• Wed, 15 January, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo

جنوبی ایشیائی ممالک، باہمی روابط اور ترقی کے امکانات

Updated: December 08, 2024, 1:38 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

ان ملکوں میں جو کبھی برصغیر کا حصہ تھے، باہمی رابطے بہتر اور مستحکم ہوسکتے ہیں بشرطیکہ ہم اُن ممالک سے استفادہ کریں جو ہزار تلخیوں کے باوجود شیر و شکر ہوئے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

بی جے پی کے رام مادھو نے گزشتہ دنوں  ایک مضمون لکھا ہے جس کا عنوان ہے: ’’جنوبی ایشیاء کی ترقی کیلئے فرقہ پرستی ختم ہونی چاہئے!‘‘ مضمون کے متن میں  دو اہم نکات اُٹھائے گئے ہیں ۔ پہلا یہ ہے کہ ’’جنوبی ایشیاء پوری دُنیا میں  سب سے تیز رفتار ترقی کرنے والا خطہ ہے۔‘‘ بنگلہ دیش اور پاکستان، جو ماضی میں  ہندوستان ہی کا حصہ تھے، میں  جس قسم کے حالات رونما ہوئے ہیں  اُن کے باوجود اس خطہ کی شرح نمو ۶؍ فیصد سے زیادہ رہنے کی اُمید ہے۔
 دوسرا نکتہ اُنہوں  نے یہ اُٹھایا کہ خوشحالی کیلئے جنوبی ایشیاء کو فرقہ پرستی سے پنڈ چھڑانا پڑے گا۔ یہ بہت اچھا نسخہ ہے مگر سوال یہ ہے کہ پنڈ چھڑانا کس طرح ممکن ہوگا؟ چونکہ یہی موضوع میری آئندہ کتاب کا ہے اس لئے مجھے احساس ہے کہ یہ کتنا پیچیدہ سوال ہے۔ مَیں  نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جنوبی ایشیاء کیلئے اپنے حالات خوشگوار بنانا اُس وقت تک ممکن نہیں  ہے جب تک خارجی حالات درست نہ ہوں ۔ بہ الفاظ دیگر، ہندوستان میں  بہتر حالات کی توقع نہیں  کی جاسکتی اگر اُن ملکوں  سے ہمارے تعلقات بہتر نہ ہوں  جو کل تک ہمارا یعنی غیر منقسم ہندوستان کا حصہ تھے۔ 
 مگر یہاں  بھی ایک سوال ہے کہ خارجی حالات کو کیسے ٹھیک کیا جاسکتا ہے؟ فی الوقت ہمارے خطے کی حالت یہ ہے کہ ہم (پاکستان کے ساتھ) کرکٹ نہیں  کھیل سکتے، ایک دوسرے کو آسانی سے ویزا نہیں  دیتے، بنگلہ دیش سے ہمارے تعلقات پہلے جیسے نہیں  رہ گئے ہیں ، اس میں  کسی نہ کسی سطح پر تلخی آئی ہے، وغیرہ۔ اس کے باوجود اگر ہمیں  خطہ کے حالات کو بہتر بنانا اور اپنے داخلی حالات کو سنوارنا ہے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ دُنیا کے اُن ملکوں  نے کیا کیا جن میں  کل تک رسہ کشی تھی، تلخی تھی مگر اُنہوں  نے اپنے رابطوں  کو بہتر بنانے میں  کامیابی حاصل کی۔ جن ملکوں  کا تذکرہ یہاں  مقصود ہے اور جن کی مثال پیش کی جارہی ہے اُن میں  باہمی تعلقات کچھ زیادہ ہی خراب تھے۔ 
 آپ جانتے ہیں  جرمنی اور فرانس دونوں  عالمی جنگوں  میں  ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔اس دوران لاکھوں  شہریوں  کی جانوں  کا اتلاف ہوا۔پہلی عالمی جنگ کا مغربی محاذ فرانس ہی کی سرزمین تھی۔ مغربی محاذ پر جو جنگ ہوئی وہ فرانسیسی سرزمین پر ہوئی۔ ہٹلر کے دور میں  جرمنی نے فرانس کو اپنے تسلط میں  لے لیا مگر آج یہ ممالک اپنے تعلقات اور رابطے بہتر کئے ہوئے ہیں ۔ انہوں  نے خود کو ایک دوسرے میں  ضم نہیں  کیا بلکہ فرانس فرانس اور جرمنی جرمنی ہے۔ دونوں  آزاد اور خود مختار ممالک ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی ان ملکوں  نے تجارت اور معیشت کے معاملات میں  اپنے رابطے بہتر اور مستحکم بنا لئے ہیں ۔
 یورپی یونین کی تشکیل دوسری جنگ عظیم کے بعد شروع ہوئی اور یہ سلسلہ اسٹیل اور کوئلہ کی صنعتوں  کی یکجہتی سے آگے بڑھا جس کی اہمیت اس لئے ہے کہ یہ صنعتیں  جنگی تیاریوں  سے براہ راست مربوط تھیں ۔ اس پس منظر میں  آسیان کو دیکھئے جو جنوب مشرقی ایشیائی ملکوں  کی تنظیم ہے۔ اس تنظیم سے وابستہ ملکوں  کے درمیان بھی کافی تلخی رہی۔ سنگاپور نے دو انڈونیشیائی جہاز رانوں  کو پھانسی کی سزا سنائی تھی جن پر سنگاپور میں  بمباری کا الزام ثابت ہوا تھا۔ آج یہ خطہ بھرپور معاشی و تجارتی سرگرمیوں  کا مرکز ہے۔ یہاں  بودھ، مسلم، ہندو، کمیونسٹ گویا ہر طرح کے لوگ رہتے ہیں  اور دونوں  ممالک ایک دوسرے کوبغیر ویزا سفر (ویزا فری ٹریویل) کی سہولت دیتے ہیں ۔
 چین نے کئی صدیوں  تک ویتنام پر اپنا تسلط برقرار رکھا۔ تسلط کے اُس دور کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ویتنامی باشندےاُس دور کو آج بھی نہیں  بھول پائے ہیں  اس کے باوجود وہ چین سے تجارتی لین دین میں  پیچھے نہیں  ہیں ۔ اسی طرح چین نے جاپان سے بھی بیر نہیں  رکھا جس پر اس کا تسلط تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ نیتا جی کی انڈین نیشنل آرمی (آزاد ہند فوج) نے جاپانی فوج سے اتحاد کیا تھا جو اتحادیوں  سے سنگاپور کی شکست تک جاری رہا تھا۔ 
 یورپ اور آسیان ممالک سے استفادہ کیا جائے تو وہ ممکن ہے جو رام مادھو کہہ رہے ہیں ۔ اُن کا انحصار زیادہ تر دوسروں  پر ہے اور اُنہیں  یقین ہے کہ ہندوستان اپنی جگہ پر بالکل درست ہے اور اسے کوئی خاص تبدیلی اپنے اندر لانے کی ضرورت نہیں  ہے کیونکہ فرقہ پرستی ہی وہ رکاوٹ ہے جسے دور کرنا اہم تقاضا ہے ۔ اس مطمح نظر سے بحث کی جاسکتی ہے مگر فی الحال مَیں  صرف یہ کہہ رہا ہوں  کہ پڑوسی ملکوں  سے تعلقات کی اُسی نہج پر کوشش کی جاسکتی ہے جس نہج پر متذکرہ ملکوں  نے کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ معاملات کو اس طرح استوار کرنے کی جانب کیسے بڑھا جائے؟ رام مادھو نے اس سوال سے بحث نہیں  کی ہے مگر مَیں  جس کتاب کو مکمل کرنے میں  مصروف ہوں  اُس میں  یہی سوال بنیادی نکتہ ہے اس لئے بھی کہ عالمی بینک ہمارے بارے میں  جو رائے رکھتا ہے وہ اہم ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیاءتجارتی اور معاشی رابطوں  کے علاوہ عوام سے عوام کے رابطے کے معاملے میں  دُنیا کا سب سے کم مربوط خطہ ہے۔

