نئے دور کی زندگی ، زندگی جیسی نہیں رہ گئی ہے۔ اس میں بہت سے خطرات انسانوں کے آس پاس منڈلاتے رہتے ہیں مگر ان کا احسا س نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی تو وجہ بھی سمجھ میں نہیں آتی جبکہ نقصان ہورہا ہوتا ہے یا ہوچکا ہوتا ہے۔ عجب دور ہے یہ!
EPAPER
Updated: October 05, 2024, 2:34 PM IST | Shahid Latif | Mumbai
نئے دور کی زندگی ، زندگی جیسی نہیں رہ گئی ہے۔ اس میں بہت سے خطرات انسانوں کے آس پاس منڈلاتے رہتے ہیں مگر ان کا احسا س نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی تو وجہ بھی سمجھ میں نہیں آتی جبکہ نقصان ہورہا ہوتا ہے یا ہوچکا ہوتا ہے۔ عجب دور ہے یہ!
حفیظ ہوشیارپوری نے اپنی مشہور زمانہ غزل ’’محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے، تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے‘‘ میں محبوب کا غم سہنے کی شاعرانہ آرزو کو اتنے حسین انداز میں نظم کیا کہ اُس دور کے سننے والے تو واہ واہ کے ذریعہ چھتیں اُڑا دیتے ہونگے۔ وہ شعر تھا: ’’زمانے بھر کے غم یا اک ترا غم، یہ غم ہوگا تو کتنے غم نہ ہوں گے‘‘۔ محبوب کے غم کو سب سے بڑھ کر ماننے اور اس کے سامنے زمانے بھر کے غموں کو ہیچ سمجھنے کا یہ انداز شاعری ہی میں مل سکتا ہے۔ حفیظ صاحب کا خیال تھا کہ یہ غم دوسرے غموں سے نجات دلانے کیلئے کافی تو ہے ہی، تالیف قلب کا باعث بھی ہے۔کاش، آج کی زندگی میں بھی ایسا ہوتاکہ کوئی ایک غم دوسرے غموں سے نجات دلاتا، مگر، ایسا نہیں ہے، آج کا انسان یا تو نیزوں پر چل رہا ہے یا اپنے جسم پر روزانہ تیر کھاتا ہے۔ چونکہ یہ دورِ جدید ہے اس لئے نہ تو نیزے دکھائی دیتے ہیں نہ ہی تیر۔ حد تو یہ ہے کہ زخم بھی نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں اور درد بھی محسوس نہیں ہوتا۔ کمال کا دور ہے صاحب! نئی تکنالوجی مزید ترقی کرے اور کوئی ایسی مشین ایجاد ہوجائے جو اسکرین پر دکھا دے کہ انسانی جسم کیا کیا سہہ رہا ہے اور کیسے کیسے خطرات سے گھرا ہوا ہے تو اپنے ’’داخلی عکس‘‘ سے خوف آئے۔ حفیظ ہوشیار پوری ہی کے ہم نام حفیظ جالندھری بھی عظیم شاعروں میں سے ایک ہیں ۔ یہ اُنہی کا شعر ہے کہ’’ شیشہ ٹوٹے غل مچ جائے، دِل ٹوٹے آواز نہ آئے‘‘۔ آج کے خطرات کا بھی یہی معاملہ ہے جن کا ذکر اس کالم میں کیا جارہا ہے:
چونکہ موبائل استعمال کرنے والوں کی تعداد نہایت تیزی سے بڑھی ہے (ہندوستان میں ایک ارب ۱۸؍ کروڑ ۶۷؍ لاکھ سے زائد موبائل صارفین ہیں ) اس لئے ہر طرف موبائل ٹاورس ککر متے کی طرح اُگ آئے ہیں ۔ ان ٹاوروں سے خاص قسم کی لہریں نکلتی ہیں جنہیں الیکٹرو میگنیٹک فریکوئنسی ریڈی ایشن کہا جاتا ہے۔ کوئی کتنا ہی انکار کرے، انسانی جسم اس سے محفوظ نہیں ہے مگر، جیسا کہ عرض کیا گیا، دورِ جدید کا نہ تو نیزہ دکھائی دیتا ہے نہ ہی تیر، اس لئے کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ان لہروں کے اثرات یقینی طور پر مرتب ہوتے ہیں خواہ محسوس ہوں یا نہ ہوں ۔ چند ماہ قبل ’’لوک مت ٹائمس‘‘ نے خبر دی تھی کہ ناسک میں گیارہ سالہ طالب علم کو، اُس وقت جب وہ اسکول گئی ہوئی تھی، چکر آنے لگا پھر وہ ڈیسک سے گر پڑی اور بے ہوش ہوگئی۔ اسپتال لے جایا گیا تو جانچ کے بعد ڈاکٹروں نے کہا کہ اُس کا انتقال ہوچکا ہے۔ خبر کے مطابق ناسک میونسپل کارپوریشن کے محکمۂ تعلیم نے اس واقعہ کی توثیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کی تفصیلی جانچ کرائی جائیگی۔ اس طالبہ کا نام دویہ ترپاٹھی تھا۔ والدین کو شبہ تھا کہ ہو نہو اِس واقعہ کا براہ راست تعلق آس پاس نصب کئے گئے تین موبائل ٹاوروں سے ہے۔