سماج بدل نہیں رہا، بدل چکا ہے۔ اس میں آنے والی تبدیلی سے انسانی زندگی میں اطمینان کم، بے اطمینانی زیادہ پھیلی ہے اس کے باوجود آج کا انسانی سماج اپنی بے اطمینانی سے مطمئن ہے۔
EPAPER
Updated: August 24, 2024, 1:21 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
سماج بدل نہیں رہا، بدل چکا ہے۔ اس میں آنے والی تبدیلی سے انسانی زندگی میں اطمینان کم، بے اطمینانی زیادہ پھیلی ہے اس کے باوجود آج کا انسانی سماج اپنی بے اطمینانی سے مطمئن ہے۔
بڑے کھڑے ہوں تو چھوٹے بیٹھ نہیں سکتے،اُن پر لازم ہے کہ وہ اپنی نشستوں سے اُٹھ جائیں اور ادب و احترام کے ساتھ بڑوں کو بٹھائیں ، بس یا ریل گاڑی کے سفر میں کسی خاتون کو جگہ نہ ملے تو مرد مسافروں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ خود بیٹھے رہیں ۔ اُن سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اُس خاتون کے بیٹھنے کا انتظام کریں ۔ بہتر ہے کہ اُن میں سے کوئی ایک مسافر اپنی نشست اُسے دیدے۔ کسی راہ گیر کا سانس پھول رہا ہو اور اُس پر کسی کی نظر پڑ جائے تو جس کی نظر پڑے اُس کا فرض ہے کہ وہ اُس کو مناسب جگہ پر بٹھائے، اُسے پانی پیش کرے، اُس کی خیریت معلوم کرے اور اگر طبیعت بحال نہ ہوتی ہو تو اُسے ڈاکٹر کو دکھلائے یا اُس کے گھر والوں کو مطلع کرے۔
ایسی تمام باتیں اوائل عمری میں سکھائی تو جاتی ہیں مگر نہ سکھائی جائیں تب بھی ہزاروں میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ملے گا جو ان باتوں سے بیگانہ ہو۔ بھلے ہی ان پر عمل نہ کرتا ہو مگر ان سے بیگانہ ہرگز نہ ہوگا۔ ہمدردی اور رحمدلی فطری جذبہ ہے جو ہر انسان کو ودیعت کیا گیا ہے۔ تعلیم و تربیت سے اس جذبے کو جِلا ملتی ہے۔ یہی جذبہ وسیع تر معنوں میں احترام انسانیت کہلاتا ہے جس کا تصور ہر ملک اور قوم میں ہے۔ اس کے باوجود انسانیت کو پامال اور رُسوا کرنے والے لوگ بھی ہرملک اور قوم میں پائے جاتے رہے ہیں ۔ ایسے ہی لوگ کرۂ ارض پر الگ الگ شکل میں اُبھرتے ہیں ۔ بدلا پور کی واردات انجام دینے والا، کولکاتا کی واردات انجام دینے والے سے نام اور چہرے کے اعتبار سے ًمختلف ہے مگر دونوں کا ذہن اور نفسیات ایک ہے۔ یہ دو وارداتیں خواتین کے خلاف جرائم کے زمرے میں آئینگی مگر موجودہ دور کئی دوسری طرح کے جرائم کا بھی مشاہدہ کررہا ہے۔ کسی بھی زمرے اور کیٹگری کا جرم ہو، بڑا جرم ہو یا چھوٹا، خواہ والدین کے ساتھ بچوں کا اور بچوں کے ساتھ والدین کا سلوک ہو یا میاں بیوی کے درمیان پائی جانے والی وہ شکررنجی جو بڑھتے بڑھتے کسی ہولناک واقعہ پر منتج ہو، پڑوسیوں کے باہمی تعلقات میں آنے والی دراڑیں ہوں یا رشتہ داروں اور عزیزوں کے آپسی تعلقات کی وہ گرہیں جو سلجھنے کے بجائے مزید اُلجھ جائیں ، استاد اور شاگردکے رشتے کا بگاڑ ہو یا ایک دوسرے سے بیگانہ مگر بعض اوقات ایک دوسرے کی جان کے درپے ہوجانے والے راہگیر، آپ دیکھیں گے کہ ہر رشتہ اور تعلق ایسے انحطاط سے دوچار ہے کہ ذرا سی رگڑ سے جو چنگاری پیدا ہوتی ہے وہ پلک جھپکتے بڑی آگ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ایسی وارداتیں ماضی میں بھی ہوتی رہی ہیں مگر زمانۂ حال میں یہ تواتر کے ساتھ ہونے لگی ہیں اور ان میں موجود سفاکی اور سنگینی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ہوش اُڑنا، دم بخود رہنا، لرز جانا، دہل جانا اور دہشت طاری ہونا جیسے محاورے حقیقی کیفیت کے اظہار میں ناکام ہورہے ہیں ۔ اس کی ایک وجہ قانون میں موجود کمیاں اور خامیاں ہوسکتی ہیں ، دوسری وجہ ٹیکنالوجی کا غلط استعمال ہوسکتی ہے جو ذہنوں کو شیطانی رنگ میں رنگ رہی ہے، تیسری وجہ عدالتی نظام کا سقم ہوسکتا ہے جس کے سبب بہت سے خاطی چھوٹ جاتے ہیں یا مہینوں بلکہ برسوں سماعت ہی نہیں ہوتی، چوتھی وجہ کچھ اور ہوسکتی ہے اور پانچویں وجہ کچھ اور مگر اس مضمون نگار کے خیال میں سب سے بڑی وجہ احترام ِانسانیت کی وہ زوال آمادگی ہے جو سماج اور معاشرہ کے غیر حساس ہونے کا اعلان کرتی ہوئی تیز رفتاری سے مکمل زوال کی جانب رواں ہے۔ فروغ انسانیت کیلئے جو کچھ ہونا چاہئے وہ کہاں ہورہا ہے؟ کون کررہا ہے؟ فروغ انسانیت کی شرط اول شعور انسانیت ہے اور جب انسانیت کا شعور مررہا ہو تو فروغ انسانیت کی تمنا کون کرے اور کس بنیاد پر کرے؟
یہ بھی پڑھئے:اردو کے یہ نادان دوست
ایک زمانہ تھا جب والدین بچوں کو اسکول میں اساتذہ کے حوالے کرکے اُنہیں تاکیداً کہتے تھے کہ اگر نہ پڑھے تو مروت نہیں ’’مرمت‘‘ کر دینا۔ آج معلم سزا دینے کی ’’غلطی‘‘ کربیٹھے تو والدین حتیٰ کہ پورا کنبہ معلم کو ’’ٹھیک‘‘ کرنے پہنچ جاتا ہے۔ کل تک ماں باپ بچوں کو ’’کوئی ایک گال پر طمانچہ مارے تو اُسے دوسرا گال بھی پیش کردو‘‘ سے استفادہ کرتے ہوئے کہتے تھے کہ کسی سے کہا سنی ہوجائے تو ہاتھ مت اُٹھانا۔ آج کہتے ہیں مار کر آنا، مار کھا کر مت آنا۔ کل تک شادی شدہ نوجوان ماں اور بیوی سے اپنے سلوک میں توازن پیدا کرکے بیوی کو اُس کے حق اور ماں کو اُس کے حق سے محروم نہیں کرتا تھا، آج کے لڑکوں کا جھکاؤ کس طرف ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کل تک ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی سے اتنا گہرا رشتہ تھا کہ ملحقہ مکانوں میں بیچ کی دیوار ہی خط فاصل ہوا کرتی تھی۔ آج پڑوسی پڑوسی سے اتنا دور ہے کہ بیچ میں دس فلیٹوں کا فاصلہ بھی کم ہے۔ بھروسہ اس حد تک ناپید ہے کہ کوئی شخص نیک نیتی سے کسی کی مدد کرے تو اُس کا جذبۂ خیر مشکوک قرار پاتا ہے کیونکہ اب کوئی کسی کی مدد کرتا ہی نہیں ہے!
یہی وجہ ہے کہ کل تک بُرائی خبر بنتی تھی، آج اچھائی خبر بنتی ہے اور اخبارات نیز ٹی وی چینلوں پر سرخی لگائی جاتی ہے کہ انسانیت زندہ ہے۔ دو دِن بعد مدر ٹریسا کا یوم ِ ولادت ہے جنہوں نے اپنی پوری زندگی انسانیت کیلئے وقف کردی اور کبھی کسی چیز کا گلہ نہیں کیا۔ وہ جذامیوں کے زخم اس طرح دھوتی تھیں جیسے برگ گل سے ریشم صاف کررہی ہوں ۔ بے سہارا بچوں کی اِس طرح پرورش کرتی تھیں کہ بڑا ہونے کے بعد اُنہیں والدین سے ملا دینا ممکن ہو تو وہ واپس جانے کو راضی نہ ہوں ۔ مشکل یہ ہے کہ سماج نے یہ سب جاننا، پڑھنا، سننا، سمجھنا اور ایسی باتوں پر غور کرنا بھی ترک کردیا ہے۔
اگلے وقتوں میں اسکولی نصاب کے بیشتر اسباق سبق آموز اور دلنشین ہوتے تھے۔ مَیں نے انگریزی کی درسی کتاب میں کہانی پڑھی تھی: ’’مِس ایوانس آف بوسٹن، امریکہ۔‘‘ ٹائٹانک جہاز پہاڑ جیسے برف کے تودے سے ٹکرا کر ڈوبنے لگا تھا۔ لائف بوٹس لگا دی گئی تھیں اور خواتین اور بچوں کو لائف بوٹ میں سوار کیا جارہا تھا۔ وقت بہت کم تھا، جہاز ڈوبنے کے قریب تھا۔ اتنے میں ایک خاتون نے چیخ کر کہا مجھ پر رحم کرو، میرے بچے لائف بوٹ میں منتقل ہوچکے ہیں ۔ لائف بوٹ میں اب بالکل گنجائش نہیں تھی۔ وہاں سے کوئی واپس جہاز میں آنے کو تیار نہیں ہوا۔ اتنے میں ایک نوجوان خاتون آگے آئی اُس نے کہا ٹھہرو مَیں واپس جہاز میں جاؤنگی، اُس ماں کو لائف بوٹ میں لے آؤ، اُس کےبچے ہیں ، میرے بچے نہیں ہیں ۔ جہاز کے عملے نے یہی کیا ۔ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ جہاز ڈوب گیا۔ مہلوکین میں وہ نوجوان خاتون بھی تھی، مس ایوانس۔