آج ان کالموں میں ایک ایسے مجاہد آزادی کا ذکر کیا جارہا ہے جس نے صرف چالیس سال کی عمر پائی مگر اس مختصر عمر میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ اُن کا نام تحریک آزادی کی تاریخ میں نمایاں طور پر درج ہوا۔
EPAPER
Updated: February 24, 2025, 1:37 PM IST | sarwarul-huda | Mumbai
آج ان کالموں میں ایک ایسے مجاہد آزادی کا ذکر کیا جارہا ہے جس نے صرف چالیس سال کی عمر پائی مگر اس مختصر عمر میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ اُن کا نام تحریک آزادی کی تاریخ میں نمایاں طور پر درج ہوا۔
گنیش شنکر ودیارتھی ۲۶؍اکتوبر ۱۸۹۰ء کو پیدا ہوئے اور ۲۵؍ مارچ ۱۹۳۱ء کو انتقال ہوا۔ اُنہیں ۴۰؍ سال کی عمر ملی لیکن یہ عمر اپنی سیاسی، سماجی اور تعمیری سرگرمیوں کی وجہ سے کئی عمروں کا پتہ دیتی ہے۔ کانپور میں ان پر ایک بھیڑ نے حملہ کر دیا تھا۔ دو فرقوں کے درمیان کی کشیدگی ان کی زندگی کے خاتمے کا سبب بن گئی۔ وہ لوک مانیہ تلک کو اپنا آئیڈیل مانتے اور گاندھی کی شخصیت سے بہت متاثر تھے۔ وہ ترک موالات اور جنگ آزادی کی تحریک کے ایک ہم فرد کے طور پر سامنے آئے۔ انہیں اینی بیسنٹ کی ہوم رول تحریک سے بھی سروکار تھا۔ کانگریس کی مختلف ذمہ داریاں بھی ان کے سپرد کی گئی تھیں ۔ ایک اہم حوالہ اخبار ’’پرتاپ‘‘ کی ادارت کی جس کا بنیادی سروکار مزدوروں اور کسانوں کے مسائل سے تھا۔
گنیش شنکر ودیار تھی نے ’’پرتاپ‘‘ میں بے خوفی کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ وہ پانچ مرتبہ جیل بھی گئے۔ ۲۴؍ اور ۲۵؍ جون ۱۹۲۹ء کو جواہر لال نہرو نے گنیش شنکر ودیارتھی کیلئے مقدمے میں گواہی دی تھی۔ اُن کی جیل ڈائری ۱۹۸۱ء میں شائع ہوئی۔ ۳۱؍ جنوری ۱۹۲۲ء سے ۱۷؍ مئی ۱۹۲۲ء تک کی تاریخوں پر مشتمل ہے۔لکھنؤ کے ایک جیل میں گزارے ہوئے دن اپنی راتوں کے ساتھ کس قدر روشن دکھائی دیتے ہیں ۔ اس دور میں سیاسی اور سماجی زندگی کا مطلب مشقت سے بھری زندگی تھی۔ احتجاج کا لازمی نتیجہ قید و بند کی زندگی تھی۔ یہ ایک معمول کا عمل تھا مگر ایسے لوگ بھی ہر دَور میں رہے ہیں جنہوں نے اپنے لئے مفاہمت کی صورت پیدا کر لی۔ مفاہمت کسی بڑے قومی مسئلے کیلئے کبھی کبھی ناگزیر بن جاتی ہے۔ اور تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مفاہمت کے پیچھے ذاتی مفاد نہیں تھا۔ پھر بھی جنگ آزادی کی تحریک یہ بتاتی ہے کہ مفاہمت سے جنگ آزادی کی تحریک کو کوئی نسبت نہیں ۔ ودیارتھی کی کیس ڈائری کو سریش سلل نے مرتب کیا ہے۔ الگ الگ تاریخوں میں لکھی گئی ڈائری الگ الگ دنوں کے حقائق اور ان سے وابستہ کیفیات کو پیش کرتی ہے۔ کہیں ڈائری مختصر ہو گئی ہے اور کہیں کچھ طویل۔کہیں یہ بھی لکھا ہے کہ آج کی تاریخ میں ایسا کچھ نہیں ہوا لیکن جس تاریخ میں کچھ نہیں ہونے کی اطلاع دی گئی ہے، وہ تاریخ بطور خاص قاری کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہے۔ اس کی وجہ اس تاریخ کی خاموشی ہے جو کسی اور تاریخ کے ساتھ مل کر کچھ زیادہ پرشور ہو گئی ہے۔ میں نے ان تاریخوں کو ذرا ٹھہر کر دیکھا ہے جن کے آگے پیچھے حالات کی تفصیل ہے اور اس تفصیل میں وہ کیفیت بھی ہے جس کا تعلق جیل کی مشقت بھری زندگی سے ہے۔ پہلی ڈائری کے اوپر ۳۱؍ جنوری ۱۹۲۲ء کی تاریخ درج ہے۔ ۲۰۲۵ء کی ۳۱؍ جنوری کچھ دنوں پہلے ہی گزری ہے۔ میں نے یہ تاریخ ۳۱؍ جنوری ۲۰۲۵ء کو دیکھ لی تھی۔ ڈائری کی تاریخ اپنی ہلکی سیاہی کے ساتھ ۳۱؍ جنوری ۲۰۲۵ء کی تاریخ کو وہ کہانی سناتی ہے جو یوں تو ایک چھوٹی سی کتاب میں دبی ہوئی ہے لیکن اسے پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کہانی پرانی کہاں ہوئی ہے۔ جس مفاہمت کی بات میں نے اوپر کی ہے اس کا ذکر گنیش انکل ودیار تھی نے ان الفاظ میں کیا ہے:
’’آج شام کو موتی لال جی کے ادھر سنا کے ملیح آباد میں سے جو ۵۴؍ لوگ آئے تھے، ان کو سزا مل چکی اور اب ان پر سختی کی جا رہی ہے۔ عام قیدیوں کے ساتھ جو سختیاں نہیں ہوتی ہیں ، وہ ہو رہی ہیں اور ان سے کہا جا رہا ہے کہ شہر والے اچھی طرح ہیں ، تم جن کے بھروسے پر چلے ہو وہ تمہاری خبر ہی نہیں لیتے۔ تم معافی مانگ لو۔ اس پر کچھ لوگ معافی مانگنے کیلئے تیار بھی ہو گئے ہیں ۔ کچے آدمی اور کچے ڈھنگ کا یہ نتیجہ ہے۔ ’’کچے آدمی اور کچے ڈھنگ کا نتیجہ ہے‘‘ یہ جملہ کتنا سادہ ہے، لفظ کچا اپنے اندر سیاسی تاریخ میں معافی کی روش کو چھپائے ہوئےہے۔ گنیش شنکر کی جیل کی پہلی ڈائری میں معافی مانگنے کا ذکر یہ بتاتا ہے کہ جنگ آزادی اور جیل کی زندگی کے درمیان دو ہی راہیں ہیں ، ایک راہ مسلسل احتجاج کی ہے، دوسری معافی مانگنے کی۔
گنیش شنکر ودیار تھی کئی خطوں میں خط کا ذکر کرتے ہیں ۔کبھی کوئی خط جیل کا ملازم پڑھنے کو دے دیتا ہے اور کبھی خط کے آنے کی خبر نہیں ملتی۔ وہ ڈائری میں اہل خانہ اور پڑوس کے افراد کا بھی ذکر کرتے ہیں ۔ جیل کی زندگی کتنی انفرادی اور کتنی اجتماعی ہے۔ انہیں خبر ملتی ہے کہ کس جیل میں کہاں سے لوگ لائے گئے ہیں ۔ کبھی وہ ہتھکڑی کا ذکر کرتے ہیں اور بیڑیوں کا بھی۔ کیا وقت تھا کہ ایک جیل کا قیدی دوسرے جیل کے پاؤں کی زنجیر اور ہاتھوں کی ہتھکڑی کی آواز اس کی تنگی اور وسعت کو محسوس کر رہا تھا اور ایک معنی میں دیکھ بھی رہا تھا۔ جیل کی چھوٹی چھوٹی باتیں آج کتنی اہم معلوم ہوتی ہیں ۔ خطوط، اخبار کھانے کی اشیاء،اور جیل کی زندگی سے وابستہ کچھ دوسری باتوں کے درمیان گاندھی جی کا ذکر اس دَور کی زندگی کو فکری اور تعمیری اعتبار سے غیر معمولی طور پر بلند کر دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ترقیاتِ انسانی کے معیارات اور ہم
۱۶؍ جنوری ۱۹۲۲ء کی ڈائری میں لکھتے ہیں : ’’آج سے پھر چھوٹنے کا شوشہ چھوٹا ہے۔ خطوں میں مالوئے کانفرنس کی بات نکلی ہے۔ ادھر ٹنڈن جی کے بیٹے نے لکھا، اس پر چھوٹنے چھوٹنے کی آواز پھر اٹھی ہے۔ کوئی کوئی تو گاندھی جی کے اعتماد کو برا کہتے ہیں لیکن چھوٹنے کے خیال تک سے بہت خوش ہیں ۔ کانگریس کمیٹی دہلی میں ۲۴؍ تاریخ کو بیٹھے گی۔ اس دن بارڈولی میں طے کی ہوئی باتوں کو پاس کرے گی۔ اس کے بعد جو چاہے سو ہو، اس سے پہلے تو کچھ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ کل بھوکا رہا تھا، شام کو کھچڑی کھائی، آج ڈاکٹر نے دست کے لئے دوا دی۔ دو بجے کھچڑی کھائی لیکن دست نہیں ہوا۔ کل سے انگریزی دوا کے چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔‘‘
یہ زندگی ہے اور زندگی کا وہ تصور بھی جو ذات کو عبور کرتے ہوئے دور نکل جاتی ہے۔ ڈائری چاہے گنیش شنکر ودیارتھی نے جس وقت بھی لکھی ہو، فضا تو جیل ہی کی تھی۔ ڈائری میں وقت کچھ اس طرح داخل ہوا ہے کہ جیسے اسے اپنے وقت کے ساتھ الگ کرنا ٹھیک نہیں ۔ مگر ڈائری کا وقت کب تک اور کہاں تک اپنے وقت کی حفاظت کر سکتا ہے۔ ڈائری کا وقت ایک طرح سے اپنی مشقت اور اذیت سے بھری ہوئی زندگی کے ساتھ بہت توانا بھی ہے اور روشن بھی۔ اس وقت سے اپنے وقت کا رشتہ اسی وقت قائم ہو سکتا ہے جب خود کو ڈائری کی فضا میں لایا جائے۔