اسرائیل ہزاروں فلسطینیوں اور حماس کارکنان کو شہید کرچکا ہے لیکن غزہ کی ایک انچ زمین بھی حاصل نہیں ہوئی۔جہاں وہ قابض ہے وہاں اس کی حیثیت قابض ہی کی ہے۔
EPAPER
Updated: October 29, 2024, 1:48 PM IST | Hasan Kamal | Mumbai
اسرائیل ہزاروں فلسطینیوں اور حماس کارکنان کو شہید کرچکا ہے لیکن غزہ کی ایک انچ زمین بھی حاصل نہیں ہوئی۔جہاں وہ قابض ہے وہاں اس کی حیثیت قابض ہی کی ہے۔
چند دنوں پہلے اسرائیل کے سفاک وزیر اعظم نیتن بنجامین یاہوکے گھر پر بموں کے ایک زور دار دھماکے کے ساتھ حملہ ہوا تھا، وہ وہاں نہیں تھے مگر اس کی وجہ سے ان کی جان نکلتے نکلتے رہ گئی کیونکہ اُن کی رہائش گاہ پر حملہ کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس طرح اُنہیں للکارا گیا۔ اس پس منظر میں حماس اور حزب اللہ کے لیڈروں کو لے لیجئے کہ اُن پر پے در پے حملے ہوئے، اُنہیں شہید کیا گیا مگر نیتن یاہو اُن کی تحریک کو ختم نہیں کرسکے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ چند لیڈروں کو ہلاک کرنے سے تحریک کا خاتمہ نہیں ہوتا۔ جو تحریکیں عوامی کسوٹی پر پوری اترتی ہیں یا ان کی جڑ عوام میں ہوتی ہے، جن سے عوام کی جذباتی وابستگی ہوتی ہے، وہ چند لیڈروں کے مرنے سے نہیں مرا کرتیں ۔
کسی بھی سماج میں دانشوروں کا رول بہت اہم ہوتا ہے لیکن عوامی تحریکیں ایک لیڈر کے شہید ہونے کے بعد اپنے ہی اندر اس کا متبادل بھی ڈھونڈ لیتی ہیں ۔ حماس کے لیڈر اسماعیل ہانیہ اورحزب اللہ کے حسن نصراللہ کے شہید ہونے کے بعد ان کے متبادل تلاش کرلئے گئے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ لیڈروں کی شہادت کے بعد تحریک بے جان یا بے روح ہوگئی۔ عوامی تحریکیں ہر حال میں جاری رہتی ہیں ، فلسطین او رلبنان کی تحریک اب بھی زندہ ہیں بلکہ اور زور پکڑ چکی ہیں ، یہ سچ ہے کہ لیڈران ایسی تحریکوں کا بہت اہم حصہ ہوتے ہیں ، لیکن ان میں ایک لیڈر کے بعددوسرا لیڈر پیدا ہوجاتا ہے کیونکہ یہ عوامی تحریکیں عوام کی ہیں ۔اسماعیل ہانیہ اور حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد نئے لیڈر سامنے آجاتے ہیں ۔کبھی کبھی اس میں کچھ وقت ضرور لگتا ہے، لیکن یہ جگہ خالی نہیں ہوتی ۔
ہمیں یاد ہے اور آپ کو بھی یاد ہوگا کہ فلسطینی لیڈروں میں ایک شیخ یٰسین ہوا کرتے تھے جو بینائی سے محروم تھے اور وہیل چیر پر بیٹھ کر قیادت کیا کرتے تھے ،صیہونیوں نے انہیں بھی شہید کردیا تھا۔ اسی کے بعد حماس کی تحریک حرکت میں آئی اور آج اس تحریک نے اسرائیل کی نیندیں اڑا دی ہیں ۔یہ بھی ایک سچ ہے کہ اسرائیل ایک طاقتور ملک ہے، یہ طاقت اس کی اپنی نہیں ہے۔ اس کی طاقت اتنی ہی تھی کہ اس نے گزشتہ سال کے ستمبر میں ہزاروں حماس مجاہدین اور بے ضرر فلسطینیوں کو شہید کردیا، ایجنسیوں کی مدد سے لوگوں کی جان لینا بہت مشکل نہیں ہے لیکن عوامی تحریک کو مٹا دینا بہت مشکل ہوتا ہے۔جب حماس نے اسرائیل پر اندھادھند میزائل داغے تھے تو یہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کے لئے ایک سبق تھا۔
نیتن یاہو کو یہ سبق بھی ملا ہے کہ اب تک تو فلسطینی عوام ہی ان کے نشانے پر تھے لیکن حماس کے نشانے پر اسرائیل آگیا ہے۔ اسرائیل میں کئی وزیر اعظم ہوئےہیں ، ان میں اختلاف بھی تھا اور آپسی کشمکش بھی تھی لیکن وزرائے اعظم یا لیڈروں کو قتل کرنا اسرائیل کی سیاست کا حصہ نہیں تھا۔ اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم داوید بن گوریون تھےلیکن وہ صیہونی نہیں تھے۔لیکن ان کے بعد گولڈا مئیر وزیر اعظم بنیں جن کے زمانے میں عرب اور اسرائیل جنگ ہوئی تھی۔ ان کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بھی صیہونی نہیں تھیں ۔بی بی سی کے ایک اینکر جان ہارٹ سے ان کا بہت قریبی تعلق تھا اور ان کو وہ اپنا بیٹا سمجھتی تھیں ۔ہارٹ نے ایک کتاب بھی لکھی ہے ’صیہونیت ، یہودیت کی سب سے بڑی دشمن‘۔
جان ہارٹ بمبئی (ممبئی )بھی آئے تھے اور انہو ں نے اپنی کتاب اپنے دستخط کے ساتھ ہمیں بھی پیش کی تھی جو ہمارے شیلف میں اب بھی موجود ہے اور اس کتاب سے ہمیں اسرائیل کے بارے میں بہت معلومات ملتی ہیں ۔
اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم جو قتل ہوئے، اسحاق رابن تھے۔ وہ بھی فلسطینیو ں کے حق میں نہیں تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ان سے بیٹھ کر بات کرنا چاہئے، اسرائیل ان سےجنگ کرکے ہمیشہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ لیکن اسحاق رابن اسرائیل کے پہلے وزیراعظم تھے جنہیں قتل کیا گیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس قتل کے پیچھے بھی سی آئی اے کا ہاتھ تھا۔ اس کے بعد ایریل شیرون وزیر اعظم بنے جو خالص صیہونی تھے۔ ان کے زمانے میں فلسطینیوں پر بہت زیادہ مظالم ہوئے لیکن قسمت تو دیکھئے، وہ اچھے بھلے تھے، ایک دن نہ جانے انہیں کیا ہو ا اور وہ کوما یعنی غشی کی حالت میں چلے گئے، ان کے ہاتھ پاؤں ٹھیک ٹھاک تھے، پورا جسم سلامت تھا مگر وہ کوئی کام نہیں کرسکتے تھے، ان کا بہت علاج ہوا لیکن ان کی حالت میں بہتری نہیں آئی۔ انہوں نے اسی عالم میں دنیا کو خیرباد کہہ دیا۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ کی ۴۲۰۱۰؍ ویں شہادت پر بہن کیلئے بھائی کی یادیں
بنجامن نیتن یاہو بھی اسرائیل کے یہودیوں میں مقبول نہیں ہیں ۔ اسرائیل کے وہ یہودی جو عرب ہیں وہ آج بھی ان کے خلاف ہیں ۔ ہٹلر کی مثال یاد رکھنا چاہئے۔ وہ دنیا کو فتح کرنا چاہتا تھا لیکن اپنی ہی کھودی ہوئی قبر میں گڑنا پڑا، اور سبق تو دشمنوں سے بھی لینا چاہئے۔اسرائیل میں رہنے والے یہودیوں کی ایک بہت بڑی شاخ ایسی ہے جو صدیوں سے اس زمین پر رہتے آئے ہیں ۔ وہ یہودی ضرور ہیں لیکن نہ وہ صیہونی ہیں نہ نیتن یاہو کے طرفدار ہیں ۔ یہ عرب یہودی آج بھی خود کو عرب سمجھتے ہیں ۔ ہمارا خیال ہے کہ اسرائیل کی موجودہ سرکار میں ان یہودیوں کو کوئی رول نہیں دیا گیا۔ انہوں نے اپنی پارٹی بھی الگ بنالی ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اسرائیل اپنی جنگی طاقت کے باوجود ہزاروں فلسطینیوں اور حماس مظاہرین کو شہید کرچکا ہے۔ اپنی غیر معمولی جنگی طاقت کے باوجود اسرائیل غزہ میں ایک انچ زمین حاصل نہیں کرسکتا اور ساتھ میں یہ بھی سچ ہے کہ نیتن یاہو کی وجہ سے آج سارا یورپ یہودیوں کے خلاف ہے جو پہلے ان کے ساتھ ہوا کرتے تھے۔ نیتن یاہو نے یہ سبق بھی نہیں سیکھا کہ آج اسرائیل میں ان کی پارٹی کی اکثریت نہیں ہے۔ انہوں نے اسرائیل میں جو حکومت بنائی ہے وہ ایک مخلوط حکومت ہے۔ غزہ کی جنگ کے بعد اس حکومت کی طاقت بھی کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ نیتن بنجامن یاہو کو یہ سبق بھی یاد رکھنا چاہئے مگر لگتا نہیں کہ وہ سبق کو سبق سمجھتے ہیں ۔ اس لئے یہ بات یقینی لگتی ہے کہ وہ کچھ نہیں سیکھنے والے۔