دیگر طلبہ کے والدین کو اُن کے شبہ میں دم محسوس ہوا لہٰذا اُنہوں نے اسکول انتظامیہ سے تینوں ٹاوروں کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ۔ اس کے بعد کیا ہوا، اِس مضمون نگار کو اس کا علم نہیں ہے مگر اس کا سوال بہت واضح ہے کہ اگر اُس طالبہ کو چکر نہ آتا اور وہ غش کھا کر گر نہ جاتی تو کیا تین موبائل ٹاوروں سے نکلنے والی لہروں کے مضر اثرات موضوع بحث بنتے؟ ان لہروں کا موضوع بحث بننا تو دور کی بات ہے، بیشتر لوگوں کو یہی علم نہیں ہوتا کہ اُن کے علاقے میں کتنے ٹاور ہیں اور وہ اُن کے کتنے پاس اور کتنے دور ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے ملبار ہل کے باشندوں کے ہاتھ جرمن ساخت کا ایسا آلہ لگا جس سے ان لہروں کی پیمائش ممکن تھی۔ اس آلہ کو ریڈی ایشن میزرنگ انسٹرومنٹ کہتے ہیں ۔ اس کی مدد سے ٹاوروں کی لہروں کو جانچنے اور ان کی پیمائش کرنے کی کوشش کی گئی کیونکہ کئی باشندوں کا کہنا تھا کہ اُن کے گھر کے نوعمر افراد سر میں درد اور تھکن کی شکایت کرتے ہیں اسلئے اُنہیں شبہ ہے کہ ا س کا سبب موبائل ٹاورہی ہونگے۔
یہاں یہ بات یاد رہنی چاہئے کہ موبائل ٹاوروں سے نکلنے والی لہریں الگ ہیں اور ہینڈ سیٹ سے نکلنے والے لہریں الگ۔ موبائل سے لطف اندوز ہونے اور اس کا بے تحاشا استعمال کرنے والے لوگ ہر دو طرح کی لہروں کی زد پر رہتے ہیں ، اس کے باوجود ’’چھٹتا نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگا ہوا‘‘۔ ضرورت کے پیش نظر بھلے ہی یہ منہ سے نہ چھو‘ٹے مگر اس کا استعمال کم تو کیا ہی جاسکتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے : سپریم کورٹ نے سچ کہا کہ زبان سنبھال کے
جسم پر اثرات مرتب ہونے کے باوجود ریڈی ایشن کا احساس نہ ہونا بالکل ایسا ہی ہے جیسا فضائی اور آبی آلودگی سے جسم کا متاثر ہونا مگر عام حالات میں اس کا محسوس نہ ہونا۔ ممبئی جیسے گنجان آبادی والے شہر میں ہر دو طرح کی آلودگی پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے انسان کو کوئی عارضہ لاحق ہوجائے تو کوئی طبیب اور معالج یہ نہیں کہے گا کہ یہ فضائی اور آلودگی کی وجہ سے ہے۔ وہ کوئی اَور وجہ بتا دے گا۔ مریض اُسی ’’دوسری وجہ‘‘ کے بارے میں سوچتا رہے گا مگر اصل وجہ کے خلاف متنبہ نہیں ہوگا۔ کسی کا انتقال ہوجائے تو لوگ پوچھتے ہیں کیا بیمار تھے؟ جواب ملتا ہے ہاں بیمار تھے، سوال کیا جاتا ہے کیا ہوا تھا؟ جواب ملتا ہے کینسر ہوا تھا یا بی پی تھا یا کارڈیاک پرابلم تھا۔ اس کے ساتھ ہی سوال جواب ختم ہوجاتے ہیں ۔ لوگوں کو معلوم کرنا چاہئے کہ کینسر، بی پی اور کارڈیاک پرابلم کے پیچھے کیا ہوتا ہے؟ آپ خود چھان بین کرلیں تو بہت کچھ معلوم ہوجائیگا۔
صارفیت کو بھی لوگ خطرہ نہیں سمجھتے۔ بڑے مکان یا عالیشان کاروں کی خواہش میں بینکوں سے بھاری قرض لے کر ای ایم آئی بھرنے کی فکر جسمانی اور ذہنی صحت پر کیسے کیسے اثرات مرتب کرتی ہے اس کا احساس کسی کو نہیں ہے مگر ہے بڑے مکان کی، چمچماتی کار کی یا مکان کے انٹیریئر کی یا شادی کی شاندار تقریب کی یا مہمانوں پر رعب ڈالنے کی یا عمدہ سے عمدہ لباس کی۔
زہر آلودہ سیاسی ماحول بھی کچھ کم نہیں ۔ اس کی وجہ سے بھی ذہنی اور جسمانی صحت پر گہرا اثر پڑتا ہے یہ الگ بات ہے کہ دیگر نیزوں اور تیروں کی طرح یہ نیزہ اور تیر بھی محسوس نہیں ہوتا، اس کا زخم بھی دکھائی نہیں دیتا اور اس کا درد بھی سر درد جیسا نہیں ہوتا۔
ایسے کئی دیگر اثرات انسانی صحت کو بُری طرح متاثر کررہے ہیں ۔ ان میں سے چند پر انسان کا کنٹرول ہے، بقیہ پر نہیں ہے۔ حیرت ہے کہ جس پر کنٹرول ہے وہ بھی ہمیں کو کنٹرول کررہا ہے۔