اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بشار الاسد کے زوال کے بعد اسرائیل کو مزید طاقت ملے گی تو یہ خیال غلط ہے مگر اسرائیل کو کم قوت سمجھنا بھی ٹھیک نہیں۔
EPAPER
Updated: December 31, 2024, 1:40 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai
اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بشار الاسد کے زوال کے بعد اسرائیل کو مزید طاقت ملے گی تو یہ خیال غلط ہے مگر اسرائیل کو کم قوت سمجھنا بھی ٹھیک نہیں۔
بشار الاسد کے فرار ہونے کے بعد نہ صرف شام بلکہ تمام مشرق وسطیٰ ایک سنگین بحران سے گزر رہا ہے۔ بشار الاسد کا فرار کسی مغربی سازش کا نتیجہ نہیں تھا اور اگر تھا بھی تو زمین پر اس کا کوئی شائبہ نہیں ملتا۔ یہ ایک سنگین حقیقت ہے کہ شام کے بہت سے شہری گزشتہ چند برسوں سے بے روزگاری اور مفلسی کی وجہ سے شام سے ہجرت اختیار کرچکے تھے۔ ان کی تعداد کم از کم تین لاکھ بتائی جاتی ہے۔ یہ لوگ عام طور پر مغربی ممالک میں جابسے ہیں جہاں یہ لوگ معمولی نوکریاں اور معمولی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ بہرحال زندگی کے لئے کوئی بہانہ تو چاہئے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ شام کے جو لوگ شام سے نکلے ہیں وہ کس کسمپرسی کے عالم میں نکلے ہیں ، نہ جانے کتنوں کی تو موت بھی ہوگئی۔ مگر اب یہ معلوم ہوا ہے کہ خود بشار الاسد نے اپنے عوام کے ساتھ کوئی مہربانی نہیں کی تھی۔ یہ ہم آپ کو بتا چکے ہیں کہ ہزاروں شامی ملک کے مختلف جیلوں میں قید تھے اور ان میں بھی عورتوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ یہی بات ہے کہ وہاں کے عوام شام کے انجام سے غمگین بھی ہیں لیکن بشار الاسد کے جانے سے مطمئن بھی ہیں ۔ آگے کیا ہوتا ہے یہ ابھی دیکھنا باقی ہے۔
بشار الاسد کے فرار کے بعد پہلی بات تو یہ ہوئی ہے کہ اس تمام علاقے میں جن بیرونی طاقتوں کا زور بڑھ رہا تھا اسے کافی دھچکا لگا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نام نہاد اسلامی ممالک یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کا مقابلہ صرف فوجوں سے کیا جاسکتا ہے لیکن یہ بات بالکل غلط ہے ، ان ممالک نے کبھی موساد جیسی ایجنسیوں کے کام کی خبر نہیں لی جو آج سے نہیں پچھلے کئی برسوں سے ان ممالک کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ آپ کو یہ بھی یاد دلادیں کہ ایران کے کئی بڑے فوجی افسر عراق میں مارے گئے اوراسرائیل نے اس کا کریڈٹ بھی لیا۔ شاید ایران یہ سمجھتا تھا کہ لبنان میں حزب اللہ کو مضبوط بنا کر اور یمن میں فوجی طاقت بڑھا کر وہ اسرائیل کا سامنا کرسکتے ہیں اور کسی حد تک یہ ہوا بھی۔ حز ب اللہ نے اسرائیل کی سرحدوں میں گھس کر وہاں کی فوجوں کو باہر نکلنے پر مجبور کردیا تھا لیکن اس تمام عرصے میں وہ یہ بھول گئے کہ اسرائیل نے اپنی سازشوں کے ذریعہ حسن نصراللہ کو ختم کردیا اور اب لبنان میں حزب اللہ کی طاقت محض برائے نام رہ گئی ہےتویہ ایک بڑا نقصان ہے۔ پہلے یہ خیال تھا کہ بشار الاسد کے فرار کے بعد اسرائیل اس علاقے میں مزید حملے کرے گالیکن ایسا نہیں ہوا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بشار الاسد کے زوال کے بعد اسرائیل کو مزید طاقت ملے گی تو یہ خیال بھی غلط ہے، اس کی چند وجہیں ہیں ، سب سے پہلی یہ ہے کہ اپنی تمام عادتوں کے باوجود ڈونالڈ ٹرمپ کو دنیا میں اینٹی وار یعنی جنگ مخالف سمجھا جاتا ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ دنیا میں اس وقت کہیں بھی جنگ ہو ، اس کی وجہ ان کے اندرونی حالات بھی ہیں اور بہت سی دیگر وجوہات بھی ہیں ۔
نو منتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ فلسطین کے طرفدار نہیں ہیں ۔ وہ ایران کی نیوکلیائی طاقت کو بھی پسند نہیں کرتے تھے اور ایسا وہ کئی بار کہہ بھی چکے تھے لیکن دو ایسی وجہ تھیں جن کے سبب ڈونالڈ ٹرمپ کو اپنا رویہ بدلنا پڑا۔ انہیں تمام خفیہ ایجنسیو ں نے یہ خبر دی کہ ڈونالڈ ٹرمپ ایران کی جن نیوکلیائی قابلیت کو ختم کرنے کی باتیں کرتے تھے وہ بہت مضبوط نہیں تھی۔ انہیں معلوم ہوا کہ ایران کی یہ طاقت بہت مضبوط چٹانوں کے نیچے دو سو گز بلکہ اس سے بھی زیادہ گہرائی میں دفن ہیں اور اگر کوئی طاقت ان چٹانوں کو ختم بھی کردے تو ایران کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ اس لئے وہ کہنے کو ضرور ایران کے خلاف کہتے رہے لیکن جانتے تھے کہ اس علاقے میں کسی جنگ کا ہونا بہت پریشان کن ہوگا۔ پہلے سعودی اور ایران میں نظریاتی یا آپ جو بھی کہہ لیجئے تفاوت کی وجہ سے جنگ کا سا عالم رہتا تھا حالانکہ نام نہاد عرب دنیا میں اس جنگ کی طاقت نہیں تھی۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اس کا جواب دینے کے لئے اپنے داماد جیرالڈ کشنیر کو متعین کیا تھا کہ وہ عرب دنیا میں یہودیوں کے خلاف مزاحمت کو ترک کرائیں ۔ اس کے لئےڈونالڈ ٹرمپ نے ایک معاہدہ بھی تیار کیا تھا جسے ابراہم پیکٹ یا معاہدۂ ابراہیم نام دیا گیا۔ ٹرمپ کی کوشش تھی کہ عربوں میں یہودیوں کے خلاف جو نفرت ہے اسے کم کرنے کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ عرب دُنیا میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ ابھی چاہے ان میں جتنے بھی اختلافات ہوں لیکن انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ دو نوں کے آباء و اجداد ایک ہی تھے۔ یہ معاہدہ کچھ دنوں تک تو بات چیت کا موضوع بنا رہا لیکن ڈونالڈ ٹرمپ کی اس سے پہلے والے الیکشن میں ہار کی وجہ سے یہ خود بخود ختم ہوگیا۔ حالانکہ اس میں بھی شبہ نہیں کہ سعودی عرب اور دنیا کے دوسرے مسلمان آج بھی یہودی تاجروں کے ساتھ تجارت کررہے ہیں لیکن اس بیچ میں فلسطین کا معاملہ اتنی شدت سے اٹھا اور عرب عوام نے بھی اس شدت سے اس کی حمایت کی کہ عرب حکمراں بھی گھبراگئے۔
یہ بھی پڑھئے : ڈاکٹرامبیڈکر کی توہین کا تنازع اور اس پر ردعمل
اس کے علاوہ ڈونالڈ ٹرمپ ایک اور بات سے بھی مطمئن تھے کہ اسرائیل اپنی طاقت اور امریکہ کی مدد کے باوجود چاروں طرف پھیلے ہوئے عرب مسلمانوں کی مجموعی طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہودیوں کی ساری دنیا میں جملہ آبادی ڈیڑھ کروڑ اور اس سے بھی کم ہے اور یہ تعداد روز بہ روز سکڑتی جارہی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ پتہ نہیں کتنے عیسائی ہیں یا کتنے نہیں ہیں ، آج تک ان کے چرچ جانے کی کوئی خبر سامنے نہیں آئی ہے لیکن وہ بحیثیت صدر اور بحیثیت عیسائی چاہے وہ کیتھولک ہوں یا پروٹسنٹ، انہیں یہ معلوم ہے کہ یہودی حضرت عیسیٰ کو مسیح نہیں مانتے او رکہہ چکے ہیں کہ یہ وہ مسیح نہیں ہیں جن کا ذکر زبور میں ہے اور بعد میں قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔ا س کے علاوہ ایک ایسی چیز ہے جو یقیناً عالمی حالات کو جاننے والے تو جانتے ہیں لیکن یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ یہودیوں سے ایک غلطی ہوئی۔ اسے غلطی بھی کہہ سکتے ہیں یا کچھ اور بھی، یہودی یہ مانتے ہیں کہ زبور میں جس واقعہ کا ذکر ہے اور جس کی تصدیق بعد میں قرآن الحکیم میں بھی کی گئی کہ حضرت موسیٰ جب اپنے قافلہ کے ساتھ کہیں جارہے تھے اور انہیں پیاس لگی تو اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوئی کہ وہ سامنے والی چٹان یا پتھر پر اپنا عصاماریں ۔ اس کے نتیجے میں بارہ چشمے پھوٹ نکلے۔ ان چشموں سے جن لوگوں نے پانی پیا تھا، یہودیوں نے کہا کہ یہودی صرف وہی ہونگے اور ان کی آل اولاد ہونگی جنہو ں نے ان بارہ چشموں میں سے کسی ایک سے بھی پانی پیا، یعنی اس طرح یہودیوں نے کسی دوسرے مذہب سے اپنے مذہب میں آنے والوں کا راستہ روک دیا۔ ظاہر ہے کہ ان چشموں سے پانی پینے والوں کی تعداد کم ہوتی چلی گئی اور بدستور کم ہوتی چلی جائے گی۔ کیونکہ کسی دیگر مذہب سے آنے کی اجازت نہیں تھی۔