یہ بھی پڑھئے: آبرو کو دیکھئے بے آبرو ہوتے ہوئے

 جنوب مشرقی ایشیاء کی کل تجارت میں  بنگلہ دیش، ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کاروبار کا حصہ صرف ۵؍ فیصد ہے۔عالمی بینک کے مطابق سرحدی چیلنجوں  کے سبب ایک ہندوستانی کمپنی کیلئے کسی جنوب ایشیائی ملک کے ساتھ تجارت کے مقابلے برازیل سے کاروبار ۲۰؍ فیصد سستا ہے۔ بینک کہتا ہے کہ ’’روایتی خدشات کو بالائے طاق رکھ کر مشترکہ مسائل حل کئے جا سکتے ہیں ۔‘‘ روایتی خدشات کیا ہیں ؟ تجارت کیلئے تیار نہ ہونا، وہ دشمنی جس نے لوگوں  اور سرمائے کی سرحدوں  کے پار نقل و حرکت کو ختم کر دیا ہے، اور سب سے اہم سیاسی تخیل کی عدم موجودگی۔ علاقائی تعاون جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کی ترقی میں  اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ہمیں  ایک دوسرے کے ساتھ تجارت بڑھانا، لوگوں  کی نقل وحمل کو آسان بنانا اور مستقبل کے چیلنجز پر ساتھ کام کرنا چاہئے۔ اس کیلئے سب سے بڑے ملک کو قیادت سنبھالنی ہوگی۔ ہمیں  اس سے زیادہ فائدہ ہونے کا امکان ہے۔ بظاہر یہ حل آسان ہے لیکن درحقیقت اسے اندرونی قوم پرستی نے مشکل بنا رکھا ہے۔ بیشتر افراد اس کا حل نہیں  چاہتے کیونکہ مسئلہ کو یا تو ٹھیک طرح سے نہیں  سمجھا جاتا یا جیسا کہ کچھ سیاسی جماعتوں  کے معاملے میں  فرقہ واریت کا مسئلہ ان کے وجود کی وجہ ہے۔

china Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK