایک کا منصوبہ ہوتا ہے مگر وہ اسی وقت تک منصوبہ رہتا ہے جب تک کہ مقابل مکے باز کا مکہ جبڑے پر آکر نہیں  لگتا، اس کے بعد حالات بدل جاتے ہیں ۔‘‘ جنگوں  میں  بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے : ’’تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

 جنگیں  تب ختم ہوتی ہیں  جب جنگ کرنے والے ممالک تھک چکے ہوتے ہیں  یعنی جب اُن کے اپنے ملکوں  کو کافی نقصان ہوچکا ہوتا ہے اور وہ مزید نقصان کے متحمل نہیں  ہوتے۔ یا، وہ جنگ تب ختم کرتے ہیں  جب ایک ملک اتنا طاقتور ہوتا ہے کہ دوسرے کو جھکنے پر مجبور کردے بالکل اُسی طرح جیسے اسکولی طلبہ کے درمیان لڑائی جھگڑا ہوتا ہے اور طاقتور طالب علم کمزور کو یا بڑی کلاس کا طالب علم چھوٹی کلاس کے طالب علم کو نچلا بٹھا دیتا ہے۔ اس مثال سے قطع نظر، تجارتی جنگوں  اور باقاعدہ جنگوں  میں  ایک عنصر اور بھی ہوتا ہے اسی لئے اُن پر قابو پانا مشکل ہوجاتا ہے اور یہ پیش گوئی اس سے زیادہ مشکل ہوجاتی ہے کہ جنگ کی آگ مزید کتنا پھیلے گی۔ و ہ عنصر یہ ہے قومی افتخار اور قومی بقاء۔ یہی وجہ ہے کہ تجارت اور سفارت اپنا اصل کام درِ پردہ اُس وقت شروع کرتے ہیں  جب عوام کی نگاہیں  اُس کام پر نہیں  ہوتیں ۔ جب عوام کی نگاہیں  سب کچھ دیکھ رہی ہوتی ہیں  اور جب اُن کے لیڈروں  کے بیانات کی وجہ سے اُن کا غصہ شدید ہوتا ہے تب صورت حال بدلنے لگتی ہے۔ٹرمپ صاحب کا حال یہ ہے کہ وہ چین کو زائد ٹیریف کے ذریعہ سزا دے رہے ہیں  اور یہ دھمکی بھی کہ اگر اُس نے کوئی حرکت کی تو مزید سزا دی جائے گی۔ چین نے کیا کیا؟ اُس نے بھی ویسی ہی سزا امریکہ کیلئے تجویز کردی۔ اس سلسلے میں  کہا جاسکتا ہے کہ ٹیریف بڑھنے کا خمیازہ تو متعلقہ ملک کے عوام کو بھگتنا پڑتا ہے کیونکہ درآمد ٹیکس بڑھ جانے کی وجہ سے ملک میں  اشیاء مہنگی ہوجاتی ہیں ۔ مگر یہ کوئی اہم نکتہ نہیں  ہے۔
 اسے تجارتی جنگ (ٹریڈ وار) اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس جنگ میں  جنگ تو ہوتی ہے مگر بمباری نہیں  ہوتی اسی لئے اِس میں  جب ایک ملک اقدام کرتا ہے تو دوسرا بھی اقدام پر مجبور ہوتا ہے۔ 
 کنیڈا پر ٹیریف لگانے کے بعد ٹرمپ نے بیاان دیا کہ ’’گورنر ٹروڈیو کو بتائیے کہ اگر انہوں  نے ردعمل کے طور پر امریکہ کے ساتھ ٹیریف کا کھیل کھیلا تو ہماری جانب سے مزید ٹیریف عائد کیا جائیگا۔ اس بیان کا جواب کنیڈا نے دیا اور اب چین نے بھی دے دیا ہے۔ اب گیند ٹرمپ کے پالے میں  ہے، وہ چاہیں  تو وہی کریں  جس کی انہوں  نے دھمکی دی ہے یا قدم پیچھے ہٹالیں ۔ اگر انہوں  نے وہی کیا جس کی دھمکی دی ہے تو معاملات مزید پیچیدہ ہوں  گے جو کس حد تک جائینگے اس کا اندازہ کسی کو نہیں ، اس کے برخلاف اگر انہوں  نے کوئی قدم نہیں  اُٹھایا تو امریکہ اور پوری دُنیا میں  اُن کی ساکھ متاثر ہوگی۔
 اسی لئے جو تجارتی جنگ شروع ہوئی ہے وہ ابھی کچھ عرصہ جاری رہے گی۔ مگر اس کی وجہ سے ہم ہندوستانیوں  کو تشویش ہونی چاہئے۔ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۱۴ء کے درمیان ہندوستان نے معاشی طور پر کافی ترقی کی کیونکہ اشیاء کی برآمدات سالانہ ۵۰؍بلین ڈالر سے ۳۲۰؍ ملین ڈالر ہوگئی تھی۔ یہ پوری دہائی کی صورتِ حال تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ عالمی تجارت میں  کافی اضافہ ہوا تھا لیکن جب عالمی کساد بازاری کے سبب تجارت کم ہوئی تو ہماری معاشی ترقی بھی ٹھپ پڑ گئی۔ اب جبکہ مذکورہ صورتحال کو مزید دس سال گزر چکے ہیں ، اشیاء کی برآمدات، جو ہم کرتے ہیں ، ۴۰۰؍ ارب ڈالر کے آس پاس ہے یعنی جو تیز رفتار ترقی تھی، اب نہیں  ہے۔ یہ جان لیجئے کہ جب عالمی تجارت بڑھتی ہے تو ہندوستان کو فائدہ ہوتا ہے اسی لئے ہم تجارتی جنگ کے متحمل نہیں  ہوسکتے۔ایسے میں  ضروری ہے کہ مودی حکومت تدبر سے کام لے اور مسئلہ کو حل کرنے کیلئے سرگرم ہوجائے۔
 مگر، چند باتیں  خوش اُمید بھی رکھتی ہیں ، جمہوریتیں  عموماً خود کو سدھارتی رہتی ہیں ۔ امریکہ اس عمل میں  کافی چست ہے۔ اس ملک کی پارلیمنٹ میں  بیٹھے ہوئے قانون سازوں  کو ہر دوسال بعد عوام میں  جانا پڑتا ہے۔ اگر ٹیریف کی وجہ سے امریکی عوام ناخوش ہوئے اور قانون سازوں  کو ایسا لگا کہ اس کا اثر الیکشن پر پڑے گا تو ان کی کوشش یہی ہوگی کہ صدر ٹرمپ پر دباؤ ڈالیں  اور انہیں  ٹیریف کا بحران ختم کرنے پر آمادہ کریں ۔صدر ٹرمپ کو اُن کی سننی ہی پڑے گی، وہ اُن کی درخواست کو پس پشت نہیں  ڈال سکیں  گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK