سمجھا رہا ہےکہ مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں’ لاڈلی بہن ‘اسکیم مہایوتی کی جیت کا سبب بنی لیکن میرے خیال میں ایسا نہیںہے، بلکہ ’ایک ہیں تو سیف ہیں‘ اور بٹیں گے تو کٹیں گے‘ جیسےنعروں نے ایک طبقے کے ووٹوں کو متحد کر دیا
EPAPER
Updated: December 09, 2024, 1:56 PM IST | P Chidambaram | Mumbai
سمجھا رہا ہےکہ مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں’ لاڈلی بہن ‘اسکیم مہایوتی کی جیت کا سبب بنی لیکن میرے خیال میں ایسا نہیںہے، بلکہ ’ایک ہیں تو سیف ہیں‘ اور بٹیں گے تو کٹیں گے‘ جیسےنعروں نے ایک طبقے کے ووٹوں کو متحد کر دیا
۱۶؍نومبر کو (انڈین ایکسپریس میں شائع ہونے والے) میرے اسی کالم میں ، میں نے لکھا تھاکہ مہاراشٹر انعام ہے۔مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہےکہ یہ انعام بی جےپی ، شیوسینا اوراین سی پی کے ا تحاد’ مہایوتی‘ نےجیت لیا ہے ۔مہایوتی نے ۲۸۸؍ میں سے ۲۳۰؍سیٹیں جیتی ہیں ۔
مہایوتی کی جیت کی اصل وجہ کیا ہے، یہ موضوع بحث ہے۔ زیادہ تر لوگ اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ لاڈ لی بہن یوجنا کا اس جیت میں بڑا کردار ہے۔ اسکیم کے تحت، شندے حکومت نے وعدہ کیا اوریکم جولائی ۲۰۲۴ء سے ہر مہینہ اس خاتون کے بینک اکاؤنٹ میں ۱۵۰۰؍ روپےمنتقل کئے جس کے خاندان کی آمدنی سالانہ ۲؍ لاکھ ۵۰؍ ہزار سے کم تھی ۔ اس اسکیم سے اب تک ڈھائی کروڑ لوگوں استفادہ کرچکے ہیں ۔ مہایوتی نے یہ بھی وعدہ کیا تھاکہ دوبارہ منتخب ہو نے پر یہ رقم بڑھا کر۲۱۰۰؍ روپے ماہانہ کر دی جائے گی۔ زرعی بحران ،بے روزگاری کی بلند شرح (بالخصوص دیہی خواتین میں )، غیر مناسب دیہی اُجرت اوربڑھتی ہوئی مہنگائی جیسےمسائل اسکیم کا محرک بنے ۔ یہ ایک منقول اسکیم تھی جسے مدھیہ پردیش، تمل ناڈو، کرناٹک اور تلنگانہ میں پہلے نافذ کیاجاچکا ہے۔ اس کے علاوہ، مہا وکاس اگھاڑی نے بھی وعدہ کیا تھا کہ اگر ایم وی اے اقتدار میں آتی ہے تو ہر غریب گھرانے کی خاتون کو۳ ؍ ہزارروپے ماہانہ دئیے جائیں گے۔بہرحال مختلف دلائل کے تجزیے سے میں یہ نہیں سمجھتا لاڈلی بہن اسکیم مہایوتی کی جیت میں فیصلہ کن عنصر ثابت ہوئی !!
میرے خیال میں ، مہاراشٹر اسمبلی انتخابات میں نیا عنصر وہ نفرت انگیز پیغام تھا جو مہاراشٹر کے ووٹروں کو وزیر اعظم مودی، امیت شاہ اور یوگی آدتیہ ناتھ کی سہ رخی قیادت نے دیا تھا اور آر ایس ایس کے رضاکاروں کی فوج نے اس کی تشہیر کاکام کیا ۔ ’ایک ہیں تو سیف ہیں ‘ ` اور ’بٹیں گے تو کٹیں گے‘ وہ نعرے تھے۔ ان میں بھلے ہی اتحاد کا پیغام تھا ،منقسم نہ ہونے کی بات تھی لیکن یہ ایک مخصوص طبقےکے خلاف مہم کا حصہ تھے ۔اس مہم میں ’لو جہاد‘ اور ’ووٹ جہاد‘ کے شوشے چھوڑے گئے اور اشتعال انگیز تقریریں کثرت سے کی گئیں ۔ ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ اور’ اربن نکسل‘ جیسے پرانے متنازع نعرے دوبارہ زندہ کئے گئے۔یہ نعرے اورپیغامات کس کے خلاف تھے، یہ بالکل واضح تھا، ان کی سمت متعین تھی اور یہ اپنے نشانے تک برابرپہنچے ۔ اسی کے پیش نظر میرے ذہن میں لوک سبھا انتخابات کے دوران کی گئی زہر افشانی یاد آگئی جس میں کہا گیا تھا کہ ’’اگر آپ کے پاس دو بھینسیں ہیں تو کانگریس ایک لے جائے گی۔ تمہارا منگل سوتر چھین لیا جائے گا اور یہ سب کچھ ان لوگوں کو دیا جائے گا جو زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں ۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ ان نعروں کے ذریعے کس طبقے کو ہدف بنانا تھا اورکس کے خلاف فضا تیار کرنی تھی او ر اس میں کوئی شک نہیں کہ جس فرقے کوراغب کرنا تھا اس کیلئے نام نہاد خطرہ کس فرقے کو بنایا گیا ۔ کالم نگار آر جگن ناتھن نے جو عام طور پر بی جے پی سے ہمدردی رکھتے ہیں ، ٹائمس آف انڈیا میں لکھتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ ’’یہ ہندو ووٹوں کے استحکام کیلئے طاقتور نعرہ ثابت ہوا۔‘‘ نئے نعرے آر ایس ایس کے سربراہ مو ہن بھاگوت کی امسال و جے دشمی کے دن کی گئی تقریر کی یاد دلاتے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا، ’’دنیا بھر کی ہندو برادری کو یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ غیر منظم اور کمزور ہونا شریروں کے مظالم کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔‘‘ نعرے اور تقاریر نفرت پر مبنی مہم اور ’’تقسیم کرو اور جیتو‘‘ کی انتخابی حکمت عملی کا حصہ تھے۔ یہ تقر یر اور اظہار رائے کی آزادی کا غلط استعمال تھا۔ انہوں (بھگوا لیڈروں ) نے ہندوستان کے آئین پر بھی طنز کیا۔ انہوں نے آئین کی دفعات۱۵،۱۶،۲۵،۲۵،۲۸(۲)،۲۸(۳)، ۲۹ اور۳۰؍ کو پامال کیا۔ یہ مہم مہا یکتی ( مہا حربہ یا چال) تھی جسے مہایوتی نے تیار کیا تھا۔
ہر ملک میں اقلیتیں ہوتی ہیں ۔ اقلیتیں مذہبی بھی ہوسکتی ہیں اور لسانی یا نسلی بھی ۔ امریکہ میں سیاہ فام اور لاطینی فرقے ہیں ۔ چین میں ایغور ہیں ۔ پاکستان اور بنگلہ دیش میں ہندو ہیں ۔ سری لنکا میں تمل اور مسلمان ہیں ۔اسرائیل میں عرب ہیں ۔ کئی یورپی ممالک میں یہودی اور رومی اقلیت میں ہیں ۔ یورپ کی کونسل نے قومی اقلیتوں کے تحفظ کیلئے فریم ورک کنونشن(۱۹۹۸ء) کو اپنایا ہے تاکہ مساوات کو فروغ دیا جا سکے اور قومی اقلیتوں کی ثقافت اور شناخت کو برقرار رکھا جا سکے۔بنیادی قوانین میں امریکہ میں سول رائٹس ایکٹ(۱۹۶۴ء) اور آسٹریلیا میں آبائی باشندوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے قوانین شامل ہیں ۔ دور اندیش ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر نے انہی پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئےہندوستان میں اقلیتوں کے حقوق کو آئین میں باقاعدہ درج کروایا اورانہیں بنیادی حقوق کا درجہ دیا۔
یہ بھی پڑھئے : جنوبی ایشیائی ممالک، باہمی روابط اور ترقی کے امکانات
ہندوستانی حکومت بنگلہ دیش اور پاکستان میں ہندوؤں کے حقوق کے بارے میں پرجوش طریقے سے آواز اٹھا رہی ہے۔ جب غیر ملکی یونیورسٹیوں میں ہندوستانی نژاد طلباء کو ہراساں یا زدوکوب کیا جاتا ہےتو ہمیں تشویش ہوتی ہے۔ جب بیرون ممالک مندروں یا گردواروں میں توڑ پھوڑ کی جاتی ہے تو ہمیں برہم ہوجاتے ہیں لیکن جب دیگر ممالک یا انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک پرسوال اٹھاتی ہیں تو وزارت خارجہ انہیں یہ کہتے ہوئے متنبہ کرتی ہے کہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کی جائے۔ یہ منافقت نہیں تو اور کیا ہے؟
بنگلہ دیش میں ایک ہندو راہب کو گرفتار کر لیاگیا ہے اور وہاں ’اسکون‘ پر پابندی کیلئے آوازیں اٹھ رہی ہیں ۔ ہمارے یہاں ایک ہندوستانی مٹھ کے سربراہ نےکہا ہے مسلمانوں کو ووٹ دینے کے حق سے محرو م کردیاجائے۔ جمہوریت میں دونوں ناقابل قبول ہیں ۔ اگر این ڈی اے ’تقسیم کرو اور جیتو‘ کا کھیل جاری رکھے گاتو یہ خود اس کیلئے پریشان کن ثابت ہوگا کیونکہ یہ ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کے مذموم برطانوی کھیل سےکچھ مختلف نہیں ہے۔