• Wed, 15 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

دسمبر کی آخری تاریخ اور جنوری کی پہلی تاریخ

Updated: January 13, 2025, 1:25 PM IST | Professor Sarwar Al-Huda | Mumbai

سال رفتہ کے منظرنامہ پر جنگوں کا منظر نامہ حاوی رہا، انہی حالات میں نئے سال کا سورج طلوع ہوا۔ اس حوالے سے زیر نظر مضمون میں تاریخ کے ایسے ہی جبر سے بحث کی گئی ہے:

Photo: INN
تصویر:آئی این این

دِسمبر کی آخری تاریخ کو جنوری کی پہلی تاریخ کہنا کتنا عجیب ہے۔ تاریخ سے چھٹکارے کی جتنی صورتیں  ادب اور فلسفے نے فراہم کیں ، ان سے کم یا زیادہ آشنائی ہمیں  تاریخ سے کتنا آزاد کر سکی۔ نظریاتی طور پر جو کچھ کہا یا لکھا جائے عملی طور پر تاریخ اپنی دھن میں  اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔ کوئی ایک تاریخ کبھی زندگی کی یا زمانے کی تاریخ بن جاتی ہے اور اسی ایک تاریخ سے ہم زندگی اور زمانے کو پہچانتے ہیں  لہٰذا تاریخ ہر ذہین اور حساس شخص کیلئے ایک جیسی نہیں  ہو سکتی۔  تاریخ اتنی سفاک ہوتی ہے کہ اس کو فکری طور پر جتنا ’’لازمانی‘‘ یا دھندلا بنا یا جائے اس کی سفاکیت ختم نہیں  ہوتی۔ فکشن خصوصاً ناول تاریخ کا بوجھ اٹھاتے اٹھاتے ایک ایسی منزل پر پہنچ گیا ہے جہاں  سے تاریخ خود ہی ہا نپتی کانپتی دکھائی دیتی ہے اور ناول منتظر ہے کہ اب اسے تاریخ کے جبر سے کچھ عرصے کیلئے ہی سہی آزاد کیا جائے۔یہ غلط فہمی ناول اور تاریخ دونوں  کی ہو سکتی ہے، تاریخ اپنا سفر ختم کر سکتی ہے نہ ناول تاریخ کے جبر سے خود کو بچا سکتا ہے۔
  جنگ عظیم سے وابستہ ناولوں  کو پڑھنے کا مطلب انسانی زندگی کی بے حرمتی کی تاریخ کو پڑھنا ہے۔ اس ضمن میں  تاریخ سیاسی تاریخ کا نمونہ بن جاتی ہے، اور یہ سیاسی تاریخ فکشن کے ساتھ آگے بڑھتی جاتی ہے۔ جنگ کے دنوں  کی تاریخیں  کتنی تاخیر سے بدلتی ہیں ۔ ہر بدلتی ہوئی تاریخ ماضی کی تاریخ معلوم ہوتی ہے۔ مستقبل جنگ کے دنوں  کی تاریخ کا استقبال اسکی شعریات کے ساتھ کرتا ہے۔ ایام ِ جنگ کی تاریخ اور اس کی شعریات کو وضع کرنے میں  معاون وہ حالات ہوتے ہیں  جن کی پشت پر سیاست کا مضبوط ہاتھ ہوتا ہے۔ دسمبر کی آخری تاریخ کو جنوری کی پہلی تاریخ کہہ دیا جائے تو اس سے کیا فرق پڑیگا۔ ایک چھوٹی سی دنیا جس کا مرکزی حوالہ اپنی ذات ہو وہ انسانی زندگی کی بے حرمتی اور پامالی کو کس طرح محسوس کریگی۔ احساس، ذات سے نکل کر جب کائنات بن جاتا ہے تو پھر تاریخ کے لہو لہان چہرے کو دیکھ کر شرمندگی تو ہوتی ہے لیکن اتنی نہیں ۔ ہم کیا پڑھتے ہیں ، کس کیلئے پڑھتے ہیں ، کیوں  پڑھتے ہیں  یہ سوالات نئے   نہیں  پھر بھی انہیں  دُہرانے میں  کیا مضائقہ ہے۔ ہم کس کیلئے لکھتے ہیں ، اس کا ایک جواب تو وہی ہے جس نے لکھنے والے کو مغرور بنا دیا۔ غرور تحریر میں  کتنا ہے اور یہ کہاں  سے آتا ہے؟جسے ہم غرور کہتے ہیں  وہ کسی تحریر کے سبجیکٹ کا لازمی نتیجہ ہو سکتا ہے۔ غرور غصہ بھی ہو سکتا ہے لیکن تحریر کے مقابلے میں  جب تقریر زیادہ غرور کا پتہ دینے لگے تو سمجھیے کہ ایک ادیب کی حیثیت سے ہماری نفسیاتی الجھن کتنی خطرناک ہے! ۲۰۲۴ء کے آخری لمحات میں  مَیں  سوچ رہا تھا کہ  ۲۰۲۵ء کی پہلی صبح اتنی ہی روشن ہوگی جتنی کہ آج کی صبح تھی۔ موسم ممکن ہے کل زیادہ ابرآلودہو۔ یہ اب ایک مخصوص صبح کے ساتھ نہ جانے کتنی صبحوں  کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ کلیم عاجز کا ایک شعر ہے:
 تو ہی اے گردش ایام ہے سب سے آگے
 تجھ سے آگے کوئی جاتا ہے تو ہم جاتے ہیں 

یہ بھی پڑھئے: آئین کو پڑھنا، سمجھنا اور اسکے تئیں بیدار ہونا ضروری

۲۰۲۴ء کی پیشانی پر کتنے لہو کے چھینٹے ہیں ۔ اس کا دامن کس قدر بے گناہوں  کے خون سے داغدار ہے۔ جن خطوں  میں  جنگ کی فضا پورے سال باقی رہی وہاں  کی انسانی زندگی کے بارے میں  سوچئے تو کتنی بے بسی کا احساس ہوتا ہے۔ ہمارے کلاسیکی شاعروں  نے معشوق کے ظلم اور جبر کے سیاق میں  خون کے چھینٹے کا ذکر کیا ہے،اس پر اپنے زمانے کے خون کے چھینٹے کا گمان ہوتا ہے۔ کیسے کیسے شعر کہے گئے، ان میں  شرمندگی کا احساس بھی شامل ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں  کہ اس برس کئی ایسی کتابیں  میرے مطالعے میں  آئیں  جن کا موضوع جنگ اور اس سے وابستہ مسائل ہیں ۔ ہان کانگ کو نوبیل پرائز ملا۔ ناول کا موضوع جنگ تو نہیں  تھا لیکن وہ ایک ایسی جنگ تھی جو اپنی ذات کے حوالے سے ایک گھر میں  لڑی گئی۔ عجیب اتفاق ہے کہ کوریا سے متعلق ایک ایسی کتاب مجھے مل گئی جو وہاں  کے نیوکلیئر نظام اور اس کی تیاری سے ہے لیکن یہ واقعہ ہے کہ موجودہ صورتحال سے ہماری غفلت دراصل ایک چھوٹی اور سمٹتی ہوئی دنیا کی تعمیر کا وسیلہ بن گئی ہے۔ ابر آلود موسم اپنے ساتھ کسی کیلئے سرشاری لاتا ہے تو کسی کیلئے اداسی۔ادب میں  لطف اندوز ہونے کا مطلب یہ تو نہیں  کہ تاریخ کی سفاکیت اور جنگ سے متعلق تحریروں  کا ذکر نہ کیا جائے۔ اچھی تحریر کا اثر بہرحال ہوتا ہے چاہے طبیعت میں  جتنی بھی سرشاری ہو۔ کہا جاتا ہے کہ ایک ادیب کی اصل زندگی وہ ہوتی ہی نہیں  جو اس کی تحریر میں  ہے۔ اس نظریے کی داد تو ہمیشہ ملتی رہے گی مگر ایک فرار بھی اس میں  پوشیدہ ہے۔ لسانی اظہار شخصی اظہار کب بنتا ہے اور کتنا بنتا ہے، اس سوال پر غور کرتے ہوئے عام طور پر ہم فیشن زدہ ہو جاتے ہیں ۔ کوئی وقت کا سلسلہ محض کتابوں  کے مطالعے سے یادگار اور اہم نہیں  ہو سکتا۔ کتابوں  کے ساتھ وہ زندگی بہت اہم ہے جو گزر رہی ہے یا جس سے لوگ نبرد آزما ہیں ۔ یہ زندگی اخباروں  اور رسالوں  کے وسیلے سے پہنچتی ہے۔اور یہ سب کچھ بھی معمول کا عمل بن جاتا ہے۔ اس برس اخباروں  کے کچھ تراشے جمع ہو گئے۔یہ تراشے دہلی میں  ہیں  اگر اس وقت میرے سامنے ہوتے تو میری تحریر کا رخ کچھ اور ہوتا۔ تراشوں  کو دیکھنا بہت ضروری ہے۔ان سے زندگی کا سراغ ملتا ہے۔ اس زندگی کا جس سے ہم بھاگنا چاہتے ہیں ،اور جو ہمارے تجربے میں  نہیں  آئی۔ اخباری تراشوں  سے اپنے زمانے کی کوئی تصویر بنائی جا سکتی ہے، کوئی کہانی لکھی جا سکتی ہے۔ کبھی لگتا ہے کہ ان مشاغل سے ان تراشوں  میں  پوشیدہ یا ظاہر زندگی بدل تو نہیں  جائے گی۔ پھر خیال آتا ہے کہ زندگی اسی طرح بڑھتی جاتی ہے اور اس کا کوئی ایک لمحہ ہماری زندگی کو بامعنی بنا دیتا ہے۔ نہ زندگی لوٹائی جا سکتی ہے اور نہ وقت لوٹ سکتا ہے۔ اس برس کتابیں  بہت جمع ہو گئیں ۔کچھ مطالعے میں  آئیں ،کچھ رہ گئیں  ۔ہر دن اور ہر تاریخ کے ساتھ ترجیحات کی تبدیلی بھلا کیسے ممکن ہے۔ بدلتی ہوئی ترجیحات کا رشتہ بدلتی ہوئی دنیا سے ہے۔ عام انسانی زندگی جتنی تیزی سے بدلتی ہے، اس کا سب سے بڑا حوالہ جنگ اور جنگ کے نتیجے میں  پیدا ہونے والی حوصلہ شکن صورتحال ہے۔کتابوں  کے نام مطالعے سے پہلے ذہن پر نقش ہو جاتے ہیں ۔کبھی مطالعے کے بعد کوئی نام اجنبی سا ہو جاتا ہے۔شاید پہلے کبھی لکھا ہے کہ جنگ سے متعلق تحریریں  ایک ہی طرح سے ہمیں  جھنجوڑتی ہیں ۔اردو میں  بہت کم ایسی تحریریں  سامنے آئیں  جن سے اپنے زمانے کا سراغ ملتا ہو اور سراغ رسانی کا یہ عمل تاریخ میں  دور تک جاتا ہوا دکھائی دے۔

gaza strip Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK