اب تک کئی ممالک یا ادارے ہمیں الگ الگ موضوعات پر ٹوک چکے ہیں مثلاً منی پور پر، بلڈوزر کلچر پر، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے اراکین کے ساتھ امتیاز پر وغیرہ۔ جب ہم عالمی فورموں میں جمہوری اقدار کے علمبردار کی حیثیت سے موجود ہوتے ہیں تو خود بھی ان قدروں کے تحفظ کی فکر کرنی چاہئے۔
تشدد ختم کروانے کیلئے ہمارا یوکرین اور پولینڈ جانا اچھا اقدام ہے مگر ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ جو تشدد ہمارے اپنے ملک میں ہورہا ہے اُس کے بارے میں دُنیا کیا کہتی ہے۔
۹؍ جون ۲۰۲۲ء کو اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے فرنانڈ ڈی ویرنس اور احمد شہید نے کھرگون (مدھیہ پردیش)، آنند (گجرات) اور جہانگیر پوری (دہلی) میں مسلمانوں کے مکانات منہدم کرنے اور اُن کی املاک تباہ کرنے کے سلسلے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا۔انہوں نے اظہار تشویش کیلئے جو کچھ بھی لکھا، ہماری حکومت نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔
۱۲؍ جولائی ۲۰۲۳ء کو یورپی پارلیمنٹ نے منی پور کے حالات پر اظہار تشویش کیا۔ اس کیلئے وہاں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں کہا گیا کہ اس مختصر ریاست میں پھیلے تشدد کی وجہ سے ۱۲۰؍ افراد ہلاک، ۵۰؍ ہزار بے گھر اور ۱۷؍ سو مکانات تباہ ہوئے۔ یہی نہیں بلکہ ۲۵۰؍ گرجا گھر نیز کئی مندر اور اسکول بھی حملوں کی زد میں آئے۔ قرار داد میں کہا گیا کہ وہاں کی اقلیتوں بشمول عیسائیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کے محرکات سیاسی بھی ہیں ۔ قرار داد میں اس کیلئے تقسیم پسند اور اکثریت پرستانہ سیاست کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ یورپی پارلیمنٹ نے بہ اصرار کہا تھا کہ منی پور کے تشدد کو روکا جائے اور تمام مذہبی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس کا جواب ہم نے دیا مگر کہا کیا؟ ہم نے کہا کہ یہ سامراجی (نوآبادیاتی) سیاست اور اندرونی معاملات میں دخل اندازی کے مترادف ہے۔
۷؍ مارچ ۲۰۲۴ء کو اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے ماہرین نے، جن کی تعداد دو درجن سے زیادہ تھی، ہندوستان میں اقلیتوں ، صحافیوں اور سول سوسائٹی کے اراکین پر حملوں کے تعلق سے فکرمندی اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حالات اور معاملات کو ٹھیک کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان ماہرین نے مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے ساتھ ساتھ میڈیا اور حقوق انسانی کے کارکنان پر حملوں کو باعث تشویش بتایا۔ مگر، ہماری حکومت نے اس کا جواب نہیں دیا۔ واضح رہنا چاہئے کہ ہماری حکومت اقوام متحدہ کے کسی سوال کا جواب نہیں دیتی جبکہ ہم اس عالمی ادارہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رُکنیت سے خاصی دلچسپی رکھتے ہیں اور اس رکنیت کو اپنا حق قرار دیتے ہیں ۔
آئیے اس سے قبل کا جائزہ لیں کیونکہ ہمیں الگ الگ موقعوں پر جو ’’مشورے‘‘ دیئے گئے ہیں اُن سے یا تو ملک کے عام لوگ واقف نہیں رہتے یا خبریں پڑھ کر بہت کچھ بھول جاتے ہیں ۔ ۱۳؍ جون ۲۰۲۱ء کو سات ملکوں کے گروپ نے، جو کہ ترقی یافتہ معیشت اور کشادہ ذہن جمہوریت ہیں ، چارٹر جیسی ایک دستاویز جاری کی جس کا عنوان تھا: ’’ جی سیون اور مہمان ممالک، ۲۰۲۱، کھلے معاشروں کا بیان‘‘۔ واضح رہے کہ جی سیون کا معنی ہے امریکہ، برطانیہ، کناڈا، فرانس، جرمنی، جاپان اور اٹلی نیز یورپی یونین۔ اس وقت جی سیون کے مہمان ممالک تھے جنوبی کوریا، ہندوستان، جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا۔ مذکورہ دستاویز میں کہا گیا تھا کہ دستخط کنندہ تمام ممالک کھلے معاشرے پر یقین رکھتے ہیں نیز جمہوری اقدار کو نہ صرف خود مانتے ہیں بلکہ دیگر ملکوں کو بھی اس کی ترغیب دیتے ہیں ۔ دستاویز میں آٹھ جمہوری قدروں کی نشاندہی کی گئی تھی:
(۱) حقوق انسانی (۲) جمہوریت (جس میں لوگوں کے مل بیٹھنے اور ایک جگہ جمع ہونے کی آزادی ہو)،(۳) سماجی شمولیت (شہری اور سیاسی حقوق کے ساتھ)، (۴) صنفی مساوات (۵) آزادیٔ اظہار رائے (آن لائن بھی آف لائن بھی)، (۶) قانون کی بالادستی (آزاد اور غیر جانبدار عدالتی نظام کے ساتھ) اور (۷) کثیر جہتی نظام برائے تجارت اور عالمی تعاون (کولیبوریشن) اور (۸) شہری آزادی (سِوِک اسپیس) جس میں حقوق انسانی کے کارکنان کو بھی موقع ملے۔ یہ آٹھ قدریں ایسی ہیں جنہیں کوئی بھی معاشرہ انسانی زندگی کیلئے ضروری اور مثالی تسلیم کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:خزاں کی یورش ہر جانب ہے مگر ہے کس کو ہوش!
طے کیا گیا تھا کہ جی سیون ممالک ان قدروں کو درج ذیل انداز میں فروغ دینے کیلئے کوشاں رہیں گے: آزادیٔ اظہار رائے اور آزادیٔ مذہب نیز عوام کا (کسی مقصد کے تحت) ایک جگہ جمع ہونے کا حق اور اُنہیں کسی بھی امتیاز سے محفوظ رکھنے کی تبلیغ کی جائیگی، حقوق انسانی کو لاحق خطرات سے متعلق جو اطلاعات ہوں گی وہ تمام ملکوں کو فراہم کی جائینگی تاکہ حقوق انسانی کی پامالی کو روکنے کے جامع منصوبے بنائے جاسکیں ، معاشی کھلے پن کو خاص طور پر رائج کیا جائیگا تاکہ سب کو معاشی ترقی کا موقع ملے، بدعنوانی کو روکنے کی ہرممکن کوشش کی جائیگی، صنفی مساوات کو اہمیت دی جائیگی اور اسے یقینی بنانے پر اصرار کیا جائیگا، وغیرہ۔یہ اور دیگر باتوں پر ہندوستان کا جواب عموماً جارحانہ ہوتا ہے۔اس ضمن میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جب ہمارے وزیر اعظم نے کھلے معاشروں کی حمایت میں اظہار خیال کیا نیز یہ کہتے ہوئے دستخط کئے ہیں کہ ہندوستان فطری طور پر اس کا ہمنوا (نیچرل الائی) ہے تو ہمیں ان قدروں کو عملاً برتنا ہوگا۔
اگر جمہوری اقدار میں ہندوستان کے یقین، ہماری اب تک کی تاریخ اور دستور ِ ہند کے پیش نظر بات کی جائے تو یقیناً ہم خود کو ’’فطری طور پر ہمنوا‘‘کہنے میں حق بجانب ہیں مگر یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ہم اس نوع کی دستاویزات پر دستخط کریں اور عملاً ہمارے اقدامات اس کے خلاف ہوں ۔ یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اس پر دُنیا کا ردعمل آئے تو ہم خاموش رہیں یا خاموش کرنے والا جواب دینے کی کوشش کریں ۔ دو متضاد باتیں ایک ساتھ نہیں ہوسکتیں ۔ ہم جمہوری قدروں پر اپنے ایقان کا اظہار کرتے ہیں مگر خود جمہوری قدروں سے منہ موڑتے ہیں ۔ اگر ہم نے کہا کہ ہم جمہوری قدرو ں کا احترام کرتے ہیں اور ان پر مبنی دستاویز پر دستخط کرتے ہیں تو ہمیں دیگر دستخط کنندگان کی بات سننی پڑے گی، اُس سے ہم صرف ِ نظر نہیں کرسکتے۔ امریکہ بھی ہمیں کئی معاملات میں ٹوک چکا ہے بالخصو ص کشمیر کے اُمور میں ، امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے لوَ جہاد کے خلاف متنبہ کیا ہے اور امریکی وزارت خارجہ نے اقلیتوں پر مظالم کے خلاف تشویش کا اظہار کیا ہے۔ دیگر ملکوں میں تشدد رُکوانا اچھی بات ہے مگر اس کے ساتھ ہی ہمیں اپنے ملک کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