ہمارے ملک میں آبادی کے الگ الگ طبقات ہیں۔ اعلیٰ یا خوشحال طبقات کو حاشئے پر رہنے والوں کی مشکلات کا علم ہے نہ احساس ہے نہ فکر ہے۔ جب تک اُن کی فکر نہیں کی جائیگی ملک کی حقیقی ترقی کا خواب ادھورا ہی رہے گا، کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔
EPAPER
Updated: October 27, 2024, 3:38 PM IST | Aakar Patel | Mumbai
ہمارے ملک میں آبادی کے الگ الگ طبقات ہیں۔ اعلیٰ یا خوشحال طبقات کو حاشئے پر رہنے والوں کی مشکلات کا علم ہے نہ احساس ہے نہ فکر ہے۔ جب تک اُن کی فکر نہیں کی جائیگی ملک کی حقیقی ترقی کا خواب ادھورا ہی رہے گا، کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔
برطانیہ کا متوسط طبقہ ۶۰؍ فیصد آبادی پر مشتمل ہے۔ مزدوری پیشہ طبقہ جس میں وہ لوگ شامل ہیں جنہیں ’’بلیو کالر ورک‘‘ کرنے والا قرار دیا جاتا ہے وہ ۱۴؍ فیصد ہے۔ اس پس منظر میں ہندوستان کا جائزہ لیجئے تو معلوم ہوگا کہ ہمارا متوسط طبقہ بہت محدود ہے۔ علم شماریات کے ماہرین اکثر کہتے ہیں کہ اُن کے پیش کردہ جائزہ میں منفی ۲؍ یا مثبت ۲؍ کا فرق رکھئے۔ ہندوستانی متوسط طبقہ اتنا محدود ہے کہ منفی دو یا مثبت دو سے تو یہ ختم ہی ہوجائیگا۔ اس کے باوجود یہی وہ طبقہ ہے جو ملک کی سیاست پر غالب اثر رکھتا ہے اور سب سے زیادہ نمایاں ہے۔ ذرائع ابلاغ بھی اسی طبقے کو ذہن میں رکھ کر اپنی ترجیحات کا تعین کرتے ہیں کیونکہ انہیں اشتہارات درکار ہوتے ہیں ۔ ہم آپ جو کچھ بھی خریدتے ہیں اُس سے ہونے والی آمدنی کا ایک حصہ میڈیا میں صرف ہوتا ہے۔ اسی لئے میڈیا کے مشمولات کے مخاطب ہم آپ ہی ہوتے ہیں یعنی متوسط طبقہ جو ۳؍ فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ ملک میں دلت ۲۳؍ کروڑ، ادیباسی ۱۱؍ کروڑ اور مسلمان ۲۰؍ کروڑ ہیں ۔ ان کی مشترکہ آبادی ملک کی مجموعی آبادی کا ۴۰؍ فیصد ہے چنانچہ یہ سوال فطری ہے کہ اس طبقے کی کتنی نمائندگی معیشت میں ، سیاست میں اور ذرائع ابلاغ میں ہے۔
ہندوستان میں اکتوبر ۱۸ء اور مارچ ۱۹ء کے درمیان کئے گئے آکسفیم کے ایک سروے میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ ہندی چینلوں کے ۴۰؍ اینکر اور انگریزی چینلوں کے ۴۷؍ اینکر، جو مختلف موضوعات پر مباحثوں کا انعقاد کرتے ہیں وہ سب اعلیٰ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان میں ایک بھی دلت نہیں ہے۔ ایک بھی ادیباسی نہیں ہے۔ یہ اینکر جن مہمانوں کو مباحثے کیلئے مدعو کرتے ہیں اُن کی اکثریت (۷۰؍ فیصد) اعلیٰ ذاتوں سے تعلق رکھنے والوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اخبارات کا حال یہ ہے کہ ان کے قلمی معاونین میں صرف ۵؍ فیصد دلت اور ادیباسی ہوتے ہیں ۔ سروے کے دوران جن ۱۲؍ رسائل کا جائزہ لیا گیا اُن کے صفحہ اول پر جن موضوعات کو اُجاگر کیا گیا وہ بھی چونکاتے ہیں ۔ سروے میں ۹۷۲؍ مضامین کا جائزہ لیا گیا صرف ۱۰؍ ایسے تھے جن کا موضوع ذات پات یا طبقات تھا۔ یہی نہیں ، اعلیٰ طبقات میں یہ خیال عام ہے کہ اُنہیں اُن کا حق اس لئے نہیں مل پاتا کہ اُنہیں جو مقام ملنا چاہئے وہ دلتوں اور ادیباسیوں کے ذریعہ ’’چرا‘‘ لیا جاتا ہے۔ ان کے خیال میں ریزرویشن کی وجہ سے میرٹ کا بڑا نقصان ہورہا ہے۔
وہ رپورٹیں جن میں کہا جاتا ہے کہ آئی آئی ایم میں او بی سی اور شیڈولڈ کاسٹ کے لئے محفوظ ۶۰؍ فیصد اسامیاں خالی ہیں اعلیٰ طبقات کے مذکورہ خیال کی نفی کرتی ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ریزرویشن سے میرٹ کا نقصان ہورہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ریزرویشن کی جگہیں خالی رکھی جاتی ہیں ۔
یونیورسٹیوں میں ادیباسی پروفیسروں کیلئے محفوظ ۶؍ ہزار سے زائد اسامیوں کو پُر نہیں کیا گیا۔ اُن اداروں میں جہاں ریزرویشن کو قانونی طور پر لازم قرار دیا گیا وہاں بھی دلتوں اور ادیباسیوں کی تقرری میں کراہت محسوس کی گئی۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم سب اُن (دلتوں اور ادیباسیوں ) کے ساتھ ہمدردی رکھیں ۔ اس موضوع پر مَیں نے بنگلورو کے ایک ایسے اسکول میں اظہار خیال کیا جہاں اعلیٰ اور خوشحال گھرانوں کے بچے پڑھتے ہیں ۔ مقصد یہ تھا کہ وہ جان لیں کہ دلتوں اور ادیباسیوں کے بارے میں اگر کچھ کیا بھی جاتا ہے تو وہ نہ کرنے کے برابر ہی ہوتا ہے۔ اگر ہم اچھے شہری اور اچھے محب وطن بننا چاہتے ہیں توان لوگوں کیلئے ہمارا سب سے اہم عطیہ یہ ہوگا کہ ہم ان کی زندگی میں بہتری کیلئے معاون ہوں ۔ وہ اس طرح کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے اُس کا کچھ حصہ اُن کی نذر کریں جو اُن کے پاس نہیں ہے۔ ہمارا آئین کہتا ہے کہ ہندوستان مساوات، آزادی اور تکثیریت پر مبنی سماج ہے لیکن اس کی اُمید حکومت سے یا سیاسی جماعتوں سے رکھنا اور خود کچھ نہ کرنا ٹھیک نہیں ۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ اس سلسلے میں ہم اُن سے جواب طلب کریں ۔ ہماری یہ بھی ذمہ داری ہے کہ کچھ جگہیں اُن کیلئے چھوڑ دیں کیونکہ وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں ، فرق صرف اتنا ہے کہ ہم خوشحال گھرانوں میں پیدا ہوئے اور وہ اتنے ’’خوش قسمت‘‘ نہیں ہیں ۔
یہ ساری باتیں مَیں نے کہیں اور آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ میرے سامعین نے ان باتوں کو پسند نہیں کیا۔ طلبہ کو اِن خیالات میں کوئی معنویت دکھائی نہیں دی۔ اُن کا خیال تھا کہ اگر وہ سماج میں برترہیں اور اچھے اسکول میں زیر تعلیم ہیں تو یہ میرٹ کی وجہ سے ہے۔ مَیں اس صورت حال پر متعجب تو نہیں ہوا مگر نا اُمید ضرور ہوا۔ آخر یہ ایسا اسکول تھا جو سماج ہی میں جنما مگر سماج سے مختلف تھا۔ اس میں طلبہ کا قصور تھا مگر اُنہیں کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جاسکتا کیونکہ وہ زندگی کے زمینی حقائق سے واقف نہیں ہیں ۔ اگر اُن کے سامنے اعدادوشمار ہوتے، اُن کے سامنے دلتوں اور ادیباسیوں کے ساتھ برتے جانے والے امتیازات کی تصویر ہوتی اور اُن کی پریشانیوں کا اُنہیں علم ہوتا تو یقینا اُن کا نقطۂ نظر دوسرا ہوتا۔ ہم سب انسان ہیں اور انسانیت ہی وہ شے ہے جو ہم سب میں مشترک ہے۔مَیں اُنہیں بتانا چاہتا تھا کہ ہمارے یہاں تعصب اور جذبۂ تحقیر کیا کیا رُخ اختیا رکرتا ہے مگر تیس منٹ میں اتنا سب بیان کرنا ممکن نہیں تھا۔ پروگرام کے اخیر میں مجھے لگا کہ مَیں اُن کی معلومات میں کوئی اضافہ نہیں کرسکا۔
یہ بھی پڑھئے: کیا کہیں، کس سے کہیں اور کیوں کہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ سماج کا بہت بڑا طبقہ غربت، محرومی اور چند طبقات کے حاشئے پر ہونے کی صورت حال کے تئیں بالکل بے حسی کا شکار ہے اس کے باوجود یہی بہت بڑا طبقہ سمجھتا ہے کہ ہندوستان بہت جلد دُنیا کی بڑی معیشتوں میں اور ترقی یافتہ ملکوں میں شامل ہوجائیگا۔ہم میں سے اکثر لوگ اس بات کا احساس نہیں رکھتے کہ آبادی کا جو طبقہ آج غریب ہے کل وہ اسی غربت میں اس دُنیا سے رخصت ہوجائیگا۔ ہم ایسے ملک کے باسی ہیں جس کا دفاعی بجٹ صحت عامہ کے بجٹ سے چار گنا زیادہ ہے۔ جو تعلیم پر ہونے والے خرچ سے پانچ گنا زیادہ اسلحہ خریدنے پر خرچ کرتا ہے۔ یہ ہماری یعنی ملک کے تمام شہریوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنی حکومت پر اثر انداز ہوکر اس کی ترجیحات کو بدلنے کی کوشش کریں ۔