• Wed, 12 February, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

عام آدمی سے دوری کیجریوال کو مہنگی پڑی

Updated: February 12, 2025, 1:51 PM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

کیجریوال کی اناپسندی اور رعونت ہی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے دلی انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے قبل ہی یہ اعلان کردیا کہ ان کی پارٹی تن تنہا لڑے گی۔ اگر کانگریس کے ساتھ عام آدمی پارٹی کا انتخابی سمجھوتہ ہوگیا ہوتا تورزلٹ کچھ اور ہوتا۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 عام آدمی پارٹی کے سربراہ اور دلی کے سابق وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کو ان کی رعونت لے ڈوبی۔ کیجریوال جو خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے لگے تھے یہ بھول گئے کہ ہر دور کے نپولین کو واٹر لو کا سامنا کرنا پڑتاہے۔کیجریوال نے متعدد بار اپنی تقریروں  میں  یہ دعویٰ کیا کہ نریندر مودی جی اس جنم میں  انہیں  یا عام آدمی پارٹی کو دلی میں  نہیں  ہراسکتے ہیں ۔ مودی جی نے اسی جنم میں  ان کی پارٹی کو بھی اور انہیں  بھی ہرا کر یہ دکھا دیا کہ مودی کے لئے کچھ بھی ناممکن نہیں  ہے۔ مودی جی جیسے منجھے ہوئے سیاستداں  کو جو تیرہ برسوں  تک گجرات پر حکمرانی کرنے کے بعد پچھلے گیارہ برسوں  سے پورے ملک پر راج کررہے ہیں ، اس طرح کا چیلنج صرف وہی شخص دے سکتا ہے جس کا واقعی دماغ خراب ہو یا اقتدار کے نشے نے جس کا دماغ خراب کردیا ہو۔
 کیجریوال کی اناپسندی اور رعونت ہی تھی جس کی وجہ سے انہوں  نے دلی انتخابات کی تاریخوں  کے اعلان کے قبل ہی یہ اعلان کردیا کہ ان کی پارٹی تن تنہا لڑے گی۔ اگر کانگریس کے ساتھ عام آدمی پارٹی کا انتخابی سمجھوتہ ہوگیا ہوتا تورزلٹ کچھ اور ہوتا۔ اسمبلی یا تو معلق ہوتی یابی جے پی بڑی مشکلوں  سے میجک فیگر تک پہنچ پاتی۔ یہ بھی ممکن تھا کہکیجریوال چوتھی بار بھی وزیر اعلیٰ کے مسند پر براجمان ہوجاتے کیونکہ انتخابی ریاضی میں  دو اور دو ہمیشہ چار ہی نہیں  ہوتے ہیں ۔ لیکنکیجریوال کا دماغ تو ساتویں  آسمان پر تھا۔
 کیجریوال ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، مہذب، خوش اخلاق اور خوش گفتار انسان ہوا کرتے تھے۔اسی لئے لوگوں  کو پندرہ سال قبل سیاست میں  ان کی آمد خوشگوار ہوا کا جھونکا لگی۔ ان کی باتوں  سے عام سیاستدانوں  جیسی مکاری نہیں  بلکہ سچائی جھلکتی تھی۔ ملک کے بوسیدہ سڑے گلے سسٹم کو بدلنے کے ان کے وعدوں  پر عوام نے یقین کرکے انہیں  ایک بار نہیں  تین تین بار مینٖڈیٹ دیا۔۲۰۱۳ء   میں  عوام کی اس بے پناہ حمایت کے سہارےکیجریوال نے شیلا دکشت جیسی طاقتور اور مقبول خاتون کو جو تین تین بار دلی کی وزیر اعلیٰ رہ چکی تھیں  پچیس ہزار ووٹوں  سے ہرادیا۔کیجریوال نے نہ صرف  دکشت کے سیاسی کیرئیر کاخاتمہ کردیا بلکہ  دلی میں  کانگریس کی کمر توڑ کررکھ دی۔ اس کے بعد دلی والوں  نےکیجریوال کی جھولی ووٹوں  سے بھر دی۔ ۲۰۱۵ء  میں  ۷۰ میں  ۶۷؍ سیٹیں  عام آدمی پارٹی کو دے دیں  اور ۲۰۲۰ء  میں  ۶۲؍   سیٹیں ۔بے پناہ عوامی حمایت سے کیجریوال کا دماغ ۲۰۱۵ء  میں  ہی خراب ہونے لگا۔ انہوں  نے پرشانت بھوشن اور یوگیندر یادو جیسےپارٹی کے بانیوں  کو پارٹی سے نکال دیا۔ 
  کیجریوال نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک کی سیاست کو بدل کررکھ دیں  گے لیکن ہوا اسکے برعکس۔ سیاست نے کیجریوال کو بدل کررکھ دیا۔وہ شخص جو آدرشوں  اور اصولوں  کی بات کرتا تھا، قدم قدم پر ان آدرشوں  اور اصولوں  سے سمجھوتہ کرنے لگا۔ وہ شخص جو کانگریس کے لیڈروں  پر بدعنوانی اور کرپشن کے الزامات لگاکر جیل بھیجنے کی دھمکیاں  دیتا تھا، وہ اور اس کی کابینہ کے وزرا گلے گلے تک کرپشن کی دلدل میں  دھنستے چلے گئے اور انہیں  سلاخوں  کے پیچھے جانا پڑا۔
 عوام کو اروند ک کیجریوال کی جس ادا نے سب سے زیادہ اپنا گرویدہ بنایا تھا وہ تھی ان کی سادگی۔ ایک سیدھے سادھے مڈل کلاس نوکری پیشہ شخص کا ان کا امیج ان کا سب سے بڑا اثاثہ تھا۔وہ عام آدمی کی طرح سہل زبان بولتے تھے۔ بھاشن نہیں  دیتے بلکہ لوگوں  سے براہ راست مکالمہ کرتے تھے۔ مختصریہ کہ کسی زاویے سے وہ ایک روائتی نیتانہیں  لگتے تھے۔ اسی لئے عوام کا اعتماد جیتنے میں  انہیں  نہ زیادہ محنت لگی اور نہ ہی زیادہ وقت۔ایک عام آدمی  کیجریوال کو ایک عام آدمی ہی سمجھتا تھا اوراسے لگتا تھا کہ دلی پر اسی کی حکومت ہے۔
 لیکن وزیر اعلیٰ کی گدی پر بیٹھنے کے بعد ان کی شخصیت میں  بہت سی تبدیلیاں  رونما ہوگئیں ۔عام آدمی پارٹی کے پہلے انتخابی منشور میں  لکھا تھا کہ کیجریوال وی آئی پی کلچر کو نہیں  اپنائیں  گے۔ وہ نہ سرکاری بنگلہ لیں  گے اور نہ ہی لال بتی والی سرکاری گاڑی۔ لیکن ۲۰۱۳ء   میں  وزیر اعلیٰ بنتے ہی رہائش کے لئے انہوں  نے بھگوان داس روڈ پر واقع پانچ پانچ بیڈ روم والے دو قیمتی ڈپلیکس فلیٹ منتخب کئے۔ اپوزیشن اور خود ان کی پارٹی کے لیڈروں  نے جب عام آدمی کے وزیر اعلیٰ کے اس شاہانہ شوق پر تنقیدیں  شروع کردیں  تو کیجریوال نے خاموشی سے فیصلہ ترک کرکے سول لائنز کے ایک چھوٹے سے گھر میں  رہنے کا فیصلہ کیا۔۲۰۱۵ءمیں  جب بھاری اکثریت سے وہ دوبارہ منتخب ہوئے تو عالیشان گھر کا کیڑا پھر کلبلایا اور اس بار ان کی نظر انتخاب سول لائنز میں  واقع چھ فلیگ اسٹاف روڈ کے عالیشان بنگلہ پر پڑی۔ ۲۰۲۰ء    میں  تیسری بار وزیر اعلیٰ بننے کے بعد کیجریوال نے اس بنگلہ کی بڑے پیمانے پر تزئین و آرائش کروائی جس پر CAG کی رپورٹ کے مطابق ۳۳؍  کروڑ کا خرچ آیا۔ بی جے پی نے شراب گھوٹالوں  کے علاوہ جس ایشو کو  کیجریوال کے خلاف سب سے زیادہ موثر انتخابی ہتھیار بنایا وہ ان کا یہ بنگلہ تھا جسے مودی جی طنز  سے  ’’شیش محل‘‘کہتے ہیں ۔ اکتوبر میں  ضمانت پر رہا ہونے کے بعد کیجریوال نے وزیر اعلیٰ کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور وہ عالیشان بنگلہ بھی چھوڑ دیا لیکن اس بنگلہ نے ان کا پیچھا نہیں  چھوڑا۔ ان کی پارٹی کا بیڑہ غرق کرنے میں  اس بنگلہ کا بھی ہاتھ ہے۔

یہ بھی پڑھئے: بیانات کی دلدل اور صدر ٹرمپ

 وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے کلکتہ کے کالی گھاٹ علاقے کی ایک تنگ گلی کے ایک معمولی سے کھپریل مکان میں  ایک غریب گھرانے میں  آنکھیں  کھولی تھیں ۔ اس مکان کے عقب میں  ایک بڑابدبودار نالہ بہتا ہے۔ ۲۰۱۱ء  میں  ترنمول کانگریس جب بنگال میں  اقتدار میں  آئی تو سرکاری پروٹوکول اور سیکورٹی کے مدنظر وزیر اعلیٰ کی رہائش کے لئے علی پورمیں  واقع ایک وسیع وعریض بنگلہ کا انتخاب کیا گیا۔ علی پور کلکتہ کا وہ پرتعیش اور سب سے مہنگا علاقہ ہے جہاں  برلا اور گوئنکا جیسے ارب پتی صنعت کاررہتے ہیں ۔ لیکن ممتا نے وہاں  منتقل ہونے سے یہ کہ کر انکار کردیاکہ عوام سے ان کا رابطہ کٹ جائے گا۔کاش  کیجریوال بھی یہ بنیادی سچائی سمجھ لیتے اور راج محل میں  رہنے کی ضد نہ کرتے۔جب کوئی لیڈر اپنی core constituency سے دور ہوجاتا ہے تو وہ یہ کیوں  نہیں  سوچتا ہے کہ اگر اگلے الیکشن میں  اس کی core constituency بھی اس سے دور ہوگئی تو اس کا کیا ہوگا؟  کیجریوال دلی کے کم آمدنی والے شہری طبقے کے لوگوں  کی امیدوں  کا مرکز بن کر ابھرے تھے۔صفائی کرمچاریوں ،آٹو ڈرائیوروں  اور ان جیسے محنت کش شہریوں  کے مسیحا کو چاہئے تھا کہ وہ دیدی کے نقشِ قدم پر چلتے اور غازی آباد کے اپنے اسی اپارٹمنٹ میں  رہتے جہاں  اقتدار میں  آنے سے قبل رہا کرتے تھے۔اس طرح ان کا امیج بھی قائم رہتا اور حکومت بھی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK