• Wed, 15 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

شیخ حسینہ اور بنگلہ دیش کا مستقبل؟

Updated: January 14, 2025, 1:27 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai

ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شیخ حسینہ ہندوستان کی ایک اور دلائی لامہ بن جائیں گی۔ انہیں بھی تبت سے نکالا گیا تھا ، انہوں نے بھی ہندوستان میں پناہ لی تھی لیکن آج تک حکومت ہند نے یہ اعلان نہیں کیا کہ وہ ہندوستان میں موجود ہیں کیونکہ دلائی لامہ کے پاس دنیا کا کوئی پاسپورٹ نہیں تھا ۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 شیخ حسینہ ڈھاکہ سے فرار ہوکر نئی دہلی میں  پناہ گزیں  ہوئیں ۔شیخ حسینہ کے ساتھ کیا ہوا ابھی اس کی کہانی ہم نہیں  بتا سکتے اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش کا سوشل میڈیا بزبانہ بنگالی ہے اور بدقسمتی سے ہمیں  بنگالی نہیں  آتی جو اس کا پورا حال آپ کو بتاسکیں  لیکن سوشل میڈیا پر ان کے دور حکومت میں  کی جانے والی زیادتیوں  کا بہت تفصیلی ذکر ہے اور رفتہ رفتہ یہ ہمیں  اور آپ کو معلوم بھی ہوجائے گا۔ اب اس کہانی کا ایک حصہ پہلے سن لیجئے۔ شیخ حسینہ کا مستقبل عجیب و غریب ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں  انہیں  اپنے یہاں  آنے سے روک دیا ہے ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ شیخ حسینہ یا تو بنگلہ دیش میں  رہ سکتی ہیں  یا پھر دہلی میں  جنہوں  نے انہیں پناہ دی ہے۔ اس سلسلے میں  مودی ٹیم کا قصہ بھی عجیب و غریب ہے۔ انہو ں نے شیخ حسینہ کو پناہ ضرور دی ہے لیکن بحیثیت پالیسی وہ اس کا اقرار بھی نہیں  کرسکتے کیونکہ اس طرح کا کوئی بیان ہندوستان کی پالیسی پر بہت برا اثر ڈالے گا اور پھر بنگلہ دیش سے جو رہے سہے تعلقات ہیں  وہ بھی ڈاواں  ڈول ہوجائیں  گے۔  شیخ حسینہ کا ہندوستان میں  کیا مستقبل ہوگا یہ بھی ابھی کہنے کی بات نہیں  ہے۔ ہمیں  ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شیخ حسینہ ہندوستان کی ایک اور دلائی لامہ بن جائیں  گی۔ انہیں  بھی تبت سے نکالا گیا تھا ، انہوں  نے بھی ہندوستان میں  پناہ لی تھی لیکن آج تک حکومت ہند نے یہ اعلان نہیں  کیا کہ وہ ہندوستان میں  موجود ہیں  کیونکہ دلائی لامہ کے پاس دنیا کا کوئی پاسپورٹ نہیں  تھا ۔ وہ بھی ہندوستان کے علاوہ کہیں  اور جا نہیں  سکتے تھے۔ کچھ یہی حال شیخ حسینہ کا بھی ہے، خیال کیجئے کہ سولہ دسمبر انیس سو اکہتر میں  مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن کر دنیا کے سامنے آیا تھا۔ اس دن بنگلہ دیش میں  ایک بڑا جشن منایا جاتا ہے جس میں  دوست ممالک اپنے وفد بنگلہ دیش میں  بھیجتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ بلاوا نریندر مودی کو بھی تھا انہو ں نے اس موقع پر ڈھاکہ کو کوئی وفد تو نہیں  بھیجا لیکن ایک پیغام ضرور بھیجا جس نے بنگلہ دیش میں  آگ لگا دی۔ بنگلہ دیش کے موجودہ سربراہ محمد یونس کو پیغام بھیجتے ہوئے نریند رمودی نے بنگلہ دیش میں  ہندوستانی فوج کے کردار کو بہت سراہا اور یہ سچ بھی ہے ہندوستانی فوج اگر ڈھاکہ نہ پہنچی ہوتی تو بنگلہ دیش کا قیام اور بھی دیر میں  عمل میں  آتا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہندوستانی فوج نے چاہے جو کچھ بھی کیا ہو لیکن ڈھاکہ کے اندر بنگلہ دیش کی مکتی واہنی نے ایک ایک گلی اور ایک ایک نکڑ پر پاکستانی فوج سے زبردست مزاحمت کی۔ محمد یونس کو یہ شکوہ تھا کہ نریندر مودی نے ہندوستانی فوج کی تعریف کرنے کے علاوہ مکتی واہنی کے ان جانبازوں  کا ذرا بھی ذکر نہیں  کیا جنہو ں  نے سونار بنگلہ بنانے میں  اپنی جانیں  ضائع کی تھیں ۔تاریخ سازوں  کا یہ کہنا ہے کہ اگر ہندوستانی فوج نہ بھی ہوتی تو شیخ مجیب کی تحریک اپنا اثر ضرور ڈالتی کیونکہ دنیا کی کوئی بھی تحریک جو عوامی سطح سے اٹھی ہو اسے بچانا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔یحییٰ خان کی حماقتوں ، جن کی وجہ ذوالفقار علی بھٹو کا بھڑکانا تھا، ایسٹ پاکستان کو مغربی پاکستانی سے اکٹھا کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ اس لئے شیخ مجیب کی تحریک کو کچھ دیر ضرور لگتی لیکن بنگلہ دیش بہرحال قائم ہوتا۔ کچھ اور اتفاقات ہیں  جن کا جاننا بہت ضروری ہے۔ بنگلہ دیش میں  بنگالیت کی لہر پاکستان کے بننے کے بعد سے ہی شروع ہوگئی تھی او راس کی ایک وجہ تھی۔ آبادی کے لحاظ سے اس وقت کے حساب سے پاکستان کی مکمل آبادی جتنی تھی اس کی ساٹھ فیصد آبادی بنگالی تھی اور اس وقت کے حساب سے بنگالی ہی پاکستان کی قومی زبان ہوسکتی تھی لیکن اس وقت بانی پاکستانی محمد علی جناح نے ایک غلطی کی ۔ انہوں  نے بنگالی زبان کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کے بجائے اردو کو پاکستان کی قومی زبان بنایا ، یہ بالکل درست نہیں  تھا۔ پنجابی زبان کا اپنا لٹریچر ہی اردو سے اگر کمتر نہیں  تو اردو کے برابر ضرور ہے۔ ہیر رانجھا، مرزا صاحبان اور سوہنی مہوال اس کی بہترین مثالیں  ہیں ۔ چند اور اتفاقات ہیں  جن کا جاننا بھی ضروری ہے۔ مثال کے طور پر متحد ہندوستان میں  مسلم لیگ کا قیام ہی ڈھاکہ میں  ہوا تھا اور بڑے بڑے بنگالی لیڈر جیسے ملا عبدالحمید بھاشانی وغیرہ مسلم لیگ میں  ہی شامل تھے لیکن آج یہ عجیب اتفاق ہے کہ اس مسلم لیگ سے بنگلہ دیشیوں  کا کوئی تعلق ہی نہیں  رہا۔ اس کے علاوہ مزے کی بات یہ ہے کہ آج بنگلہ دیش کے طالب علم یہ دعویٰ کررہے ہیں  کہ بنگلہ دیش کا نام تبدیل کردیا جائے۔اسے یا تو ایسٹ بنگلہ دیش کہا جائے یا اسلامی ری پبلک آف بنگلہ دیش کہا جائے۔ 

