• Wed, 23 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

ہند- پاک تعلقات: کیا برف پگھلی ہے؟

Updated: October 23, 2024, 2:36 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

جے شنکر نے اسلام آباد روانگی سے قبل ہی یہ واضح کردیا تھا کہ ان کے دورے کا مقصد پاکستانی لیڈروں کے ساتھ دوطرفہ معاملات پر تبادلہ خیال کرنا نہیں ہے۔اس تناظر میں اگر ہم اُن کے سفر کو دیکھیں گے تو ہمیں یہ اندازہ ہوگا کہ ان کا یہ دورہ کتنے امکانات روشن کرگیا ہے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 بین الاقوامی سفارت کاری کا یہ زریں اصول ہے کہ جو بات کہی جاتی ہے وہ اتنی اہم نہیں ہوتی  جتنی اہم وہ بات ہوتی ہے جو نہیں کہی جاتی ہے۔ فیض احمد فیض کا یہ مشہور شعر’’وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا/  وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے‘‘ اس بات کا گواہ ہے کہ یہ عظیم شاعر بھی اَن کہی باتوں کی اہمیت کے قائل تھے۔ میں اس مضمون میں جس اَن کہی بات کا ذکر کررہا ہوں وہ ’’ ناگوار‘‘ نہیں بے حد ’’خوشگوار‘‘ ہے۔ پچھلے ہفتے اسلام آباد میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں پاکستان اور ہندوستان کے لیڈران نے اپنی اپنی تقریروں میں جو کچھ کہا وہ  میری نگاہ میں اتنا اہم نہیں تھا جتنا وہ تھا جو انہوں نے کہنے سے گریزکیا۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ اس طرح کے تمام فورمس پر پاکستانی سربراہان کشمیر کے حوالے سے ہندوستان پر نکتہ چینی کرنے سے اور ہندوستانی نمائندے پاکستان پر دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام لگانے سے باز نہیں رہتے ہیں۔
آپ ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں جب بھی ہندوستان اور پاکستان کے لیڈران کسی بین الاقوامی کانفرنس میں حصہ لینے کے لئے ایک چھت کے نیچے اکٹھا ہوتے ہیں تو وہ اس پلیٹ فارم کو محاذ جنگ میں تبدیل کرنے  کے لئے بیتاب رہتے ہیں۔ ابھی چند ہفتے قبل پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جس جارحانہ اندا ز میں ہندوستان پر حملے کئے اور بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے جس طرح اینٹ کا جواب پتھر سے دیا وہ ساری دنیا نے دیکھا تھا۔ شریف نے دعویٰ کیا کہ فلسطینی باشندوں کی طرح جموں اور کشمیر کے عوام بھی ایک صدی سے آزادی اور حق خود ارادیت کے لئے جد وجہد کررہے ہیں۔ دوسرے دن جے شنکرنے اپنے جوابی حملے میں کہا کہ پاکستان دہشت گردی کو دوسرے ممالک کی بربادی کے لئے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہے، اب خود اس کا اپنا معاشرہ اس لعنت کا شکار ہوچکا ہے۔ انہوں نے یہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ پاکستان کے قبضہ والے کشمیر کو آزاد کرانا باقی رہ گیا ہے۔
اس لئے یہ بے حد خوش آئند بات ہے کہ ایس سی اوکے حالیہ اجلاس میں شہباز شریف نے کشمیر کا ذکر تک نہیں کیا۔ جے شنکر نے دہشت گردی کا تذکرہ تو کیا تاہم وہ تذکرہ ایس سی او کے چارٹر کے حوالے سے تھا جس میں پورے خطے کو تین برائیوں یعنی دہشت گردی، علاحدگی پسندی اور انتہا پسندی سے نجات دلانے کی بات کہی گئی ہے۔جے شنکر نے اسلام آباد پر براہ راست دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام نہیں لگایا۔ دونوں لیڈران کی یہ کوشش تھی کہ متنازع ایشوز ان کی تقریروں میں جگہ نہ پاسکیں۔ انگریزی روزنامہ ڈان کے مطابق اسلام آباد اجلاس کا سب سے’’ مثبت پہلو‘‘یہ تھا کہ اس میں ہندو پاک کے تعلقات پر ہمیشہ حاوی نظر آنے والی ’’جارحیت اور تلخ نوائی کی جگہ شائستگی اور خوش اخلاقی‘‘ نے لے لی تھی۔  
یہ صحیح ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے کشیدہ تعلقات میں کوئی بڑی پیش رفت نہیں ہوئی تاہم نجم سیٹھی جیسے سینئر پاکستانی صحافی کا خیال ہے کہ اسلام آباد میں برف ضرور پگھلی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دو بے حد قریبی ہمسایہ ممالک ہیں اسکے باوجود دونوں کے درمیان فاصلے بھی بے پناہ ہیں۔ ۲۰۱۹ء  میں دو ایسے واقعات ہوگئے جن کی وجہ سے ان فاصلوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔ پہلی بار جب فروری میں پلوامہ میں دہشت گردوں نے سی آر پی ایف کے ایک قافلے پر حملہ کرکے ۴۰؍ جوانوں کو ہلاک کردیا اور دوسری باراگست ۲۰۱۹ء  میں جب نریندر مودی حکومت نے آئین کے آرٹیکل ۳۷۰؍ کو اچانک ختم کرکے جموں و کشمیر کی خودمختاری اور خصوصی حیثیت ختم کردی۔ اس اقدام کے رد عمل میں پاکستان نے ہندوستانی ہائی کمشنر کوواپس بھیج دیا اور نئی دہلی کے ساتھ اپنے سفارتی اور تجارتی رشتوں کو منقطع کرنے کا اعلان کردیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے عہد کیا کہ جب تک بھارتی حکومت جموں وکشمیر کی خودمختاری دوبارہ بحال نہیں کردیتی  وہ بھارت کے ساتھ اپنے سفارتی، تجارتی اور دیگر رشتے استوار نہیں کریں گے۔بھارت بھی اس موقف پر ڈٹا ہوا ہے کہ جب تک پاکستانی سرزمین سے جموں و کشمیر میں ہونے والی دہشت گردی پر لگام نہیں لگائی جاتی ہے، اسلام آباد سے رشتے جوڑنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے۔ اس سخت رویے کے نتیجے میں سرحد کے دونوں جانب سرد مہری برقرار رہے۔ جب پاکستان کو ایس سی او کے ۲۳؍ ویں سربراہی اجلاس کی میزبانی کیلئے منتخب کیا گیا تو اتنا تو طے تھا کہ اس میں مودی جی کی شرکت کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ یہاں تک کہ بھارت کی شرکت پر بھی شک و شبہات کے بادل اس وقت تک منڈلاتے رہے جب تک جے شنکر کے اسلام آبادجانے کا سرکاری اعلان نہیں ہوگیا۔ ۹؍سال بعد کسی ہندوستانی وزیر خارجہ کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ تھا اس لئے اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔

یہ بھی پڑھئے: مہاراشٹر میں اَمیت شاہ کارگر ہونگے یا شرد پوار؟

ایس سی او جیسے ملٹی لیٹرل فورم پر دو رکن ممالک کے درمیان کسی موثر مکالمے کی گنجائش کافی کم تھی۔ جے شنکر نے اسلام آباد روانگی سے قبل ہی یہ واضح بھی کردیا تھا کہ ان کے دورے کا مقصد پاکستانی لیڈروں کے ساتھ دوطرفہ معاملات پر تبادلہ خیال کرنا نہیں۔اس تناظر میں اگر ہم جے شنکر کے سفر کو دیکھیں گے تو ہمیں یہ اندازہ ہوگا کہ ان کا یہ دورہ کتنے امکانات روشن کرگیا ہے۔  جے شنکر کے پاکستانی ہم منصب اسحاق ڈار کے ساتھ باضابطہ دو طرفہ مذاکرات نہیں ہوئے لیکن ان کی نہ صرف ڈار بلکہ وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ بھی غیر رسمی بات چیت ہوئی۔ پاکستانی وزیر خارجہ کے ساتھ منگل کو ڈنر کے وقت بھی جے شنکر کی گفتگو ہوئی جس میں وزیر داخلہ محسن نقوی بھی شامل ہوگئے۔ نقوی پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین بھی ہیں اسلئے میڈیا میں یہ قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ دونوں ممالک کی قومی ٹیمیں جلد ہی کرکٹ کے میدان میں ساتھ نظر آئینگی۔بدھ کے دن لنچ کے دوران جے شنکر اور اسحاق ڈار ایک بار بھی بات چیت کرتے نظر آئے۔  
پس نوشت: سابق وزیر اعظم نواز شریف نے جے شنکر کی اسلام آباد میں آمد کو اچھی’’ شروعات‘‘ قرار دیتے ہوئے دونوں ہمسایوں کو ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر دوبارہ امن مذاکرات شروع کرنے کا مشورہ دیا ہے۔نواز شریف نے ۲۵؍سال قبل وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ مل کر دیرینہ تنازعات ختم کرکے برصغیر میں دائمی امن قائم کرنے کی پیش رفت کی تھی۔ واجپائی اور شریف نے فروری ۱۹۹۹ء میں لاہور اعلانیہ پر دستخط کرکے ہند پاک دوستی کے ایک نئے عہد کا آغاز بھی کیا تھا۔ تاہم ڈھائی ماہ کے اندر جنرل پرویز مشرف نے کارگل میں ایک خفیہ ملٹری آپریشن کرکے اس تاریخی امن معاہدہ کو سبوتاژ کردیا۔ سوال یہ ہے کہ نواز شریف کی امن کی اس نئی تجویز کو کیا پاک ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی رضامندی حاصل ہے؟

pakistan Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK