• Wed, 23 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

مہاراشٹر میں اَمیت شاہ کارگر ہونگے یا شرد پوار؟

Updated: October 22, 2024, 1:27 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai

بی جے پی کو پارٹیوں میں لڑائی کرانے کی لت ہے لیکن اس بار صوبائی پارٹیاں پہلے سے زیادہ ہوشیار ہیں۔ ایسا لگتا ہے، کہ مہاراشٹر کی سیاسی پارٹیوں نے کچھ سبق حاصل کئے ہیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

آخر کار مہاراشٹرمیں  صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا اعلان ہو گیا اور الیکشن کی تاریخیں  بتادی گئی ہیں ۔ ہم ان باتوں  کی تفصیل میں  نہیں  جائیں  گے لیکن یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ مہاراشٹر میں  الیکشن ایک ہی روز میں  ہوں گے۔ الیکشن کے دنوں  میں  تجربے کرنا نئے کھیل کا تماشہ فراہم کرتا ہے توہندوستان کے الیکشن کمیشن کا کردار بھی مشکوک ہے، اس لئے ان کھیلوں کا اور بھی تماشہ بنتا ہے۔ جھار کھنڈ میں  الیکشن دو مرحلوں  میں  ہوگا، وہاں  اڈانی کا بہت زور ہے اور کئی لوگ اس کمپنی کی ہر حرکت پر نظریں  جمائے ہوئے ہیں ۔ مہاراشٹر میں  بھی امبانیوں  کا کافی زور ہے، لیکن ان کے بارے میں  کچھ ثبوت نہیں  دیئے جاتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ امبانیوں  کا کاروبار سارے ملک میں  پھیلا ہوا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ امبانیوں  کیلئے اگر مرکزی حکومت کی ایک اہمیت ہے لیکن مہاراشٹر میں  رہ کر وہ مہاراشٹر کی حکومت کو نظر انداز نہیں  کرسکتے۔
 اب ذرا مہاراشٹر کے گزشتہ الیکشن پر ایک نظر ڈالئے، وہ الیکشن ایک ایسے وقت ہوا تھا جب مودی اور امیت شاہ کی ٹیم جادوئی اثرورسوخ کی حامل تھی، ان کے پاس ای ڈی اور دوسرے ایسےمحکمے تھے جن سے وہ اپوزیشن کو دبا لیا کرتے تھے۔ اس ای ڈی کا استعمال اپوزیشن کے لئے بھی ہوا مگر اس الیکشن میں  محدود تھا۔ حالانکہ اس وقت بی جے پی کے لئے شیو سینا کی مدد کی سخت ضرورت تھی لیکن شیوسینا کوکن اور وسط مہاراشٹر میں  قائم تھی جبکہ بی جے پی تقریباً ہر ریاست میں  پھیلی ہوئی تھی، بی جے پی سے ناطہ توڑ کر شیو سینا میدان میں  آئی اس کے بعد ہی بی جے پی نے اپنا کھیل کھیلا، انہوں  نے سب سے پہلے شیو سینا میں  پھوٹ ڈلوائی۔ یاد رہے اس میں  بھی ای ڈی اور انکم ٹیکس کا بڑا ہاتھ تھا، این سی پی میں  کئی ایسے افراد ہیں  جو شیوسینا میں  آنے کیلئے تیار ہیں ،انہیں  ای ڈی کے نشانے پر لیا گیا اور مودی اور امیت شاہ نے ایسے افراد کو تلاش کیا، انہیں  ممبئی سے آسام تک لے گئےشیو سینا میں  پھوٹ پڑ گئی۔ کچھ ایسا ہی این سی پی  میں  ہوا۔ شرد پوار دیکھتے رہ گئے اور اجیت پوار کو بی جے پی لے اڑی۔  اجیت پوار نے شردپوار سے الگ ہو جانے کا اعلان کیا اور بی جے پی کے فرنویس سے ہاتھ ملا لیا لیکن شرد پوار اس سے کمزور نہیں  ہوئے حالانکہ بی جے پی سمجھ رہی تھی کہ اجیت پوار کو اپنے ساتھ ملانے سے این سی پی کے سربراہ شرد پوار کی قوت ختم ہوجائے گی لیکن ایسا نہیں  ہوا، وہ بالکل بھی بے چین نہیں  ہوئے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ اجیت پوار کو شرد پوار سے الگ کر کے ا ین سی پی کی طاقت ختم کردینگے لیکن ہوا کچھ اور۔ لوک سبھا کے الیکشن میں  شرد پوار کی این سی پی نے جوطاقت دکھائی اور اجیت پوار کی این سی پی کی جو ناقدری ہوئی اس سے بی جے پی کی سمجھ میں  آگیا کہ اجیت پوار کو ساتھ لینےسے مہاراشٹر جیتنے میں  کوئی مدد نہیں  ملی۔ حالانکہ بی جے پی کا پلڑا بھاری تھا لیکن اسمبلی انتخابات میں  بی جے پی کو مہاراشٹر میں  دقت محسوس ہورہی ہے۔
 بی جے پی کو پارٹیوں  میں  لڑائی کرانے کی لت ہے لیکن اس بار صوبائی پارٹیاں  پہلے سے زیادہ ہوشیار ہیں ۔ ایسا لگتا ہے، کہ مہاراشٹر کی سیاسی پارٹیوں  نے کچھ سبق حاصل کئے ہیں ،عام طو پر پارٹیوں  میں  سب سے زیادہ اختلاف سیٹوں  کی تقسیم پر ہوتاہے۔ مثال کے طور پر اس وقت صوبہ میں  تین اہم پارٹیاں  ہیں ، کانگریس ان میں  زیادہ اہم ہے۔ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ کانگریس صوبہ میں  بہت کمزور پارٹی ہے۔ اس میں  بھی کوئی شبہ نہیں  ہے۔ بی جے پی نے کانگریس کا قافیہ تنگ کررکھا تھا، پہلے کانگریس سب سے بڑی پارٹی تھی لیکن پھر پا رٹی پھوٹ کا شکار ہو رہی تھی، کانگریس کے ممتاز لیڈر ایک دوسرے سےدست و گریبان تھے، مہاراشٹر میں  اشوک چوہان کانگریس کے سب سے بڑے لیڈر سمجھے جاتے تھے لیکن ان میں  اور پرتھوی راج چوہان میں  ہی یہ طے نہیں  ہو پارہا تھا کہ مہاراشٹر میں کانگریس کی اگوائی کون کرے گا، یہ رسہ کشی اتنی بڑھی کہ بی جے پی کوموقع مل گیا، انہوں نے اشوک چوہان کو راجیہ سبھا کی ایک سیٹ دے کر توڑ لیا، اشوک چوہان بھی یہ سمجھتے تھے کہ کانگریس کی گرتی ہوئی ساکھ میں  کم از کم چھ سال تک راجیہ سبھا کی کرسی کی وجہ سے ان کے سیاسی مستقبل کی کچھ نہ کچھ ساکھ تو قائم رہے گی، پرتھوی راج نے بھی اپنی سیاسی بساط بچھا رکھی تھی ، انہیں  بھی مرکزی کانگریس سے کوئی مدد نہیں  مل رہی تھی لیکن راہل گاندھی کی پدیاترا نے سیاست کی بساط الٹ کر رکھ دی۔ اس کا اثر تو سارے ملک میں  تھا لیکن مہاراشٹر میں  اس یاترا نے کچھ زیاہ ہی اودھم مچایا، مہاراشٹر میں  راہل گاندھی کو وہ پذیرائی ملی جو کانگریس والوں  نے سوچی بھی نہیں  تھی، کروڑوں  نہیں  تو مہاراشٹر کے لاکھوں  لوگوں  نے راہل گاندھی کا زبر دست طریقے سے استقبال کیا۔ یہ اتنا حیران کن تھا کہ شرد پوار اور ادھو ٹھاکرے بھی ششدر رہ گئے تھے ۔یاترا میں  نہ تو خود شرد پوار شریک ہوئے نہ ہی اُدھو ٹھاکرے مگر دونوں  نے اپنے نمائندوں  کو اس میں  شامل ہونے کو کہا اور وہ شامل ہوئے۔ شرد پوار تو پہلے سے کانگریس کے ساتھ تھے مگر اُدھو نے بھی دکھا دیا کہ شیو سینا کو کانگریس قبول ہے اور کانگریس کو مہاراشٹر میں  وہ حیثیت مل چکی ہے یا مل سکتی ہے جو گزشتہ تین دہائیوں  سے بھی زیادہ اسے حاصل نہیں  تھی۔ 
یہ بھی پڑھئے: سیاسی حالات کا تغیر اور بھاگوت کی تقریریں

شیو سینا کے بعض لیڈر مثلاًسنجے راؤت نے کھل کر راہل گاندھی کی مدد کا اعلان کیا،یہ سب دیکھ کر مودی اور امیت شاہ کو اندازہ ہوا کہ مہاراشٹر میں  ’’مہا وکاس اگھاڑی‘‘ میں  توڑ پھوڑ آسان نہیں  بلکہ بہت مشکل ہے۔ بی جے پی نے یہ دیکھ کر اپنی دوسری چال چلی، اس نے امبیڈکرپر نظر ڈالی، لیکن یہ پارٹی مہاراشٹر میں  بہت کمزور تھی، اس کے ساتھ بی جے پی تھی نہ ہی کانگریس، اس لئے اسے قبول کرنا آسان نہیں  تھا لیکن لوگ کہتے ہیں  کہ ان کی پارٹی کے لیڈر اپنا سیاسی مستقبل طے کرنے کیلئے شرد پوار سے مل رہے ہیں ، شندے کی شیو سینا سے بھی کچھ بہت زیادہ امیدیں  نہیں  ہیں ۔اس بار کمزوریاں  بی جے پی میں  زیادہ ہیں ۔ امیت شاہ چانکیہ کہلاتے ہیں  مگر مہاراشٹر میں  انتخابی سیاست کے بہت بڑے ماہر شرد پوار موجود ہیں ۔ ایسے میں  امیت شاہ کیا کرینگے اور کیا نہیں  کرپائینگے، یہ وقت ہی بتائے گا۔ اُن کی پارٹی کے لوگ بھی جانتے ہیں  کہ شرد پوار کب کون سی چال چلیں  گے یہ کوئی نہیں  جانتا۔ سیاسی شطرنج اُن کا محبوب کھیل ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK