صدرڈونالڈ ٹرمپ اور نیتن یاہو نے ایک پریس کانفرنس کی اورڈونالڈ ٹرمپ نے یہ کہا کہ غزہ خالی کرالیا جائے، ان کا یہ بیان سن کر دنیا میں ہی نہیں خود امریکہ میں بھی سنسنی جیسی سنسنی پھیل گئی۔ اس پر ان کی پارٹی نے یہ خیال ظاہر کیا کہ یہ بیان دے کر صدر ڈونالڈ ٹرمپ خود ہی بیانات کی دلدل میں پھنستے جارہے ہیں۔
یہ تو آپ جانتے ہیں کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ بیانات دینے کے عادی بلکہ مریض ہیں ، الیکشن جیتنے کے بعد کوئی دن اور کوئی وقت ایسا نہیں گیا جب انہوں نے کوئی نہ کوئی بیان نہ دیا ہو لیکن ایک عجیب بات ہے کہ جس طرح سابق صدر جوبائیڈن بات کرتے کرتے بھول جاتے تھے اسی طرح صدر ڈونالڈ ٹرمپ بھی بیان دیتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں اور ان کی بات کہاں تک جائے گی۔ اس میں شبہ نہیں کہ انہوں نے غزہ میں اسرائیلی مزاحمت کو روک دیا اور غزہ کم سے کم آگ اور خون سے بچ گیا لیکن اب صدر ٹرمپ نے یہ بیان دے کر کہ غزہ کو خالی کروالیا جائےبڑی سنسنی پھیلا دی ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ وہاں نئے مکانات کی تعمیر میں بہت وقت لگے گا۔ بات بظاہر عین قدرتی محسوس ہوتی ہے لیکن یہ بیان بہت ہی غلط وقت پر آیا ہے۔ انہوں نے یہ بیان نیتن یاہو کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے دیا۔ یاد رکھئے کہ نیتن یاہو دنیا میں امریکہ کے علاوہ کسی دوسرے ملک میں نہیں جاسکتے کیونکہ انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے انہیں مجرم قرار دے رکھا ہے۔یعنی اگر وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں جائیں تو وہاں کی پولیس انہیں گرفتار کرسکتی ہے۔ اتفاق سے امریکہ اور اسرائیل دو ایسے ممالک ہیں جو انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کو نہیں مانتے ۔
بہرحال دونوں نے ایک پریس کانفرنس کی اور صدرڈونالڈ ٹرمپ نے یہ کہا کہ غزہ خالی کرالیا جائے۔ ان کا یہ بیان دنیا میں ہی نہیں خود امریکہ میں بھی حیرانی کا باعث بنا۔ ان کی پارٹی نے یہ خیال ظاہر کیا کہ یہ بیان دے کر صدر ڈونالڈ ٹرمپ خود ہی بیانات کی دلدل میں پھنستے جارہے ہیں ، سب کو معلوم ہے کہ بائیڈن کی شکست کی ایک اہم وجہ غزہ میں اسرائیل کی جنگ بھی تھی اور بائیڈن نے اس کی کوئی مخالفت نہیں کی تھی۔ یہ بات ہم اپنے طور پر نہیں لکھ رہے ہیں بلکہ نیتن یاہو کے امریکہ جانے کے فوراً بعد اگلے دن نیویارک ٹائمز نے یہ لکھا کہ صد رڈونالڈ ٹرمپ نے یہ بیان کسی سے پوچھے بغیر دیا ہے اور اس کے لئے انہوں نے امریکی حکام سے بھی کوئی رابطہ نہیں کیا۔ امریکی حکام بھی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے بیان پر ششدر رہ گئے۔ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ جب دو لیڈر پریس کانفرنس کرتے ہیں تو اس میں کس کو کیا کہنا ہے ، کن سوالوں کا کیا جواب ہونا چاہئے، اس کی فہرست تیا رکرلی جاتی ہے اور یہ فہرست کابینہ اور دوسرے حکام کے علم میں ہوتی ہے لیکن صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ اُن کی پارٹی کا خیال ہے کہ یہ بیان آگے چل کر ان کو سخت نقصان پہنچائے گا۔ ایک حیرت کی بات یہ تھی کہ ٹرمپ کا بیان سننے کے بعدساری دنیا میں ردّ عمل ہوا ۔ حد یہ ہے کہ یورپ کے تمام ممالک نے، جن میں وہ ممالک بھی شامل تھے جو فلسطین کو مان چکے ہیں ، یہ کہا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کا یہ بیان غلط ہی نہیں ہے بلکہ غزہ اور فلسطین کو ایک دوسرے سے جدا رکھنا ممکن بھی نہیں ہے۔ نہ تاریخی طور پر اور نہ ہی موجودہ سیاسی طورپرالگ رکھا جاسکتا ہے۔ صد رڈونالڈ ٹرمپ کو بھی یہ احساس ہوا کہ ان سے ایک غلطی ہوگئی، وہائٹ ہاؤس کے ایک ترجمان نے یہ کہا کہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ غزہ کو فلسطینیوں سے آزاد نہیں کرانا چاہتے تھے بلکہ صرف یہ چاہتے تھے کہ جب تک غزہ میں تمام منہدم شدہ عمارات اور مکانات دوبارہ نہیں بن جاتے تب تک غزہ کو خالی کرالیا جائے ، چنانچہ اگر فلسطینی وہاں سے رخصت بھی ہوتے تو یہ رخصتی صرف عارضی ہوتی ،ہمیشہ کے لئے نہیں ۔
بعد میں ری پبلکن پارٹی کا بھی یہی موقف سامنے آیا۔ نیتن یاہو اس کانفرنس کے فوراً بعد امریکہ سے روانہ ہوگئے تھے، انہیں لگا کہ اگروہ یہاں رہے تو پریس انہیں جینے نہیں دے گا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ نیتن یاہو کو ان کے مستقبل کے بارے میں دیوار پر لکھی ہوئی تحریر صاف دکھائی دے رہی ہے۔ ہم دور سے نہیں دیکھ سکتے لیکن نیتن یاہو تو اس کے بالکل پاس کھڑے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ بہت جلد ان کا اور اسرائیل کا کیا مستقبل سامنے آنے والا ہے۔ غزہ کی جنگ سے پہلے اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں نے اسرائیل میں ایک سروے کیا تھا جس سے یہ معلوم ہوا کہ ۶۲؍سے۶۳؍ فیصد تک اسرائیلی اس علاقے میں دو ریاستوں کے قیام کے قائل ہیں ، ایک اسرائیل اور دوسری فلسطین، اور ہم ان کالموں میں یہ لکھ چکے ہیں کہ حماس کو بھی اس پر زیادہ اعتراض نہیں ہے۔ ایک بات اور جان لیجئے کہ اسرائیل میں بسے ہوئے تمام تر یہودی صہیونی نہیں ہیں ۔ ہم نے یہودی ربیوں کے بیانات دیکھے ہیں جن میں وہ کہتے ہیں کہ یہودیوں کی ایک بہت بڑی تعدادصہیونیت کی مخالف ہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ کے بیان سے امریکہ ہی نہیں بلکہ سارے مشرق وسطیٰ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ سعودی عرب کے محمد بن سلمان نے بہت کھل کر یہ کہا کہ فلسطین کو جب تک اس کا حق نہیں ملتا، تب تک یہ معاملہ کبھی حل نہیں ہوگا۔ یہ ایک بیان نہیں تھا، اس کے بعد انہوں نے یہ بھی کہا کہ جب تک فلسطین کی ریاست نہیں بن پاتی سعودی عرب ، امریکہ یا کسی اور ملک سے کوئی تعلق نہیں رکھے گا۔ یہ ان کا دوسرا بیان تھا۔ ایسانہیں ہے کہ فلسطین سے ان کا کوئی تعلق ہی نہ ہو لیکن وہی نہیں عرب دنیا کے بیشتر شاہ اور شیوخ فلسطین کے نام پر کچھ زیادہ پُرجوش نہیں رہتے کیونکہ فلسطین کے نام کے ساتھ ہی انہیں جمہوریت کی بو آنے لگتی ہےمگر فلسطین کے تحفظ کے سلسلے میں بیان دینا ضروری بھی تھا کیونکہ فلسطین کو تمام دنیا کے مسلمان قبلہ اول مانتے ہیں اور تاقیامت مانتے رہیں گے۔
یہ بھی پڑھئے : ڈاکٹر ذاکر حسین کو میں نے جامعہ میں دیکھا ہے
غزہ کے بارے میں یہ خیال بھی درست نہیں ہے کہ امریکہ وہاں کوئی عسکری مداخلت بھی کرسکتا ہے، کیونکہ صدر ٹرمپ کے الیکشن جیتنے کا ایک باعث یہی تھا کہ وہ اینٹی وار ہیں تو کم از کم چار سال تک تو اس علاقے میں جنگ ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں ہے اور چار سال کی مدت دنیا کیلئے کم نہیں ہوتی۔ اس وقت ٹرمپ اپنی شہرت کےعروج پر ہیں ، انہیں موجودہ انتخاب میں امریکہ کے ایک بہت بڑے حلقے نے ووٹ دیا جو اس سے پہلے کسی اور نے نہ دیکھا تھا اور نہ سوچا تھا اس لئے یہ یاد رکھئے ان کے بیانات سے امریکی عوام کو نہ دکھ ہوتا ہے اور نہ ہی افسوس۔ یہ حقیقت بھی ابھی کچھ دنوں تک قائم رہے گی۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کچھ ایسے بیانات دے رہے ہیں جو ساری دنیا کو چونکا رہے ہیں ۔ مثلاً ابھی انہوں نے یہ بیان دیا کہ سی آئی اے کا تمام کا تمام اسٹاف اس محکمہ سے جبری طور پر لاتعلق کردیا جائیگا ، اسٹاف کو اس کے تمام بقایا جات مل جائینگے اور جنہوں نے ایسا نہیں کیا ان کیخلاف کارروائی کی جائیگی۔ہم نہیں جانتے کہ اس پر کتنا عمل ہوگا مگر بیان تو دیا جاچکا ہے۔
hasankamaal100@gmail.com