چیف جسٹس کی قیادت والی بینچ نے اس معاملے میں کڑا رخ اختیار کرکے تمام ہی لوگوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ انہیں تبصرہ کرتے ہوئے کسی کی تضحیک نہیں کرنا چاہئے۔
EPAPER
Updated: October 04, 2024, 3:29 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai
چیف جسٹس کی قیادت والی بینچ نے اس معاملے میں کڑا رخ اختیار کرکے تمام ہی لوگوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ انہیں تبصرہ کرتے ہوئے کسی کی تضحیک نہیں کرنا چاہئے۔
بعض موقعوںپر غصے، اعصابی کمزوری یا کسی اور سبب زبان سے بے اختیاری میںکوئی ایسا جملہ یا لفظ نکل جاتا ہے جو بولنے والے کا منشاء ظاہر کرنے کے بجائے غلط فہمیوںکو راہ دیتا ہے۔ مثلاً کسی کو آتنک وادی ، دیش دروہی یا کسی مقام کو پاکستان یا پاکستان جیسا کہہ دینا عام بات ہے۔ کرناٹک ہائی کورٹ کے ایک جج وی شریش آنند کی زبان سے بھی کچھ ایسا نکل گیا تھا کہ ۲۱؍ ستمبر کو انہوںنے بھری عدالت میںمعافی مانگی اور اظہار تاسف کیا مگر سپریم کورٹ کی آئینی بینچ نے تب تک اس معاملے کو اپنے اختیار سماعت میںلے لیا تھا۔ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے اس معاملے میںاز خود نوٹس لیا اور کہا کہ کرناٹک ہائی کورٹ کے ایک جج کی جانب سے مقدمہ کی سماعت کے دوران کچھ `غیر ضروری اور اشتعال انگیز تبصرے کرنے کا ویڈیو وائرل ہوا ہے جو ہمارے نوٹس میںبھی آیا ہے۔ اسی لئے ہم ہائی کورٹ کے رجسٹرار جنرل کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اس معاملے میںرپورٹ طلب کررہے ہیں۔ آئینی بنچ کی قیادت چیف جسٹس ڈی وائی چندر چڈ کررہے ہیں۔ ۲۵؍ ستمبر کو اس نے تاکید کی کہ ہندوستان کے کسی بھی حصے کو پاکستان جیسا نہیںکہا جاسکتا کہ یہ ہندوستان کی علاقائی سالمیت کے خلاف ہے۔ فاضل جج صاحبان کو ایسے قابلِ اعتراض تبصروںسے گریز بھی کرنا چاہئے کہ انصاف کرنے کی بنیاد غیرجانبدار ہونا ہے۔ جج صاحبان کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ ان کا طبعی رجحان کیا ہے۔ بینچ نے خواتین کے احترام پر بھی اصرار کیا۔
مندرجہ بالا واقعہ میںچیف جسٹس آف انڈیا کی قیادت والی ۵؍رکنی بینچ نے جو تاکید کی ہے وہ یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ کرناٹک ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج نے جو کہا وہ تو ان کے لاشعور کی ترجمانی کرہی رہا تھا، اس پر سوشل میڈیا پرجو تبصرے ہوئے اور پھر ان تبصروںکو جس طرح پھیلایا گیا وہ بھی یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ سماج کے وسیع تر حلقے میںایک قسم کا زہر پھیلا ہوا ہے جو وضع قطع، مذہب، علاقہ یا زبان کی بنیاد پر کسی کی تضحیک کرواتا اور ہندوستان جنت نشان کے کسی حصے یا ٹکڑے کو پاکستان یا پاکستان جیسا کہلواتا ہے۔ ماؤںاور بہنوںکو معتوب کرنا یا ان کے بارے میںتضحیک آمیز تبصرے کرنا بھی ہم میںسے بیشتر کا وطیرہ ہے۔ ’’غریب کی جورو سب کی بھابھی‘‘ جیسے فقرے اور کہاوتیںبھی اسی ذہنیت کی تراشی ہوئی ہیں۔ کسی خوش اخلاق خاتون کا نام کسی سے جوڑ دینا یا اس کی کہی ہوئی بات کا من مانا مطلب نکالنا اور پھر قہقہہ لگانا بھی بعض لوگوںکا خاص مشغلہ ہے۔ ان کے مشغلے سے لطف لینے والوںکا دائرہ تو اور زیادہ وسیع ہے۔
ایسے لوگوںکے ذہنوںمیںانسان اور انسانیت کا کوئی اکرام نہیں، ایسے لوگ یا تو فائدہ اٹھانے پر یا پھر نقصان سے بچنے کے لئے کسی کی تعریف یا اکرام کرتے ہیں، ورنہ بظاہر اچھے یا غیر تضحیک آمیز لفظوںکو استعمال کرکے بھی آگ اگلتے رہتے ہیں، مثلاً ’’بھیا‘‘ بھائی کے ہم معنی ہے۔ اس سے مشتق ’’بھیا دوج‘‘ نامی تہوار ہے جس میںہندو عورتیںبھائیوںکے لئے مٹھائی بھیجتی یا لے جاتی ہیںمگر ممبئی میںاس لفظ کو گالی بنادیا گیا ہے۔ میںپیدائش کے اعتبار سے شمالی ہندوستان سے تعلق رکھتا ہوںمگر میری زندگی کا بیشتر حصہ ممبئی میںگزرا ہے اور ممبئی میںمجھے آباد ہونے میںمدد دینے والوںمیںمراٹھی بولنے والے افراد اور ان کے خاندان ہیں۔ مدنپورہ میںبعد میںرہنے آیا مگر میںجس ادارے سے وابستہ تھا وہاںکا ایک شخص اپنی اردو دانی کے دعوے میںرکاوٹ سمجھ کر مجھ کو اور اسی ادارے کے ایک چیئرمین کو بھیا کہہ کر خوب قہقہے لگاتا تھا۔ مجھے ’’بھیا‘‘ ہونے پر کوئی شرمندگی پہلے تھی نہ اب ہے۔ میںبھیا ہوںمگر مراٹھی بولنے والوںکو اپنا محسن اور بھائی سمجھتا ہوں۔
یہ بھی پڑھئے: بہارمیں سیلاب: آخر اس مرض کی دوا کیا ہے
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی قیادت والی بینچ نے اس معاملے میںکڑا رخ اختیار کرکے نہ صرف عدلیہ اور جج صاحبان کو بلکہ تمام لوگوںکو خاص طور سے ذمہ دار عہدوںپر فائز لوگوںکو یہ پیغام دیا ہے کہ انہیںتبصرہ کرتے ہوئے کسی کی تضحیک نہیںکرنا چاہئے۔ اس معاملے کا ایک اور پہلو شفافیت ہے۔ چونکہ معاملہ ایک ہائی کورٹ کے جج کے تبصرے کا ہے اور سوشل میڈیا پر وائرل ہونے سے غلط فہمیوںکا پھیلنا ہے مگر جج صاحب کا یہ کہنا تھا کہ ان کے تبصرے کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش یا وائرل کیا گیا ہے اس لئے بعض حلقوںمیںیہ بات چل پڑی تھی کہ ہائی کورٹ کی کارروائی کی ’’لائیو اسٹریمنگ‘‘ بند کر دی جانی چاہئے۔ سپریم کورٹ نے اس کا جواب یہ دیا کہ شفافیت سے اگر کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اس کا ایک ہی حل ہے ، اور زیادہ شفافیت ۔
یہ جواب اس حقیقت کا اثبات ہے کہ موجود دور سوشل میڈیا کا ہے جو جھوٹ بھی پھیلاتا ہے اور سچائی کی بھی تشہیر کرتا ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم جھوٹ سے پرہیز کریںاور سچائی کی اشاعت میںہاتھ بٹائیں۔ کوئی چیز بذات ِ خود اچھی ہوتی ہے نہ بری۔ محلّ استعمال اور طریقہ ٔ استعمال اس کو اچھا یا برا بناتا ہے۔ بہت سے لفظوںکو ہم نے برے معنیٰ میںاستعمال کرکے برا بنا دیا ہے۔ ’’ہرا جھنڈا‘‘ لگا دیئے جانے سے ہندوستان کا کوئی علاقہ پاکستان یا پاکستان کا علاقہ نہیںہوسکتا۔ اسی طرح کوئی پیشہ اختیار کرنے یا کسی خاص خطے اور علاقے یا خاندان میںپیدا ہونے سے کوئی شخص آدمیت کے شرف سے نیچے نہیںگر سکتا۔
ہر انسان ، انسان ہونے کی حیثیت سے قابل احترام ہے اور اس کی اولین ذمہ داریوںمیںخود باعزت زندگی گزارنے کا حق پانا اور دوسروںکو باعزت زندگی گزارنے کا حق دینا ہے۔ سپریم کورٹ نے صححیح تاکید کی ہے ۔ یہ تاکید سماج کے ہر حصے اور خطےنیز ہر پیشے کے لوگوںکے لئے ہے۔