ملک کی معاشی ترقی کے حوالے سے حکومت اور مرکزی وزیروں کے بڑے دعوے ہیں،اعدادوشمار کی بازیگری سےمتاثر کرنے کی کوشش کی جاتی ہےجبکہ حقیقت حال اس کے برعکس ہے، ہم ۵؍ ٹریلین کی معیشت سے بہت دور ہیں۔
EPAPER
Updated: December 23, 2024, 1:26 PM IST | P. Chidambaram | Mumbai
ملک کی معاشی ترقی کے حوالے سے حکومت اور مرکزی وزیروں کے بڑے دعوے ہیں،اعدادوشمار کی بازیگری سےمتاثر کرنے کی کوشش کی جاتی ہےجبکہ حقیقت حال اس کے برعکس ہے، ہم ۵؍ ٹریلین کی معیشت سے بہت دور ہیں۔
ایس جے شنکر، امور خارجہ کے وزیر اور اشونی ویشنو، الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر دونوں مہذب ،تعلیم یافتہ اورنرم گو ہیں ۔ جے شنکر کا فارین سروس میں ایک ممتاز کریئر رہا ہے جہاں انہیں لبرل سمجھا جاتا تھا۔ اشوینی ویشنو وزیر ریلوے ، اس کے علاوہ اطلاعات و نشریات کے وزیر بھی ہیں ۔ وہ سول سروس میں تھے، وہاں سے استعفیٰ دیا ، پرائیویٹ سیکٹر سے وابستہ ہوئے، خود کاکاروبار بھی شروع کیا اور رکن پارلیمنٹ کے طور پر واپس آئے۔میں جانتا ہوں کہ ایس جے شنکر کو معاشیات میں دلچسپی ہے ۔ اشوینی ویشنو وارٹن بزنس اسکول سے معاشیات میں گریجویٹ ہیں ۔ دونوں ہندوستانی معیشت کی موجودہ حالت سے واقف ہیں اور انہوں نے ٹیلی ویژن چینل، این ڈی ٹی وی کے زیر اہتمام منعقدہ ایک حالیہ کانفرنس میں اس موضوع پر گفتگوبھی کی۔
نمبروں کا کھیل :نمبروں کے ذریعے ذہنو ں کو بہ آسانی متاثر کیاجاسکتا ہے ۔ جے شنکر نے (پروگرام میں ) انہی نمبروں کا سہارا لےکر معیشت کے حجم پر فخر کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا ’’اگر آپ ہندوستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو دیکھیں توآج ہم ۸۰۰؍ بلین کی تجارت کے ساتھ۴؍ ٹریلین کی معیشت بن چکے ہیں ...ــ‘‘ حقیقت اس سے کہیں مختلف ہے۔ ہم ابھی۴؍ٹریلین ڈالر کی معیشت نہیں ہیں ۔ہم۵؍ ٹریلین امریکی ڈالر کی معیشت کے گول پوسٹ کی طرف بڑھنے کیلئے ابھی ہچکولے ہی کھا ئےرہے ہیں ۔ وزیر خزانہ اور چیف اقتصادی مشیر گزشتہ ۶؍ سال میں تین بار یہ گول پوسٹ یعنی ۵؍ ٹریلین ڈالر کی معیشت کاہدف تبدیل کرچکےہیں ۔ تجارت کے محاذ پرجائزہ لیں تومعلوم ہوتا ہے کہ۲۴-۲۰۲۳ء کے آخر تک ہماری تجارتی مصنوعات کی برآمدات ۴۳۷ ؍ بلین امریکی ڈالر اور درآمدات ۶۷۷؍بلین امریکی ڈالر تھیں ۔ تجارتی خسارہ ۲۴۰؍بلین امریکی ڈالر رہا ۔ ہندوستان میں راہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ۲۲-۲۰۲۱ء میں ۸۴ء۸۴ ؍ بلین ڈالر سے کم ہوکر۲۴-۲۰۲۳ءمیں ۷۰ء۹۵؍ بلین ڈالر رہ گئیں ۔
وزیر خارجہ جے شنکر نے منافع دینے کی ملک کی صلاحیت اور غذا اور غذائیت کے معیار کے حوالے سے تعریف کی ۔ اگر ان کا اشارہ غریب خاندانوں میں تقسیم کئے جانے والے ۵؍ کلو گرام مفت اناج کی طرف تھا تومیں سمجھتا ہوں کہ یہ بڑے پیمانے پر بدحالی اور کم اجرت کا اشارہ ہے ،بالخصوص دیہی علاقوں میں ۔ انہوں نے کووڈ بحران کے دوران ویکسین کا ’سب سے موثرپروڈیوسر او ر موجود‘ ہونے پر بھی ہندوستان کی تعریف کی ۔ ہندوستان میں ایجاد کی جانے والی واحد ویکسین ’کوویکسین‘ تھی جو۸۰؍ فیصد تاثیر رکھتی تھی ۔ دوسری ویکسین ’کووی شیلڈ‘کی تاثیر تقریباً۹۰؍ فیصد تھی جسےآکسفورڈ ایسٹرا زینکا نے لائسنس دیا تھا ۔۲۰۰؍ کروڑ ویکسین کے جو ڈوز دئیے گئے تھے ان میں ۱۶۰؍ کروڑ ڈوز ’کووی شیلڈ‘ کے تھے۔
