ہمیں مودی جی کی پالیسیوں سے نظریاتی اور سیاسی طور پر خواہ جتنا بھی اختلاف ہو لیکن ہم یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ انہوں نے پچھلے دس برسوں میں عرب دنیا کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔
EPAPER
Updated: January 01, 2025, 1:27 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai
ہمیں مودی جی کی پالیسیوں سے نظریاتی اور سیاسی طور پر خواہ جتنا بھی اختلاف ہو لیکن ہم یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ انہوں نے پچھلے دس برسوں میں عرب دنیا کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔
نریندر مودی کا کویت کا حالیہ دورہ کسی ہندوستانی وزیر اعظم کا ۴۳؍ برسوں میں کویت کا پہلا دورہ تھا۔ اندرا گاندھی (۱۹۸۱ءمیں ) کویت کا دورہ کرنے والی آخری ہندوستانی وزیر اعظم تھیں ۔ اس دورے کے ۴۳؍ برسوں بعد نریندر مودی نے جب ۲۱؍ دسمبر کے دن کویت کی سرزمین پر قدم رکھا تو گویا تاریخ رقم ہوگئی۔ انہوں نے اس اہم نکتے کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ عام ’’ہندوستانیوں کو کویت پہنچنے میں محض چار گھنٹے لگتے ہیں لیکن ہندوستان کے وزیر اعظم کو چار دہائیاں ‘‘ لگ گئیں ۔ در حقیقت یہ ماضی میں عرب ممالک کے تعلق سے ہندوستان کی خارجہ پالیسی کی کوتاہیوں پر مودی جی کا ایک لطیف طنز تھا۔
خلیج تعاون کونسل (GCC) خلیج میں واقع چھ ممالک سعودی عرب، متحدہ عرب امارات،بحرین، قطر، اومان اور کویت پر مشتمل ایک علاقائی سیاسی اور اقتصادی تنظیم ہے۔ مودی جی پچھلے دس برسوں میں ان میں سے پانچ رکن ممالک کا کئی بار دورہ کرچکے تھے۔ کویت واحد ملک تھا جہاں وہ اپنی پہلی اور دوسری میعادکے دوران نہیں جاسکے تھے۔کویت سے ہندوستان کے دیرینہ تعلقات رہے ہیں ۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب ہندوستانی روپیہ کویت میں بھی چلتا تھا۔ کویت کی کل آبادی چالیس لاکھ سے کچھ زیادہ ہے جس میں ہندوستانیوں کی تعداد دس لاکھ ہے۔ کویت اور بھارت کے درمیان دس ارب ڈالر سالانہ کی تجارت ہوتی ہے۔ یہ ہندوستان کا چھٹا سب سے بڑا کچے تیل کا اور چوتھا سب سے بڑا رسوئی گیس کا ایکسپورٹر ہے۔ان سب کے باوجود بھارت اور کویت کے رشتوں میں وہ گرم جوشی اور گہرائی نہیں تھی جو سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات کے ساتھ رشتوں میں نظر آتی ہے۔ اس سردمہری کی ایک اہم وجہ عراق کے ساتھ بھارت کے مضبوط رشتے اور صدام حسین کی حمایت تھی۔ ۱۹۹۰ء میں جب صدام حسین نے کویت پر چڑھائی کر کے قبضہ کرلیا تونئی دہلی نے اس کھلی جارحیت کی اس طرح مذمت نہیں کی جیسی ساری دنیا کررہی تھی۔ وزیر خارجہ اندر کمار گجرال کا بغداد میں صدام حسین سے گرم جوشی سے بغل گیر ہونا کویت کو ایک آنکھ نہیں بھایا۔ خیر اب یہ سب قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ دس دن قبل کویت میں مودی جی کا شاہانہ استقبال کیا گیا۔ مودی جی کو کویت کے امیر شیخ مشعل الاحمدالجابر الصباح کی موجودگی میں گارڈ آف آنر دیا گیا اور انہیں رخصت کرنے کیلئے کویت کے وزیر اعظم شیخ احمد العبداللہ الاحمد الصباح ائیر پورٹ پر موجود تھے۔مودی جی کے دورے کا اہم ترین پہلویہ تھا کہ بھارت اور کویت اپنے باہمی تعلقات کو ’’اسٹریٹیجک پارٹنرشپ‘‘کی سطح پر پہنچانے کیلئے رضامند ہوگئے۔
ایسا نہیں ہے کہ نئی دہلی کے رشتے مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ پہلے خراب تھے۔ رشتے پہلے بھی دوستانہ تھے تاہم وہ اتنے کثیر الجہت اور وسیع نہیں تھے۔اب ان رشتوں کے کینوس میں بے پناہ وسعت ہوگئی ہے اور سیاسی، سفارتی، سرمایہ کاری، دفاع اور سیکوریٹی تعاون بھی ان تعلقات کے اہم پہلو بن گئے ہیں ۔
