مضمون نگار نے، جو کہ فلسطین کے ممتاز صحافی ہیں، اسرائیلی بمباری میں اپنی بہن کی شہادت پر لکھا ہے جو گزشتہ دنوں ۳؍ اکتوبر کو ہوئی۔
EPAPER
Updated: October 28, 2024, 2:01 PM IST | ramze barod | Mumbai
مضمون نگار نے، جو کہ فلسطین کے ممتاز صحافی ہیں، اسرائیلی بمباری میں اپنی بہن کی شہادت پر لکھا ہے جو گزشتہ دنوں ۳؍ اکتوبر کو ہوئی۔
’’آپ کی زندگیاں جاری رہیں گی، نئی تقریبات ہوں گی، آپ کے درمیان نئے چہرے ہوں گے، آپ کے بچوں کے چہرے جو آپ کے دلوں اور گھروں کو خوشیوں سے بھر دینگے۔‘‘
یہ وہ الفاظ ہیں جو میری بہن نے اپنی بیٹیوں میں سے ایک کو لکھ بھیجے تھے۔ ا س کے بعد میری بہن اللہ کو پیاری ہوگئی۔ ۳؍ اکتوبر کو اسرائیلی جنگی طیاروں نے جن دو ٹیکسیوں پر بمباری کی اُن میں سے ایک میں میری بہن تھی۔ یہ واردات خان یونس کے قریب بنی سہیلہ میں ہوئی۔ مجھے اب تک علم نہیں کہ وہ اسپتال جارہی تھی جہاں وہ برسرکار تھی، یا کام ختم کرکے اسپتال سے واپس آرہی تھی۔ مگر سچ پوچھئے تو وہ جارہی تھی نہ آ رہی تھی۔ وہ جاچکی تھی۔ اس دُنیا سے دور!
اُس کی موت کی اطلاع فیس بُک پر پوسٹ کئے گئے ایک اسکرین شاٹ سے ملی جس میں مذکورہ دونوں ٹیکسیوں کے شہداء کے نام درج تھے۔ یاد رہے کہ اسرائیل اب تک ۱۶۵؍ ڈاکٹروں سمیت ۹۸۶؍ طبی کارکنان کو اپنی جارحیت اور شیطنت کا نشانہ بناچکا ہے۔ فیس بُک کی اِس پوسٹ میں جو فہرست دی گئی تھی اس میں کئی نام تھے۔ میری بہن سوما محمد محمد بارود کا نام پانچواں تھا جبکہ غزہ کے اب تک کے شہداء میں اُس کا نام ۴۲؍ ہزار ۱۰؍ واں ہے (۴۲۰۱۰) مجھے اُس کے شہید ہوجانے کی خبر پر بھروسہ نہیں ہوا۔ مَیں اُسے فون کرتا رہا یہ سوچ کر کہ شاید بچ گئی ہو اور فون اُٹھالے مگر گھنٹی بجتی رہی، کسی نے فون اُٹھایا نہ دوسری جانب سے کوئی آواز ہی آئی جبکہ مَیں اِس اُمید میں تھا کہ اُس کی آواز سنائی دے گی جو معمول کے مطابق سلام کرے گی، پھر کہے گی ’’مرحبا ابو سمیع، کیسے ہو میرے بھائی!‘‘
مَیں اُس سے کئی بار کہہ چکا تھا کہ نیٹ ورک نہیں رہتا اس لئے دن میں ایک مرتبہ، صبح کے وقت، جب نیٹ ورک کسی حد تک مل جاتا ہے بس ایک پیغام بھیج دیا کرو کہ تم اچھی ہو، خیریت سے ہو۔ میری اس گزارش کے باوجود کئی کئی دن اُس کا مسیج نہ آتا۔ مگر جب بھی نیٹ ورک ملتا اُس کا طویل پیغام آتا جس میں کبھی تو کلام پاک کی کوئی آیت درج ہوتی، کبھی وہ اپنے معمولات کے بارے میں بتاتی، کبھی بچوں کی خیریت سے آگاہ کرتی، کبھی اپنے کسی پسندیدہ ناول کا ذکر کرتی اور کبھی کچھ اور کہتی۔ ہمارے لئے سوما ایک قدآور شخصیت تھی۔ اسی لئے جب اُس کی شہادت کی خبر ملی تو دل کانپ گیا اور کافی دیر تک یقین نہیں آیا۔ اس کے بچے اب بڑے ہوگئے ہیں مگر اُنہیں یتیمی کا احساس کھائے جارہا ہے۔ ہم بھائیوں میں بھی یہی احساس پایا جارہا ہے۔ مَیں نے اپنی کتاب ’’میرے والد مجاہد آزادی تھے‘‘ میں سوما کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ہمارے خاندان کا مرکزی کردار تھی۔ غزہ کے رفیوجی کیمپ میں ہمارے پورے خاندان کا سب سے بڑا سہارا وہی تھی۔ سوما تمام اولادوں میں سب سے بڑی اور والدین کی اکلوتی بیٹی تھی۔ وہ اُس وقت چھوٹی تھی جب میرے بڑے بھائی انور نے اقوام متحدہ کے ایک طبی مرکزپر دواؤں کی قلت کے سبب دم توڑ دیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب اُس نے درد اور تکلیف کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ اس کے بعد درد اور تکلیف دائمی رنج و غم میں تبدیل ہوکر اُس کے ساتھ ہی رہے۔
بھائی انور کے انتقال کے دو سال بعد ہمارے ایک اور بھائی کی آمد ہوئی تھی۔اُس کو بھی انور ہی نام دیا گیا تاکہ بڑے انور کی یاد تازہ ہوتی رہے۔ سوما اُسے بہت چاہتی تھی اور اپنے بھائی سے اُس کی دوستی کئی دہائیوں تک برقرار رہی۔ میرے والد نے اپنی زندگی کا آغاز بچہ مزدوری سے کیا تھا۔اس کے بعد وہ آزادیٔ فلسطین کی فوج میں شامل ہوگئے تھے۔ پھر جب غزہ میں مصری انتظامیہ آیا تب اُنہیں پولیس میں بھرتی ہونے کا موقع ملا۔حالات نے پھر پلٹا کھایا اور ایک بار پھر وہ مزدوری کرنے پر مجبور ہوئے کیونکہ اُنہوں نے اسرائیل کی مالی امداد سے قائم کی گئی غزہ پولیس فورس میں شامل ہونے سے انکار کردیا تھا۔ ۱۹۶۷ء کی جنگ کے بعد قائم کی گئی اس فورس کا نام نکسہ تھا۔ میرے والد ذہین اور با اُصول آدمی تھے۔ اُنہوں نے اپنے بچوں کو پُروقار زندگی عطا کرنے کے مقصد سے ہر قیمت چکائی اور سوما نے اُس وقت بھی، جب وہ بچی تھی، ہر قدم پر والد کو سہارا دیا۔ جب انہوں نے پھینکی ہوئی اشیاء کی نئے سرے سے پیکنگ کرکے اُنہیں رفیوجی کیمپ میں فروخت کرنے کا منصوبہ بنایا تب بھی سوما اُن کے ساتھ کام کرتی۔ اُس کے ہاتھ زخمی ہوجاتے، اُنگلی کٹ جاتی اس کے باوجود وہ والد کے ساتھ برابر لگی رہتی۔ والد صاحب کہتے تھے کہ سوما کی زخمی اُنگلی ہزار آدمیوں کے برابر ہے۔ شاید وہ یہ بات بار بار اس لئے دُہراتے تھے کہ ہم پانچ بھائیوں کو سمجھا سکیں کہ سوما ہی خاندان کی اصل شخصیت ہے۔ اُس کی حیثیت ہیروئن کی سی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: حاشئے پر رہنے والوں کی فکر کون کریگا؟
کئی سال بعد میرے والدین نے اُسے حلب (شمال مغربی شام کا مشہور شہر) بھیجنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرے۔ اُس نے تعلیم حاصل کی اور غزہ لوٹ آئی اور تیس سال غزہ کے لوگوں کا درد کم کرنے اور اُن کے زخم بھرنے میں گزارے مگر کبھی اپنے درد اور غم کا مداوا نہیں کرسکی۔ اُس کی ملازمت الشفاء اسپتال میں تھی۔ پھر ناصر اسپتال میں خدمات انجام دینے لگی۔ اس کے علاوہ بھی کئی طبی مراکز پر اُس نے کام کیا۔ پھر اُس نے فیملی میڈیسن کا کورس کیا اور ڈگری حاصل کرکے اپنا شفا خانہ کھول لیا۔ غریبوں کے علاج کے پیسے نہیں لیتی تھی اور جو لوگ اسرائیلی جارحیت کا شکار ہوتے اُن کیلئے جو کچھ بھی کرسکتی تھی، ضرور کرتی تھی۔
وہ غزہ کی اُن خاتون ڈاکٹروں میں سے ایک تھی جنہوں نے اس خطہ میں طبی اُمور کا انداز بدل دیا۔ ان لوگو ں کی زیادہ توجہ خواتین کو طبی امداد بہم پہنچانے پر تھی کیونکہ جنگ زدہ خطہ میں خواتین کی صحت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔
جب میری بیٹی ظریفہ، حالیہ جنگ سے کچھ عرصہ پہلے غزہ میں اپنی پھوپھی سوما سے ملنے گئی تو وہاں سے فون کرکے بتایا کہ جب سوما آنٹی اسپتال جاتی ہیں تو ڈاکٹر، نرسیں اور عملے کے دیگر لوگ اُس کے سامنے احتراماً کھڑے ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ یہ خوشی کی بات تھی۔ سوما نے بڑی تکلیفیں اُٹھائیں تب کہیں جاکر خان یونس میں ایک قاعدہ کا مکان خریدا۔ اُس کے شوہر قانون داں تھے اور بحیثیت پروفیسر قانون کے طلبہ کو پڑھاتے تھے۔ وہ غزہ یونیورسٹی کے اسکول آف لاء کے ڈین بھی ہوئے۔n (باقی کل کے انقلاب میں )