مضبوط ستون نہیں :اشوینی وشنو بھی یہ ذکر کرتے ہوئے کہ ہندوستان مسلسل ۶؍ سے۸؍ فیصد کی شرح سے ترقی کررہا ہے ، کافی خوش اور پُر جوش نظر آئے۔ اس موضوع پر اپنے خیالات کاا ظہارکرتے ہوئے انہوں نے `چار ستونوں کی نشاندہی کی: سرمایہ کاری، مینوفیکچرنگ، جامع ترقی اورسہولتیں ۔ تاہم، اگر ہم اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہےکہ ہندوستان کی حقیقی جی ڈی پی کی شرح نمو پچھلے۶؍ سال میں اوسطاً ۴ء۹۹؍فیصد رہی ہے لیکن اس میں کووڈ سے متاثرہ سال بھی شامل ہے۔ مرکزی حکومت اور سرکاری اداروں کی طرف سے کیپٹل اخراجات دراصل۲۰-۲۰۱۹ء میں جی ڈی پی کے ۴ء۷؍ فیصد سے کم ہو کر۲۴-۲۰۲۳ء میں ۳ء۸؍ فیصد رہ گئے جو وزیر اعظم مودی کی دوسری میعاد کار تھی)۔مینوفیکچرنگ کا بھی جی ڈی پی فیصد کے طورپرتعاون ۲۰۱۴ء کے ۱۵ء۰۷؍ فیصدسے ہو کر۲۰۱۹ء میں ۱۳ء۴۶؍فیصد اور۲۰۲۳ء میں ۱۲ء۸۴؍فیصد فیصد رہ گیا۔ مجموعی ترقی تفصیلی بحث کا تقاضاکرتی ہے جس کا اعتراف یا تردید نہیں کی جاسکتی ، اسلئے ایک مختصر مضمون میں اس کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔سہولتیں فراہم کرنے یا ضوابط کو آسان بنانے کا جہاں تک معاملہ ہے تو آج ۱۰؍ سال پہلے کے مقابلے زیادہ قواعد و ضوابط ہیں بالخصوص ریگولیٹری قوانین میں ۔ کسی بھی چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ یا کمپنی سیکریٹری یا قانونی پریکٹیشنر سے پوچھیں ، وہ آپ کو انکم ٹیکس، جی ایس ٹی، کمپنی لاء، آر بی آئی اور سیبی کے ضوابط وغیرہ سے متعلق بڑے پیمانے پر پیچیدگیوں — کے بارے میں بتائیں گے۔ کیا آپ نے حال ہی میں پاسپورٹ کیلئےدرخواست دی ہے، یا جائیداد کی منتقلی کیلئے’سیل ڈیڈ ‘ بنایا ہے، یا بینک اکاؤنٹ کھولا ہے؟ ان کا موں میں جتنی جگہوں پر دستخط کی ضرورت ہے ، اس پر میں حیرت زدہ ہوں ۔
یہ بھی پڑھئے : کیا نیا سال اور نیا امریکی صدرنئے حالات کو راہ دینگے؟
۱۹۹۱ء میں لبرلائزیشن کے بعدملک نے ترقی جو منزلیں طے کی ہیں اس پر مرکزی وزراءجے شنکر اوراشوینی ویشنو فخر کرسکتے ہیں ۔ یہ معاشی آزادی کی نئی صبح تھی ۔ اس کے بعد مشکل حالات آئے،بالخصوص ۱۹۹۷ء (ایشیائی مالیاتی بحران)،۲۰۰۸ء(بین الاقوامی مالیاتی بحران)،۲۰۱۶ء ( نوٹ بندی) اور۲۰۲۰ء ( کووِڈ بحران) ۔ اس کے باوجود نئی حکومتیں سابقہ حکومتوں پر کاندھوں کھڑی رہیں اوریکے بعد دیگرے اینٹیں رکھتی گئیں ۔کسی بھی حکومت نے ایسا نہیں کیا کہ سابقہ حکومت کے کاموں کو پوری طرح ختم کردے اور سب کچھ نئے سرے سے شروع کرے۔ حالانکہ مودی حکومت یہی بتانا چاہتی ہےکہ وہ سب کچھ نئے سرے سے کررہی ہے۔’کووی شیلڈ‘ کی مثال لے لیں ۔سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا کی بنیاد ۱۹۹۶ء میں رکھی گئی تھی ، اس ادارہ نے مسلسل اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کیا اور دواؤں کے کامیاب تجربات کئے۔ کووڈ بحران کے وقت یہ ادارہ ایسٹرا زینکاکی ٹیکنا لوجی استعمال کرنےکیلئے پوری طرح تیار تھا۔ اس نے ایسا کیا اور ویکسین تیار کرنے والے دنیا کے بڑے اداروں میں سے ایک بنا ۔ جن دھن اکاؤنٹس، آدھار اور موبائل کا مخفف (جام) بطور مثال لیں ۔ ’نو فریلس بینک اکاؤنٹ‘ (زیرو بیلنس اکاؤنٹ) کی بنیاد آربی آئی گورنرز ڈاکٹر ایس رنگراجن (۱۹۹۲ءتا۱۹۹۷ء) اور ڈاکٹر بمل جالان(۱۹۹۷ءتا۲۰۰۳ء)نے رکھی تھی جس کے تحت لاکھوں اکاؤنٹس کھولے گئے تھے۔ پہلا آدھار نمبر۲۹؍ستمبر۲۰۱۰ء کو ہندوستان کی منفرد شناختی اتھاریٹی(یو آئی ڈی اے آئی)کی رہنمائی میں جاری کیا گیا تھا۔ موبائل انقلاب اس وقت شروع ہوا جب۳۱؍ جولائی ۱۹۹۵ء کو پہلا کال کیا گیا ۔اگر آپ ملک کی معاشی حالت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو وزراءکے بیانات اورتقریریں ضرورسنیں لیکن معاشی صورتحال پر ہر مہینے آر بی آئی کے بلیٹن میں شائع ہونے و الا مضمون بھی پڑھ لیا کریں ۔