ہمیں مودی جی کی پالیسیوں سے نظریاتی اور سیاسی طور پر خواہ جتنا بھی اختلاف ہو لیکن ہم یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ انہوں نے پچھلے دس برسوں میں عرب دنیا کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات کو نئی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔ یہ سیاسی پنڈتوں کے لئے ریسرچ کا ایک دلچسپ موضوع ہوسکتا ہے کہ کانگریس اور دیگر حکومتوں کے دور میں نئی دہلی نے خلیجی ریاستوں کو اس قدر نظر انداز کیوں اور کیسے کیا۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ مودی جی سے پہلے کسی ہندوستانی سربراہ مملکت نے بحرین کادورہ کرنا ضروری نہیں سمجھاتھا؟ کیا اس بات کی کوئی منطقی توجیہ ہوسکتی ہے کہ ۲۰۱۵ء میں مودی جی کے متحدہ عرب امارات کے پہلے دورے سے قبل ۳۴؍برسوں تک کسی ہندوستانی وزیر اعظم کو وہاں جانے کی توفیق نہیں ہوئی تھی؟ یوں تو پورا خلیجی خطہ ہی ہندوستان اور ہندوستانیوں کیلئے متعدد وجوہات سے بے حد اہمیت کا حامل ہے لیکن یو اے ای توکلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
عرب دنیا کو بھی اس بات کا اعتراف ہے کہ اس کے ہندوستان کے ساتھ کثیر الجہات تعلقات کو اس مقام پر پہنچانے میں مودی جی کی ذاتی شخصیت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اسی لئے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر، فلسطین اور ابھی حال میں کویت نے ہندوستانی وزیر اعظم نریندرمودی کو اپنے اپنے اعلیٰ ترین شہری اعزازات سے نوازا ہے۔یہ مودی جی کی شخصیت کا کرشمہ ہی ہے کہ ابوظہبی اور دبئی کے فرمانرواؤں نے اپنی سرزمین پر دو تین برسوں کے اندر دو عظیم الشان ہندو مندر تعمیرکرنے کی اجازت دے دی۔ آج ابوظہبی کا سوامی نارائن مندر اور دبئی کا سنگ مرمر سے بنا ہندو ٹیمپل ہندو عقیدت مندوں کے علاوہ دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن چکے ہیں ۔ ابوظہبی میں چند سال قبل تک ایک مندر بھی نہیں تھا۔ مودی جی کی درخواست پر یو اے ای کے شہزادہ زائد نے ۱۴؍ایکڑ بیش قیمت زمین مندر کے لئے مفت دے دی۔
یہ بھی پڑھئے: بشارالاسدکے زوال کے بعد مشرقِ وسطیٰ کے حالات
مودی جی کے دس سالہ دور اقتدار میں ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ کیسا سلوک ہورہا ہے اس بات سے ساری دنیا واقف ہے۔ امریکی بین الاقوامی مذہبی آزادی کمیشن (USCIRF) ہندوستان میں اقلیتوں کی مذہبی آزادی کی پامالی،فرقہ وارانہ ہلاکتوں ، لنچنگ، عبادتگاہوں کے انہدام اورمتعصبانہ قوانین کے نفاذ پر اپنی شدید تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے۔ ایک جانب ہندوستانی مسلمانوں کی یہ حالت زار اور دوسری جانب مودی جی کیلئے عرب دنیا کا یہ والہانہ پن اور یہ وارفتگی لوگوں کو حیران کررہی ہے۔ معروف تجزیہ کار ویر سنگھوی نے اس متضاد صورتحال پرروشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ عرب ممالک میں مودی جی کا جیسا والہانہ استقبال کیا جاتا ہے اسے دیکھ کر یہ صاف لگ رہا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو دنیائے اسلام سے کسی طرح کی یکجہتی یا حمایت حاصل نہیں ہورہی ہے۔ سنگھوی کے مطابق مشرق وسطیٰ کے ممالک ہندوستانی مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کو ہندوستان کا اندرونی معاملہ سمجھتے ہیں ۔ ہندوستانی مسلمانوں کو مودی سے شکایات ہوسکتی ہیں لیکن عرب حکمرانوں کو ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کوکشمیر کی خود مختاری کے خاتمہ پر پاکستان نے ساری مسلم دنیا میں خوب واویلا مچایا اس کے باوجود کسی عرب ملک نے مودی حکومت کے اس اقدام کی تنقید نہیں کی۔میرا خیال یہ ہے کہ بین الاقوامی تعلقات مذہبی جذباتیت کی بنیاد پر نہیں بلکہ عملیت، حقیقت پسندی اور باہمی مفادات کو پیش نظر رکھ کر قائم کئے جاتے ہیں ۔ ہندوستان جیسی بڑی جیو پالیٹیکل طاقت اور دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت کے ساتھ بہتر تعلقات اور تزویراتی شراکت داری خلیجی ممالک کے مفاد میں ہے۔