یہ بھی پڑھئے: دسمبر کی آخری تاریخ اور جنوری کی پہلی تاریخ

 شیخ مجیب بنگلہ دیش کے بابائے قوم کہلاتے ہیں  لیکن آج بنگلہ دیش کے عوام یہ چاہتے ہیں  کہ بنگلہ دیش کی کرنسی پر شیخ مجیب کی جو کرنسی ہے اسے ہٹا دیا جائے اور اس کی جگہ مکتی واہنی کے جانبازوں  کو دی جائے۔ یہ بات لوگوں  کے لئے بہت حیرت کی ہے کہ جس شیخ مجیب نے بنگلہ دیش بنایا تھا وہاں  ان کے خلاف اتنی نفرت کیوں  ہے، حالانکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیاء الرحمان نے جب شیخ مجیب اور ان کے خاندان کو قتل کیا تھا اور شیخ حسینہ کسی طرح سے وہاں  سےنکلنے میں  کامیاب ہوگئیں  تھیں  تو ہندوستان نے ان کے وزیر اعظم بننے سے پہلے تک ان کی زندگی کے تمام اخراجات پورے کئے تھے۔ جنرل ضیاءالرحمان کے بعدان کی بیوی خالدہ ضیاء کچھ دنوں  تک بنگلہ دیش تک وزیر اعظم رہیں  لیکن خیر سے وہ بھی بدعنوانی کے الزام میں  قید کردی گئیں ۔ آج وہ بھی آزاد ہیں  لیکن محمد یونس کی موجودہ حکومت میں  ان کا بھی کوئی عمل دخل نہیں  ہے۔آج بنگلہ دیش میں  یہ کہا جارہا ہے کہ انہیں  نہ شیخ حسینہ چاہئے اور نہ ہی خالدہ ضیاء چاہئے اور نہ کوئی بدعنوان سیاست داں ۔ اس کے بجائے وہ محمد یونس کا استقبال کررہے ہیں  کیونکہ محمد یونس کبھی سیاست داں  نہیں  رہے، وہ ایک ماہر معیشت تھے اور انہو ں نے بنگلہ دیشی خواتین کو ان کی غربت سے نکالنے کے لئے بہت قربانیاں  دی تھیں ۔ کہا جاتا ہے کہ آج بنگلہ دیشی خواتین جو مختلف کاموں  کی ماہر ہیں  ، محمد یونس کی ہی کاوشوں  کا نتیجہ ہیں ، چنانچہ یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ محمد یونس ابھی بنگلہ دیش کے سربراہ رہیں  گے اور شاید کچھ اور عرصہ بھی رہیں  کیونکہ بنگلہ دیش میں  ابھی کوئی سیاسی پارٹی سرگر م عمل نہیں  ہے۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ اگر محمد یونس ہندوستان سے یہ مطالبہ کررہے ہیں  کہ شیخ حسینہ ان کے سپرد کی جائے تو بھی انہوں  نے بنگلہ دیش میں  انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے لئے انہوں  نے شیخ حسینہ کی پارٹی کو بھی مدعو کیا ہے کیونکہ ان کی پارٹی پر کوئی بندش نہیں  ہے لیکن سب جانتے ہیں  کہ اگر شیخ حسینہ بنگلہ دیش میں  پہنچیں  تو ان کی زندگی اور ان کا مستقبل کیا ہوگا، یہ تو کہا ہی جاسکتا ہے کہ جب تک وہ زندہ ہیں  وہ بنگلہ دیش میں  قیدی بن کر رہیں  گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK